وفا


وہ زندگی موت کی جنگ لڑ رہا تھا اور باہر ایک ہنگامہ مچا ہوا تھا اس کے کلاس فیلوز جمع تھے کیونکہ وہ ان کے لئے کسی ہیرو سے کم نا تھا اس نے سب کی جان بچانے کے لئے اپنی جان داؤ پر لگادی تھی۔

احمد کے ماں باپ خاموش بیٹھے سب کی شکلیں تک رہے تھے ان کے لب جامد تھے وہ کچھ بھی نہیں کہہ پا رہے تھے۔

یونیورسٹی میں 14 اگست کا جشن منایا جا رہا تھا ہر طرف سبز پرچموں کی بہار تھی جس کی وجہ سے سب بہت پرجوش تھے اور بہت خوش بھی ملی نغموں سے پورا میدان گونج رہا تھا کہ اچانک یہ حادثہ ہو گیا۔

وہ لوگ اسے ہاسپیٹل تو لے آئے مگر ابھی تک اپنے غم و غصے کو قابو میں نہیں کرسکے تھے۔
نعرے لگ رہے تھے خون کا بدلہ خون اور خون دینے والا اندر زندگی موت کی کشمکش میں پڑا تھا۔

وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا انتہائی ذہین اور بلا کا خوبصورت تھا میڈیکل کا آخری سال تھا اس سال بھی اس کی پوزیشن بنتی اور پھر وہ آگے پڑھائی کے لئے باہر چلا جاتا پتا نہیں کیا کیا خواب اسے کے ماں باپ نے دیکھ رکھے تھے جو آج آنسو بن کر بہہ رہے تھے۔

کہنے کو تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور سوچیں تو بہت کچھ ہوا تھا۔

جب پاکستان کا نغمہ گونجا اور اس میں صوبائی دھنوں کا ساز بجا تو کوئی کہنے لگا اس کو رپیٹ کرو تو کوئی مذاق بنانے لگا اور یہ مذاق اتنا بڑھا کہ لسانی فساد بن گیا۔

پاکستانی کے بجائے لڑکے زبان کی بنیاد پر علیحدہ ہو گئے اور لمحوں میں ہی سب کے ہاتھوں میں اسلحہ بھی آ گیا، لڑکیاں خوف سے کاریڈور میں چھپ کر کھڑی ہو گئیں وہ میدان جہاں پر ابھی خوشیاں منائی جا رہی تھیں وہاں آگ و خون کی ہولی کھیلی جانے والی تھی کہ ایسے میں احمد نے ہاتھ میں مائیک لے لیا وہ ہر ایک سے التجا کر رہا تھا پرامن رہنے کی اور خاموش ہونے کی مگر کوئی سننے کے لئے تیار نہیں تھا وہ بات کر رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کوئی سیاہ پوش ان کے درمیاں میں کلاشنکوف لے کر داخل ہوا، احمد باتیں کرتا رہا وہ سمجھ گیا تھا کہ باقی اسٹوڈنٹس نے اس کو نہیں دیکھا اور وہ اس شرپسند کو اچھی طرح سے دیکھ چکا تھا جس کا مقصد گولی چلا کر سب کو آگ بگولا کرنا تھا۔

احمد سب کا لاڈلا تھا اس لئے سب خاموشی سے اس کو سن رہے تھے اور وہ جانتا تھا جیسے ہی وہ خاموش ہوا یہ سب ایک دوسرے پر حملہ آور ہوجائیں گے اس لئے اس نے اپنے حواس قائم رکھے اور آہستہ قدموں سے چلتا ہوا اسٹیج کے پیچھے بنے پردے کی طرف آ گیا جہاں اس نے اس کی جھلک دیکھی تھی اور ایک دم ہاتھ بڑھا کر اس نے اس نقاب پوش کی کلاشنکوف کو چھین لینا چاہا تو اس آدمی نے برسٹ کھول دیا جو احمد کو لال کر گیا، پھر کیسا فساد کیسا ہنگامہ سب بھول کر اس کی طرف بھاگے چلے گئے جو بمشکل سانسیں لے رہا تھا اس شرپسند کو تو لڑکوں نے پکڑ لیا اور احمد کو تیزی سے ہاسپیٹل پہنچا دیا، اس سے پہلے کہ اس شرپسند کو مارتے ساری لڑکیوں نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے کہ ابھی کچھ نا کریں جب تک احمد سچائی نہیں بتا دیتا اور اب سب احمد کے آپریشن کا انتظار کر رہے تھے اگر وہ مر جاتا تو یونیورسٹی میں یہ آگ لگاتے اور نا جانے کتنے بے گناہ مارے جاتے۔

کچھ ہی دیر میں جب آپریشن ختم ہوا تو ڈاکٹرز نے انہیں کہا کہ احمد کو ہوش میں آنے میں ابھی ٹائم لگے گا تو سب وہیں بیٹھ گئے اور اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگے۔

پولیس آ چکی تھی اس کے حوالے وہ بندہ کرچکے تھے وہ مختلف پہلوؤں سے تحقیقات کر رہی تھی کہ آخر اتنے پرامن ماحول کو خراب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ویسے بھی اسٹوڈنٹس ہمیشہ سے پرجوش رہتے ہیں اور انہیں بھڑکنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگتی۔

جب صبح ہونے لگی تو انہیں اطلاع ملی کہ احمد کو کچھ ہوش آیا ہے اور وہ بات کرنا چاہتا ہے تو اس کے کچھ دوست اور طلبہ یونین کے لیڈرز اندر چلے گئے اس نے بمشکل سانس لیتے ہوئے کہا۔

” میرے دوستو وعدہ کرو میں رہوں یا نا رہوں تم لوگ لڑو گے نہیں یہ جو دن ہم منا رہے تھے یہ خون بہانے کا نہیں وفا نبھانے کا ہے کسی بھی شرپسند کی سازش کا شکار مت ہونا اور اپنی درسگاہ کے تقدس کو پامال نہیں کرنا یہ ہی میرا بدلا ہو گا زندہ رہا تو تمہارے ساتھ یہ جشن پھر مناؤں گا“ ۔

یہ کہہ کر اس نے آنکھیں موند لیں اور وہ سب سر جھکائے باہر آ گئے احمد کے ماں باپ کی طرف انہوں نے دیکھا بھی نہیں کیونکہ ان کی سوالیہ نگاہیں ان کے اندر اتری جا رہی تھیں اور وہ ان کا سامنا نہیں کر سکتے تھے۔

کاش کے انہوں نے اسلحہ نا اٹھایا ہوتا تو کسی کو موقع نا ملتا فساد پھیلانے کا اور احمد اس حال کو نا پہنچتا تھوڑی ہی دیر میں سب کو خبر مل گئی احمد ان کی خاطر اپنی جان دے چکا ہے۔

جشن آزادی ختم ہو گیا مگر ان کو سب دے گیا جان کا بدلا جان نہیں ہے بلکہ وفا سے بھی نبھایا جاتا ہے اپنی جان دے کر بھی سب کو ایک کیا جاسکتا ہے کون سندھی کون مہاجر، کون بلوچ، کون پنجابی، کون پٹھان سب کہنے کی باتیں ہیں ہم سب پاکستانی ہیں اور اس ملک کے باسی ہیں جو کلمے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔

پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔

کاش یہ بات ہماری نوجوان نسل کو سمجھ میں آ جائے کہ ہمارا کوئی نسلی تعصب نہیں ہم صرف پاکستانی ہیں تو کوئی احمد ایسے شہید نہیں ہو گا اور سب پاکستانی کہلائیں گے اور یہ ہی دہرائیں گے۔

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments