کیا انڈیا میں لوگ کم بچے پیدا کر رہے ہیں؟ مسلمانوں میں صورت حال کیا ہے؟

سوشیلا سنگھ اور شاداب نظمی - نمائندہ بی بی سی، دہلی


چھوٹا کنبہ
'میں نے صرف ایک بچہ پیدا کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہماری مالی حالت ایسی نہیں ہے کہ میں دوسرا بچہ پیدا کر سکوں۔'

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے کانپور کی رہائشی سلمیٰ (فرضی نام) کہتی ہیں کہ ان پر نہ صرف اپنے سسرال بلکہ ماموں کی طرف سے بھی ایک اور بچہ پیدا کرنے کے لیے کافی دباؤ تھا۔

وہ کہتی ہیں: ‘میری ایک بیٹی ہے اور میری عمر 40 سال ہے، لیکن مجھ پر اب بھی دوسرے بچے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ میں انھیں صرف یہی کہتی ہوں کہ کیا آپ میرے دوسرے بچے کا خرچ اٹھا لیں گے۔ میں نے اور میرے شوہر نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں اپنی بیٹی کو اچھی تعلیم دینی ہے۔’

سلمیٰ سے ملتی جلتی کہانی ریاست راجستھان کے شہر جے پور میں رہنے والی راکھی کی ہے جنھوں نے ایک بیٹے پر ہی اکتفا کرتے ہوئے خاندان کو محدود رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سلمیٰ اور راکھی نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر خاندان کو ایک یا دو بچوں تک محدود رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ اگر نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس-5) کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو کم و بیش ایسی ہی تصویر پورے انڈیا میں بھی نظر آتی ہے، جہاں گزشتہ چند برسوں میں ماضی کے مقابلے میں مجموعی شرح پیدائش میں کمی آئی ہے۔

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے یا NFHS-5 کے تازہ ترین اعداد و شمار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انڈیا میں تمام مذاہب اور نسلی گروہوں میں شرح پیدائش میں کمی واقع ہوئی ہے۔

کم بچہ

اس سروے کے مطابق جہاں (2015-2016) کے این ایف ایچ ایس-4 میں شرح پیدائش 2.2 تھی، وہیں تازہ سروے میں یہ کم ہو کر 2.0 رہ گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق شرح پیدائش میں کمی کا مطلب یہ ہے کہ جوڑے اوسطاً دو بچوں کو جنم دے رہے ہیں۔ خاندان سائز میں چھوٹے ہو گئے ہیں، حالانکہ خاندان کو چھوٹا رکھنے کی ان کی اپنی سماجی اور معاشی وجوہات ہیں۔

جہاں عام طور پر مشترکہ خاندانی ڈھانچہ ختم ہو رہا ہے وہیں مالی دباؤ کے ساتھ ساتھ کام کرنے والے جوڑوں کے لیے بچوں کی دیکھ بھال بھی چھوٹا خاندان رکھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو لڑکے کی خواہش میں خود کو دو بچوں تک محدود نہیں کر رہا۔

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز کے پروفیسر ایس کے سنگھ اور رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک نے اس شرح میں کمی کی کئی وجوہات بتائی ہیں۔

ان کے بقول: ‘لڑکیوں کی شادی کی عمر اور ان کے سکول جانے کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، مانع حمل ادویات کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے جبکہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔’

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جن مذاہب یا سماجی گروہوں میں غربت زیادہ ہے اور تعلیم کی سطح کم ہے، وہاں کل پیدائش کی شرح زیادہ پائی گئی ہے۔

ماں بچہ

دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان فرق

جہاں شہروں میں شرح پیدائش 1.6 ہے وہیں دیہی علاقوں میں یہ 2.1 پائی گئی ہے۔ اس سروے کے بارے میں اس پہلو پر بھی باتیں ہو رہی ہیں کہ مسلمانوں میں شرح پیدائش میں نمایاں کمی آئی ہے۔

پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پونم موٹریجا کہتی ہیں کہ 50 کی دہائی (1951) میں انڈیا کی کل شرح پیدائش یا TFR تقریباً 6 تھی، اس لیے موجودہ اعداد و شمار ایک بڑی کامیابی ہے۔ اعداد و شمار سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جہاں خواتین تعلیم یافتہ ہیں وہاں بچے کم ہیں۔ اس کے ساتھ حکومت کی ‘پریوار یوجنا’ یعنی خاندانی منصوبہ بندی کی سکیم نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اتر پردیش میں دو سے زیادہ بچوں پر پابندی کیوں لگائی جا رہی ہے؟

کیا انڈیا میں واقعی مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے؟

انڈیا میں 70 برس میں مختلف مذاہب کی آبادی کے تناسب میں کوئی فرق نہیں پڑا: پیو سروے

اس کے ساتھ ہی انھوں نے شرح پیدائش میں کسی خاص مذہب کو شامل کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا: ‘انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں، جہاں ہندو خاندانوں میں ٹی ایف آر 2.29 ہے وہیں تمل ناڈو میں یہ مسلم خواتین میں 1.93 ہے۔ ایسے میں مذہب کے بجائے اسے تعلیم اور معاشی وجوہات سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔ کیونکہ جہاں خواتین تعلیم یافتہ ہیں وہ کم بچے پیدا کر رہی ہیں۔

انڈیا کی صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت نے سنہ 2016 میں ‘مشن پریوار وکاس’ یعنی خاندانی بہبود کی سکیم شروع کی تھی۔ یہ اسکیم سات ریاستوں کے 145 اضلاع میں شروع کی گئی تھی جہاں شرحِ پیدائش زیادہ تھی، یعنی اتر پردیش، بہار، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور آسام۔ اس مشن کا ہدف سنہ 2025 تک شرحِ پیدائش کو 2.1 سے سے نيچے لانا ہے۔

جب TFR 2.1 تک پہنچ جاتا ہے، تو اسے ‘متبادل سطح کی شرح’ کہا جاتا ہے۔ اس حدف تک پہنچنے کا مطلب ہے کہ آئندہ تین چار دہائیوں میں ملک کی آبادی مستحکم ہو جائے گی۔

کنڈوم

مانع حمل طریقوں سے فرق

اگر ہم عورتوں اور مردوں کے درمیان مانع حمل طریقوں کے استعمال کی بات کریں تو اس سے بڑا فرق نظر آتا ہے۔ جہاں 15-49 سال کی خواتین میں نس بندی کی شرح 37.9 فیصد ہے، وہیں مردوں کی نس بندی کی شرح بہت کم یعنی 0.3 فیصد ہے۔ لیکن مردوں میں کنڈوم کا استعمال بڑھ کر 9.5 فیصد ہو گیا ہے، جو پچھلے NFHS-4 میں 5.6 فیصد تھا۔

اس کے علاوہ حالیہ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ 35 سال سے زیادہ عمر کی 27 فیصد خواتین ایک سے زیادہ بچے چاہتی ہیں اور صرف سات فیصد دو سے زیادہ بچے چاہتی ہیں۔

ممبئی میں آئی آئی پی ایس کے سینیئر ریسرچ فیلو نند لال بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ خاندانی منصوبہ بندی میں مردوں کی مساوی شرکت کا فقدان تشویشناک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘سنہ 1994 میں آبادی اور ترقی پر بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں خاندانی منصوبہ بندی کو بنیادی انسانی حقوق کے دائرے میں لانے پر زور دیا گیا لیکن 25 سال گزرنے کے بعد بھی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اور جہاں خواتین منصوبہ بندی کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے قابل نہیں، وہاں کے حالات خراب ہیں۔

پراچی گرگ کو صحت عامہ کی خدمات میں کام کرنے کا 18 سال کا تجربہ ہے اور وہ ارگون انڈیا میں جنوبی ایشیا کی سربراہ بھی ہیں جو کہ نیا بھر میں خواتین کی صحت پر کام کرنے والا ادارہ ہے۔

مانع حمل گولیاں

کیا اس کا اثر ہو گا؟

ان کا خیال ہے کہ انڈیا میں مانع حمل ادویات کا بوجھ خواتین پر زیادہ ہے، اس لیے وہ ان کی صحت پر زور دینے کی بات کہتی ہیں۔

پراچی گرگ کے مطابق انڈیا کی تقریباً 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جس کا ملک کو فائدہ بھی ہو رہا ہے۔ لیکن مستقبل میں ان نوجوانوں کی تعداد کم ہو گی اور بوڑھوں کی آبادی بڑھے گی تو سماجی توازن بھی متاثر ہو گا۔ اگر ایشیا کے ممالک جیسا کہ جاپان، چین اور تائیوان سے موازنہ کیا جائے تو وہ معاشی طور پر زیادہ فعال ہیں اور اس کا اثر خاندان کے حجم پر بھی ہوا ہے، جہاں اب ان کے لیے توازن برقرار رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

چین کی بات کریں تو اس کی ‘ایک بچہ’ والی پالیسی دنیا کے سب سے بڑے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں میں سے ایک رہی ہے۔ یہ پالیسی سنہ 1979 میں شروع کی گئی تھی اور یہ تقریباً 30 سال تک جاری رہی۔ عالمی بینک کے مطابق چین کی شرح افزائش 2000 میں 2.81 سے کم ہو کر 1.51 ہو گئی اور اس کا چین کی لیبر مارکیٹ پر بڑا اثر پڑا۔

لیکن پراچی گرگ اس حقیقت کے بارے میں پر امید ہیں کہ شرح پیدائش میں کمی سے خواتین کو صحت اور تعلیم کے شعبے میں فائدہ پہنچے گا اور لیبر مارکیٹ میں خواتین کی شرکت بھی بڑھے گی جس سے ملک کی اقتصادی ترقی میں بھی اضافہ ہوگا۔

پروفیسر ایس کے سنگھ کا کہنا ہے کہ اس وقت آبادی کا استحکام انڈیا کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگرچہ اب پیدائش کی شرح میں کمی آئی ہے، لیکن آبادی کو مستحکم ہونے میں مزید تقریباً 40 سال لگیں گے، یعنی 2060 کے آس پاس جا کر یہ کہیں مستحکم ہو گی۔ انڈیا اس وقت اپنی نوجوان آبادی کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کے بعد یہ شرح نمو ہر عمر میں مستحکم ہو گی اور توازن بھی برقرار رہے گا، اس لیے ایشیا کے دیگر ممالک سے موازنہ غلط ہو گا۔

اگرچہ تجزیہ کار شرح پیدائش کے حوالے سے پرامید ہیں لیکن وہ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ انڈیا جیسے سماجی ماحول میں توازن برقرار رکھنے کی بھی ضرورت ہے، جہاں چھوٹے خاندان کی وجہ سے کہیں چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں جیسے رشتے ہی ختم نہ ہو جائيں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32751 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments