کاش تم خودکشی نہ کرتے


خودکشی ایک ایسی موت ہے جسے دین اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے، ایسی موت مرنے والے کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوجاتی ہیں۔ جاپان میں تو خودکشی کو ایک روایت سمجھا جاتا ہے جو سمورائی کے ’سپیوکو‘ کے عمل کرنے یا سنہ 1945 میں نوجوان ’کامی کازی‘ کی ثقافت کے طور پر کرتے ہیں۔ لیکن مذہب اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ خودکشی کرنے والا خود تو حرام موت مرتا ہی ہے ساتھ ہی پیچھے بچنے والے ورثا کی زندگی بھی عذاب بنا جاتا ہے، کہتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے شخص کی ”بخشش“ نہیں ہوتی۔ شاید اسی سے بچنے کے لئے ہمارے وزیر اعظم نے وہ عہد فراموش کر دیا جو انہوں نے بطور ”اپوزیشن لیڈر“ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ خودکشی کرلوں گا لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاؤں گا۔ یوٹرن کا طعنہ تو سہ لیا لیکن اپنے آپ کو بڑے گناہ سے بچالیا۔ ان کے اس ”گناہ“ کی 22 کروڑ عوام بھاری قیمت چکا چکے ہیں اور چکا رہیں اور نہ جانے کب تک چکاتے رہیں گے؟

نئے سال کے ساتھ ملک میں مہنگائی کے نئے طوفان نے استقبال کیا۔ منی بجٹ کے نام پر پہنائے گئے غلامی کے طوق نے 140 سے زائد اشیا پر 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس کو بڑھا دیا۔ امپورٹڈ ملبوسات سے لے کر بچوں کی خوراک تک سب مہنگے ہوجائیں گے، مکھن، پنیر پر سیلز ٹیکس بڑھانے سے عام آدمی ہی متاثر ہو گا، مٹن اور بیف تو غریب کی پہنچ سے باہر تھے ہی اب مرغی کے گوشت کو بھی پر لگ جائیں گے، فارما آئٹمز پر بھی سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے، اگر چہ یہ قابل واپسی ہے لیکن عام آدمی کی مشکل بڑھ جائے گی۔ کپڑوں اور لیدر کی مصنوعات پر 12 فیصد سیلز ٹیکس ہونے سے کپڑے اور لیدر کی مصنوعات مزید مہنگی ہوجائیں گی۔

سب کچھ سابقہ حکومتوں پر ڈال دینا بہت آسان ہے لیکن اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا بہت مشکل ہے، جھوٹ بھی ایک حد تک بولا جاسکتا ہے، عالی جاہ خود فرماتے تھے کہ ”عوام کو زیادہ دیر بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا“ ۔ حقیقت یہ ہے حکومت کا افراط زر بڑھانے میں خود بہت بڑا ہاتھ ہے، منی بجٹ سے واضح ہوجاتا ہے کہ ان کو کسی کی فکر نہیں۔ ان کو عوام کی فکر ہے نہ ملک کی فکر ہے۔ ایک ایجنڈا ہے کہ آئی ایم ایف کو کس طرح خوش کیا جائے، یہ سارا سودا ایک ارب ڈالر لینے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ اگر پچاس ارب ڈالر یا اس سے زیادہ کا پیکج ملتا تو الگ بات تھی، پھر سمجھا جاتا کہ حکمران اصلاحات کریں گے اور آئی ایم ایف کی طرف نہیں جائیں گے، جس طرح ہمارے ہمسائے ملک بھارت نے کیا تھا، ایک بار ملک کا سارا سونا رکھ ملک کو مشکل سے نکالا اور پھر آئی ایم ایف کا رخ نہیں کیا۔

ہمارے پاس چوائس تھی کہ ہم مزید قرض نہ لیتے، قرض دینے کے لئے قرض لینا افسوس کی بات ہے، اس وقت ہماری معیشت آئی ٹی پر چلتی ہے، ان پر ٹیکس بڑھے گا تو لوگ کیسے اس کاروبار کی طرف آئیں گے، یہ چیزیں سٹوڈنٹس کے استعمال کی ہیں، نوجوانوں کے لئے ہیں۔ حکومت آج کی مصیبت سے بچنے کے لئے مستقبل کو ڈبو رہی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اس بارے میں سوچا نہیں گیا۔ ہم آئی ایم ایف کے محتاج ہو کر رہ گئے۔ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے اور بڑھیں گے۔ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جاتے ڈیفالٹ نہیں کر جانا تھا۔ ہم نے قرض واپس کرنے ہیں لیکن ایک دو ارب دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم قرض لیتے رہے تو قرض بڑھتا جائے گا۔ قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں۔ رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔ کے مصداق مدہوش ہیں۔ جب نشہ اترے گا تو قافلہ لٹنے کا اندازہ ہو گا۔

شوق سے کوئی بھی ملک آئی ایم ایف کے پاس نہیں جاتا۔ بڑے بڑے ملک ہیں جو مجبور ہو کر جاتے ہیں، ساہوکار کے پاس مجبوری کے لئے انسان جاتا ہے، جب کوئی قرض دیتا ہے تو اس کی اپنی شرائط ہوتی ہیں، آئی ایم ایف مغرب کی معاشی سیاست کو کنٹرول کرنے کا ایک ہتھیار ہے، اس پر امریکا اور مغربی ملکوں کی اجارہ داری ہے۔ قرض لینے والے ملکوں سے نہ صرف مقامی معیشت کو کنٹرول کیا جاتا ہے بلکہ ان ملکوں کی خارجہ پالیسی پر بھی شرائط عائد کی جاتی ہیں۔ پاکستان چاہتا تو ترکی کی طرح آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھا سکتا تھا۔ اردگان کو تو امریکی پابندیاں نہ جھکا سکیں لیکن ہمارا ”اردگان“ سجدہ ریز ہو گیا۔ اب ان کی اپنی شرائط ہیں۔ وہ اپنے ہنٹر سے معاشی گھوڑا دوڑائیں گے۔ آئی ایم ایف پاکستانی عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے پر تلا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط مانی گئیں۔

یہ نہیں کہ سب برا ہے حکومت کے نئے ”منی بجٹ“ سے معیشت کو کچھ فوائد بھی حاصل ہوں گے، دیکھیں ہمیں ہر چیز تو امپورٹ کرنی پڑتی ہے، اس لئے ٹیکس بھی بڑھانے پڑتے ہیں۔ ہماری زیادہ امپورٹس، ایکسپورٹس بڑھانے کے لئے نہیں ہو رہیں، مقامی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہیں۔ ادویات کی انڈسٹری میں دستاویزی صنعت کو ٹیکس ریفنڈ ہو گا، غیر دستاویزی صنعت کو نہیں ہو گا۔ اس سے حکومت کو فائدہ ہو گا۔ اگر بر وقت ری فنڈ مل گیا تو ادویات سستی ہوجائیں گی۔ امیر لوگوں نے باہر کی اشیا خریدنا رواج بنالیا ہے کے باعث امپورٹس بڑھ جاتی ہے، اب مارکیٹ میں ایسی ایسی چیزیں موجود ہیں جو واشنگٹن، لندن اور دبئی کے بازاروں میں بھی ملتی ہیں۔ باہر کی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانا بھی اچھی بات ہے۔

حکومت سے ریلیف کی کوئی امید نہیں۔ اپوزیشن اس معاملے میں سنجیدہ نہیں۔ ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہو گا۔ سماجی عادات میں تبدیلی سے ہی ریلیف مل سکتا ہے، حکومت مہنگائی کم کرنے میں، معیشت ٹھیک کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو ”ڈنگ ٹپاؤ“ پالیسی نہ اپناتی۔ کفایت شعاری مہم کا یہ حال ہے کہ وزیروں اور مشیروں کی تعداد ساٹھ کے لگ بھگ ہے، جن کی ٹھاٹھ باٹھ پر کروڑوں، اربوں خرچ ہوتے ہیں، صرف وزیر اعظم کے 18 معاونین خصوصی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ”بلومبرگ“ نے خبردار کیا تھا کہ معاشی چیلنجز آنے والی حکومت کا استقبال کریں گے، نئی حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا لیکن کپتان ایک پہاڑ کی طرح ڈٹا رہا، بار بار خود کشی کرنے کا کہتے رہے۔ جب پانی سر سے گزرنے لگا، وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے نکل گیا تو کپتان کی آنکھیں کھلیں۔ وہی کیا جو ماہرین کہہ رہے تھے۔ حقیقت میں حکومت خودکشی کرچکی ہے۔ یہ خودکشی آئی ایم ایف کے پاس نہ جاکر نہیں کی گئی بلکہ ان کے تختہ پر ہی لٹک کر حرام موت کا تمغہ سینے پر سجایا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments