عمران خان: عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے


ایک اعتراف کرنا ہے کہ میں 2013 تک عمران خان اور اس کی جماعت کا گرویدہ تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ، سول بیور و کریسی اور فیوڈلز کی بیساکھیوں کے بغیر پاکستانی سیاست میں انقلاب لائے گا۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے زیر سایہ پنپنے والی نام نہاد پاکستانی جمہوریت کو صحیح معنوں کو عوامی لباس پہنا کر ایک عوامی نظام لائے گا۔ مشرف نے اپنے دور میں اسے وزیر اعظم بننے کی پیش کش کی تھی جسے اس نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ تمہارے آس پاس جتنے سیاست دان ہیں وہ سارے کرپٹ اور بددیانت ہیں اور میں ان کا وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔

اس بات پر مشرف نے اس کا مضحکہ اڑایا تھا۔ دل میں ایک امید تھی کہ وہ بھٹو کے بنائے آئین کو مضبوط کرے گا اور ملک کے غریب طبقات کی آواز بنے گا۔ ایک توقع تھی کہ وہ پاکستان کی سیاسی حرکیات کو اچھی طرح سمجھ کر سیاست کے میدان میں اترا ہے اور اسے اقتدار کے زیادہ عام لوگوں میں سیاسی شعور بلند کرنے کی پرواہ ہے۔

1995 کی بات ہے جب میں سکھر میں پی ٹی سی ایل کے اسکول میں زیر تربیت تھا۔ ایک دن گھنٹہ گھر گیا تو دیکھا کہ اس کے قریب ہی ایک سڑک پر پی ٹی آئی کے عام ورکر جو سرمایہ دار تھے نہ جاگیر دار، وہ اپنے جلسے کی تیاری کرنے میں مصروف تھے، شام میں عمران خان وہاں خطاب کرنے کے لیے آنے والا تھا۔ وہاں شام تک اس کا انتظار کرتا رہا اور اس کا خطاب سن کر واپس اپنے ہاسٹل گیا، جو سکھر شہر سے باہر واقع تھا۔ عمران خان کسی پروٹو کول کے بغیر عام لوگوں کی طرح وہاں آیا اور اپنے خطاب کے بعد چلا گیا لیکن دل میں ایک چراغ جلا گیا۔ اس خوش فہمی میں مبتلا کر گیا کہ وہ عام آدمی کے دکھ درد سمجھنے اور ان کا تدارک کرنے میں حد درجہ سنجیدہ ہے۔

ان ہی دنوں میں سے کسی روز، اسی گھنٹہ گھر کے قریب مولانا فضل الرحمن کو ان کے مسلح اور بدتمیز گارڈز کے نرغے میں دیکھا جو مائیکرو فون پر لوگوں کو دور دور رہنے کا حکم دے رہے تھے۔ مولانا نے گھنٹہ گھر کے قریب اپنی پجیرو میں بیٹھے بیٹھے خطاب کیا۔ اس دوران ان کے مسلح گارڈز عام لوگوں کو دھتکار کر ان کی گاڑی سے پرے ہٹاتے رہے۔ نجانے کیوں روز اول سے مذہبی سیاست دان ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ مذہب کا عوامی سیاست سے تعلق بھی آج تک سمجھ نہیں آ سکا۔ مولانا کے گرد مدارس کے طلبا کے جتھے دیکھ کر دل میں اس عظیم کرکٹر کی سیاست کی وقعت کچھ اور بڑھ گئی تھی۔

لیکن 2013 میں ہونے والے انتخابات جو نہایت صاف و شفاف تھے اور ہر سطح پر ان کی پذیرائی کی گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں نواز شریف کی جماعت نے حکومت بنائی تھی۔ پانچ سال حکومت کرنا ان کا آئینی حق تھا لیکن اس انتخاب کے فوراً بعد عمران خان کی سیاست نے جو ہول ناک یون ٹرن لیا، اس نے رفتہ رفتہ نہ صرف اس کی شخصیت، اس کی سیاسی بصیرت اور اس کی سنجیدگی کا پردہ چاک کیا بلکہ ان تمام خوش فہمیوں کا خاتمہ کر دیا جو دل نادان اس سے وابستہ کیے بیٹھا تھا۔

اس نے نہ صرف اپنی جماعت میں موجود عوامی لوگوں کو چن چن کر ، ان کی توہین و تحقیر کر کے نکال باہر کیا بلکہ مشرف کے گرد جمع ہونے والے سارے چور ڈاکوؤں کو اپنی جماعت میں شامل کر لیا۔ اس نے ایک جائز اور قانونی حکومت کے خلاف اگلے ہی سال ایک طویل دھرنا دے دیا، جس نے یہ بات بالکل واضح کردی کہ عمران خان کی جون نہ صرف مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے بلکہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ، فیوڈلز اور سرمایہ داروں کی آنکھ کا تارا بن چکا ہے اور عام آدمی کے خوابوں اور آدرشوں سے بہت چلا گیا ہے۔

افسوس کے ساتھ یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ اس کے بعد اس نے جس موقع پرستی اور بالادست طبقات کی چاپلوسی اور خوشامد اور گندی، غلیظ اور گالیوں میں لتھڑی ہوئی سیاسی روایت کو اپنایا اور اسے فروغ دیا، اس کی وجہ سے میں اپنے دل میں جاگنے والی اس کی حمایت اور پسندیدگی پر نہ صرف شدید ندامت محسوس کرتا ہوں بلکہ ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیوں کی چبھن بھی محسوس کرتا ہوں کیوں کہ امیدوں کا ملیامیٹ ہونا ایک چھوٹا اور معمولی سانحہ نہیں۔ آج اس خواب فروش اور خواب شکن سیاست دان کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ کا مستحق ہے کہ اس کی وجہ سے کئی امکانات معدوم ہو کر رہ گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments