”باڑ کے اس پار“ : ایک تعارف


”باڑ کے اس پار“ (The Boy in The Striped Pajamas) آئر لینڈ کی سر زمین سے تعلق رکھنے والے، جان بوئین کا ناول ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران، جرمنی میں رہنے والے ایک نوجوان لڑکے برونو کی کہانی، بیان کرتا ہے۔ برونو کے والد ایک نازی کمانڈنٹ ہیں، فوجی حکمت عملی کے تحت برونو کا خاندان ایک حراستی کیمپ کے قریب ایک نئے گھر میں منتقل ہونے پر مجبور ہوتا ہے۔ نئے گھر میں منتقل ہونے کے بعد برونو تنہائی محسوس کرتا ہے، اسے اپنے جیسے دوست کی ضرورت ہے۔

بالآخر اسے شموئیل نامی ایک یہودی لڑکا ملتا ہے جس سے وہ دوستی کر لیتا ہے، جو کیمپ میں قید ہے۔ اس کیمپ کے ارد گرد باڑ لگائی گئی ہے۔ دونوں لڑکے اس باڑ سے ملتے ہیں جو انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے۔ یہ باڑ محض باڑ نہیں ہے یہ باڑ انسانیت کو تقسیم کرتی ہوئی علامت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ آپ جتنی مرضی کوشش کر لیں جسمانی طور پر تو لوگوں کو تقسیم کر سکتے ہیں لیکن ان کے معصوم دلوں میں موجود محبت، پیار اور خلوص کے جذبے کو کوئی باڑ تقسیم نہیں کر سکتی۔

یوں وہ اپنی زندگی کے بارے میں باتیں کرنے لگتے ہیں۔ برونو کیمپ میں شموئیل کی زندگی کے بارے میں متجسس ہوتاہے، اور شموئل باہر سے برونو کی زندگی کے بارے میں سننے کے لیے بے تاب ہے۔ وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب آ جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو محسوس کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ وہ مختلف دنیاؤں سے ہیں، دونوں لڑکوں کے درمیان گہری دوستی ہو جاتی ہے، برونو معصوم، بھولا بھالا اور سادہ ہے، اور وہ کیمپ کی اصل نوعیت کو نہیں سمجھتا۔

شموئیل اس خطرے سے زیادہ واقف ہے جس میں کہ وہ موجود ہے، لیکن وہ برونو کی دوستی کے لیے دل سے شکر گزار ہے۔ ایک دن، برونو نے اپنے والد کو تلاش کرنے میں شموئیل کی مدد کے لیے کیمپ میں چھپنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد برونو اور شموئیل دونوں گیس چیمبر میں مارے جاتے ہیں۔ یہ برونو اور شموئیل کا قتل نہیں ہوتا بلکہ درحقیقت انسانیت اور معصومیت سفاک قاتلوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔

”باڑ کے اس پار“ ایک اثر انگیز ناول ہے جو معصومیت، دوستی اور ہولوکاسٹ کو موضوع بناتا ہے۔ ناول کو برونو کے نقطہ نظر سے بیان کیا گیا ہے، جو قاری کو ہولوکاسٹ کے واقعات، ایک بچے کی آنکھوں سے دکھاتا ہے۔ یہ نقطہ نظر دل دہلا دینے والا بھی ہے اور بصیرت انگیز بھی۔ اس ناول کو کوتاہ نظر ناقدین نے اس کی تاریخی غلطیوں کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حالاں کہ ناول نگار تاریخ نہیں فکشن تخلیق کر رہا تھا۔ تاہم جان بوئن نے کہا ہے کہ وہ تاریخی اعتبار سے درست ناول لکھنے کا خواہاں ہی نہیں تھا۔ وہ اچھائی اور برائی کی انسانی صلاحیت کے بارے میں ایک کہانی تحریر کرنا چاہتا تھا۔ ”باڑ کے اس پار“ متحرک اور فکر انگیز ناول ہے جسے ناقدین اور قارئین نے یکساں طور پر سراہا ہے۔ 2008 ء میں اس ناول پر ایک کامیاب فلم بھی بن چکی ہے۔

موضوعاتی سطح پر دیکھیں تو معصومیت اس ناول کا بڑا موضوع ہے۔ برونو لڑکپن کی عمر میں ہے جو ہولوکاسٹ کی ہولناکیوں سے بے خبر ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ جنگ کیا تباہ کاریاں لا رہی ہے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتا کودتا ہے، سکول جاتا ہے اور زندگی کے دیگر امور سے لطف لیتا ہے لیکن وہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہودیوں کو کیوں ستایا جا رہا ہے۔ وہ اس بات کو بھی دل سے مانتا ہے کہ اس کا دوست شموئیل بھی اس جیسا ہے۔ اسی لیے وہ اس کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ اس کی بھوک مٹانے کے لیے گھر سے کھانے کی اشیا ء لاتا ہے۔ اس کے گمشدہ باپ کو تلاش کرنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔ برونو اور شموئل اس حقیقت کے باوجود کہ وہ مختلف دنیا سے ہیں ایک گہری دوستی پیدا کرلیتے ہیں۔ ہولوکاسٹ کے درمیان ان کی دوستی، محبت، خلوص اور امید کے ساتھ ساتھ، انسانیت کی علامت ہے۔

اس ناول کا بڑا موضوع ہولوکاسٹ ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ہٹلر نے جو جرمنی کی نازی پارٹی کا سر براہ تھا، نے 1939 میں پولینڈ پر حملہ کر کے اس جنگ کا آغاز کیا۔ اسے یہودی قوم کے ساتھ بغض تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران اس نے یہودیوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔ یہ ایک شرمناک حقیقت ہے کہ جس میں لاکھوں یہودیوں کو فوج کے ہاتھوں ”آشوٹس“ کے مقام پر گیس چیمبر میں ہلاک کر دیا جاتا ہے۔ ناول ایک بچے کی آنکھوں کے ذریعے ہولوکاسٹ کی ان ہولناکیوں کو بیان کرتا ہے۔ برونو اور شموئیل کی موت ان لاکھوں لوگوں کی یاد دلاتی ہے جو ہولوکاسٹ میں مارے گئے تھے۔

ناول سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تاریک ترین وقت میں بھی ہمیشہ امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ برونو اور شموئیل کی دوستی اس بات کی غماز ہے کہ نفرت اور تشدد کے درمیان بھی محبت اور ہمدردی کی گنجائش موجود رہتی ہے۔ ہولناک اور دل دہلا دینے والے واقعات میں دونوں کے مابین محبت کا رشتہ پروان چڑھتا دکھا کر رجائیت کے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔

اس ناول کو فرید اللہ صدیقی نے اردو میں ترجمہ کیا ہے جسے انھوں نے ”باڑ کے اس پار“ کا نام دیا ہے حالاں کہ اس کا لفظی ترجمہ ”دھاری دار پاجامہ میں لڑکا“ بنتا ہے لیکن انھوں نے لفظی ترجمے کے بجائے مفہوم کو مد نظر رکھا ہے۔ اس میں پیش کی گئی کہانی ایک طرح کی تمثیل ہے جو دوسری جنگ عظیم میں ہولوکاسٹ کی ہولناکیوں کو ایک معصوم بچے کی آنکھ سے دکھاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments