رحمان ملک: پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رحمان ملک وفات پا گئے

شہزاد ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


رحمان ملک
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک کووڈ 19 سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث 70 سال کی عمر میں اسلام آباد کے ایک مقامی ہسپتال میں وفات پا گئے ہیں۔

رحمان ملک کے ترجمان ریاض علی طوری نے ان کے انتقال کی اطلاع نصف شب تین بجے ٹوئٹر کے ذریعے دی جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے ان کی وفات پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا ہے۔

پاکستان میں وزیر اعظم کے عہدے کے بعد عموماً بیشتر اراکین پارلیمنٹ کی خواہش ہوتی ہے کہ اگر انھیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا جائے تو کچھ اور نہیں مگر وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا جائے۔ اس وزارت کے لیے نہ صرف سیاسی لابنگ کی جاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ مقتدر حلقوں کی آشیرباد کا ہونا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔

رحمان ملک کو سنہ 2008 کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنتے ہی وزارت داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا تھا حالانکہ وہ اس وقت وہ رکن پارلیمان نہیں تھے۔ انھیں داخلی امور کے حوالے سے وزیر اعظم کا مشیر مقرر کیا گیا تھا۔

رحمان ملک پیپلز پارٹی کے ان چند لوگوں میں شامل تھے جن کا شمار سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں کیا جاتا تھا۔

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ہی سندھ سے سینیٹ کا الیکشن جیتنے کے بعد رحمان ملک کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا تاہم سپریم کورٹ کی طرف سے دوہری شہریت کے معاملے پر انھیں اس وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے بعد رحمان ملک کو دوبارہ داخلہ امور پر وزیر اعظم کا مشیر بنا دیا گیا۔

سنہ 2012 میں دورہ انڈیا کے دوران نظام الدین اولیا کے درگاہ پر

سنہ 2012 میں دورہ انڈیا کے دوران نظام الدین اولیا کے درگاہ پر

سرکاری ملازمت

رحمان ملک سیاست میں آنے سے پہلے پاکستانی وزارت داخلہ کے محکمہ امیگریشن میں کام کرتے تھے اور پھر یہاں سے ترقی کرتے ہوئے وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت، سنہ 1993 سے سنہ 1996 تک، میں وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات کیے گئے۔

رحمان ملک کے دور میں لوگوں کے دلوں میں ایف آئی اے کی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ لوگ بظاہر اس سے خوفزدہ تھے۔

صحافی یعقوب ملک کے مطابق اس وقت یہ صورتحال تھی کہ اگر کوئی کسی شخص کے خلاف ایف آئی اے میں درخواست دیتا تو جس شخص کے خلاف درخواست دی جاتی اس کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ ایف آئی اے کے حکام اس درخواست پر کارروائی کرنے سے پہلے درخواست گزار سے اپنے معاملات طے کر لیں۔

اس عرصے کے دوران کچھ بیوروکریٹس کو ایف آئی اے کا سربراہ یعنی ڈائریکٹر جنرل بھی لگایا گیا لیکن لوگ ان کے نام سے واقف نہیں ہوتے تھے بلکہ صرف رحمان ملک کو جانتے تھے۔

اس عرصے کے دوران انھوں نے امریکی سی آئی اے کے ساتھ مل کر ایک آپریشن کے دوران امریکہ کو مطلوب رمزی یوسف کی گرفتاری میں مدد دینے کے ساتھ ساتھ انھیں امریکہ کے حوالے کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

اسی عرصے کے دوران رحمان ملک نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے والد کو بھی گرفتار کیا جس پر شریف فیملی کے ارکان ان کے شدید خلاف ہو گئے تھے۔

بینظیر

میاں شہباز شریف کو بھی انہی کے دور میں ایف آئی اے نے گرفتار کیا تھا۔

سنہ 1996 میں جب اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے بےنظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو اس کے بعد سب سے پہلے اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے غلام اصغر اور ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل رحمان ملک کو مبینہ طور پر کرپشن کے کیسز میں گرفتار کیا گیا۔

ایک سال تک رحمان ملک جیل میں رہے اور جب پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت آئی تو وہ بیرون ملک چلے گئے۔

میاں نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعد انھوں نے رحمان ملک کو ایف آئی اے کی نوکری سے برطرف کر دیا۔ رحمان ملک نے اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو دو سو صفحات پر مشتمل ایک خط لکھا تھا جس میں شریف خاندان کی کرپشن کا ذکر کیا گیا تھا۔

برطانیہ میں پناہ لینے کے بعد رحمان ملک نے وہاں اپنی پرائیویٹ سکیورٹی کمپنی بنا لی۔

سنہ 1999 میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے نواز شریف کی حکومت کو برطرف کرنے کے بعد لگائی گئی ایمرجنسی کے بعد جب بےنظیر بھٹو جلاوطنی میں تھیں تو اس وقت بھی انھوں نے بینظیر کی سکیورٹی کے معاملات میں اُن کی معاونت کی۔

انھوں نے برطانیہ میں قیام کے دوران سابق وزیر اعظم بےنظیر بھٹو اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو سیاسی اختلافات بھلا کر ایک دوسرے سے تعاون کرنے پر آمادہ کیا۔

رحمان ملک

بےنظیر بھٹو کو رحمان ملک پر اتنا اعتماد تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے درمیان میثاق جمہوریت کا معاہدہ بھی رحمان ملک کے گھر پر ہوا تھا جس پر دونوں سابق وزرائے اعظم نے دستخط کیے تھے۔

اگرچہ شریف برادران نے ان کے گھر جانے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن اس کے باوجود انھیں رحمان ملک کے گھر ہی جانا پڑا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے درمیان مصالحت کروانے میں بھی رحمان ملک کا اہم کردار رہا ہے اور اسی کی بدولت قومی مصالحتی آرڈیننس بھی جاری ہوا جس کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کے خلاف ہزاروں مقدمات ختم کر دیے گئے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا۔

اکتوبر سنہ 2007 میں جب بےنظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو رحمان ملک ان کے ساتھ بطور چیف سکیورٹی افسر آئے۔ 27 دسمبر 2007 کو لیاقت باغ کے باہر جب بےنظیر بھٹو پر خودکش حملہ ہوا تو اس وقت بھی رحمان ملک بےنظیر بھٹو کے ساتھ تھے اور اس واقعے کے بعد ان کے کردار پر کافی انگلیاں اٹھائی گئی ہیں۔

اس واقعے میں جب بےنظیر بھٹو کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا تو رحمان ملک اور گاڑی میں موجود دیگر قائدین ہسپتال کے بجائے ایف ایٹ میں واقع زرداری ہاؤس پہنچ گئے۔ اس عرصے کے دوران جب صحافیوں نے جب رحمان ملک سے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ بےنظیر بھٹو خیریت سے ہیں اور وہ انھیں لے کر ایف ایٹ پہنچ گئے ہیں۔

صحافی شکیل انجم کہتے ہیں کہ بےنظیر بھٹو پر ہونے والے خودکش حملے کے فوراً بعد رحمان ملک کے وہاں سے نکل جانے کے بعد بہت سے سوالات کھڑے ہو گئے تھے۔

شکیل انجم کے مطابق اس قتل کے واقعے کی تحقیقات اس طریقے سے نہیں کی گئیں جس طرح کیے جانے کا حق تھا۔

سینیئر پارٹی رہنماؤں کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کو جب پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنایا گیا اور تمام اختیارات ان کو دے دیے گئے تو اس کے بعد رحمان ملک پارٹی کی قیادت کے اس طرح قریب نہیں رہے جس طرح ماضی میں ہوتے تھے۔

سنہ 2020 میں امریکی بلاگر سنتھیا ڈی رچی نے رحمان ملک پر انھیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ سنتھیا نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شہاب الدین پر بھی اسی نوعیت کے الزامات عائد کیے تھے۔

رحمان ملک چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں جن میں ’مودی وار ڈاکٹرائن‘ اور ’انڈیا اینٹی پاکستان سینڈروم‘ شامل ہیں۔

انھیں پیپلز پارٹی کے دور میں سرکاری اعزاز ’ستارہ شجاعت‘ اور ’نشان امتیاز‘ سے نوازا گیا تھا جبکہ انھیں جامع کراچی نے پی ایچ ڈی ڈاکٹر کی اعزازی ڈگری دی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32601 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments