افغان شہریوں کی ملک بدری سے پاکستان کیا فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے؟


کابل میں طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے غیرقانونی طور سے پاکستان میں مقیم غیرملکیوں کو نکالنے کے بارے میں حکومت پاکستان کے اعلان کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ اس فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔ اس کے علاوہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے بھی اس فیصلہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس طرح پناہ گزینوں میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بعض پاکستانی سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے لوگوں نے بھی اس فیصلہ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک غلط اور عجلت میں کیا ہوا فیصلہ کہا ہے جس پر عمل درآمد کی صورت میں دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش و کدورت کئی نسلوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ واضح رہے گزشتہ روز اسلام آباد میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں سول و عسکری قیادت نے فیصلہ کیا تھا کہ ملک میں جو غیر ملکی شہری غیر قانونی طریقے سے اور بغیر مناسب دستاویزات کے موجود ہیں، وہ رضاکارانہ طور پر یکم نومبر تک اپنے وطن واپس چلے جائیں بصورت دیگر پاکستانی ادارے کارروائی کریں گے اور ان لوگوں کو ملک بدر کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا تھا کہ حکومت غیرقانونی غیرملکیوں کے پاکستان میں کاروبار اور جائیدادیں بحق سرکار ضبط کر لے گی۔ اور ایسے غیر ملکیوں کی معاونت کرنے والے پاکستانی شہریوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے متعدد لوگوں نے اس فیصلہ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ اگر انسانیت کے ناتے کوئی فرد یا تنظیم کسی مجبور شخص کی مدد کرتی ہے تو کیا یہ قابل سزا جرم قرار پائے گا؟ اس حوالے سے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ ’طالبان کے ظلم و ستم کے خوف سے بہت سے افغان شہری پاکستان فرار ہونے پر مجبور ہو گئے تھے، جہاں انہیں بلاجواز گرفتاریوں اور ملک بدر کیے جانے کی دھمکیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ ۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز کے اعلان میں حکومت پاکستان نے خاص طور سے افغان شہریوں کا نام نہیں لیا تھا بلکہ ’غیر قانونی غیرملکیوں‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی تھی لیکن عام طور سے یہی سمجھا جا رہا ہے کہ یہ پیغام افغانستان میں طالبان حکومت کے خوف سے فرار ہو کر پاکستان میں پناہ لینے والے شہریوں کو دیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی اطلاع کے مطابق سترہ لاکھ افغان شہری غیر قانونی طور سے پاکستان میں قیام پذیر ہیں۔ سیاسی پناہ گزین کے طور پر رجسٹرڈ یا قانونی دستاویزات پر پاکستان میں رہنے والے لگ بھگ بیس لاکھ افغان باشندے ان کے علاوہ ہیں۔ وزیر داخلہ نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں نظام کی کمزوری کی وجہ سے غیر ملکی شہری نہ صرف غیر قانونی طور سے پاکستان میں داخل ہونے اور قیام کرنے میں کامیاب رہے ہیں بلکہ بیشتر صورتوں میں انہوں نے نادرا کے ذریعے شناختی کارڈ حتی کہ پاکستانی پاسپورٹ تک حاصل کر لیے ہیں۔ حکومت اب اس بد انتظامی کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے ایک عہدیدار قیصر خان آفریدی نے ترک نیوز ایجنسی ’انادولو‘ کو انٹرویو میں بتایا ہے کہ کسی بھی پناہ گزین کی واپسی رضاکارانہ اور بغیر کسی دباؤ کے ہونی چاہیے۔ تاکہ ان لوگوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں عالمی تحفظ کے خواہاں افراد کی نگرانی اور اندراج کا ریکارڈ رکھنے کا نظام وضع کرنے اور مخصوص خطرات سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ کا ہائی کمشنر برائے مہاجرین، حکومت پاکستان کی مدد کے لیے تیار ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر اور لیڈر فرحت اللہ بابر نے سماجی رابطہ سائٹ ایکس پر ایک بیان میں اس حکومتی فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’حکومت ایک بار پھر مہاجرین کے ساتھ فٹ بال کھیل رہی ہے۔ اور کچھ دیگر مقاصد کے لیے جوڑ توڑ کیا جا رہا ہے۔ اس کا ردعمل تباہ کن ہو گا۔ سہ فریقی معاہدہ صرف رضاکارانہ واپسی کی اجازت دیتا ہے‘ ۔

حکومت پاکستان کے فیصلہ پر شدید رد عمل کے باوجود یوں لگتا ہے کہ پاکستان، افغان حکومت اور عالمی اداروں پر دباؤ بڑھانے کا تہیہ کرچکا ہے۔ ایک علیحدہ اعلان کے مطابق پاکستان نے افغانستان سے ٹرانزٹ معاہدے کے تحت ہونے والی درآمدات پر 10 فیصد محصول عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران میں چمن پاک افغان سرحد پر افغانستان کے ایک گارڈ کی فائرنگ سے دو پاکستانی شہری جاں بحق اور ایک بچہ زخمی ہو گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس سانحہ کے بارے میں ایک پریس ریلیز میں بتایا ہے کہ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ فعل اور لاپرواہی کی وجوہات جاننے اور ذمہ دار کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرنے کے لیے افغان حکام سے رابطہ کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’عبوری افغان حکومت سے توقع ہے کہ وہ اپنے اہلکاروں پر کنٹرول کرے گی اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے اور ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کے لیے نظم و ضبط کا خیال رکھا جائے گا۔ پاکستان مثبت اور تعمیری دو طرفہ تعلقات کے ذریعے امن، خوش حالی اور ترقی میں کردار ادا کرنے کے لیے بدستور پرعزم ہے۔ تاہم اس طرح کے ناخوش گوار واقعات پرخلوص ارادوں اور مقاصد کو نقصان پہنچانے کا سبب بن سکتے ہیں‘ ۔

ایک سرحدی سانحہ پر آئی ایس پی آر کا سخت بیان افغانستان کے بارے میں پاکستانی حکومت کی تبدیل شدہ پالیسی اور لب و لہجہ کی عکاسی کرتا ہے۔ اگرچہ وزارت خارجہ نے ابھی طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے احتجاجی بیان پر تبصرہ نہیں کیا ہے لیکن افغانستان کو سرحد پار سے دہشت گردی کنٹرول کرنے کے لیے متعدد بار وارننگ دی جا چکی ہے تاہم کابل حکومت نے کسی عملی تعاون پر توجہ دینے اور تحریک طالبان پاکستان کے عناصر کی گرفت کرنے کے لیے کوئی تعاون نہیں کیا۔ بلکہ یہ رٹا رٹایا بیان ہی جاری کیا جاتا رہا ہے کہ افغان حکومت دوحہ میں امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدہ کے مطابق اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ لیکن افغانستان میں ٹی ٹی پی کے علاوہ دیگر عالمی دہشت گرد گروہوں کی موجودگی سے واضح ہوتا ہے کہ طالبان حکومت یا تو ان عناصر کو پوری طرح کنٹرول کرنے کی اہل نہیں ہے یا وہ جان بوجھ کر پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے انہیں کھلی چھٹی دے رہی ہے۔

اس دوران امریکی محکمہ دفاع کی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ سیکرٹری آف ڈیفنس لائیڈ جے آسٹن نے پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر سے فون پر گفتگو کی ہے۔ گفتگو کے دوران لائیڈ جے آسٹن اور جنرل عاصم منیر نے باہمی دلچسپی کے امور کے ساتھ ساتھ حالیہ علاقائی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے تاحال اس گفتگو کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ لیکن یہ گفتگو اسی روز سامنے آئی ہے جس وقت پاکستان نے کثیر تعداد میں افغان شہریوں کو ملک سے نکالنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ امریکی حکام اس سے پہلے یہ اعتراف کرتے رہے ہیں کہ پاکستان کو اس وقت افغانستان سے دہشت گردی کا سامنا ہے لیکن ایسے اعلانات کے علاوہ امریکہ یا دیگر مغربی ممالک کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کو مدد بہم پہنچانے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔ اس سے یہی اندازہ کیا جا رہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان سے فوجیں نکالنے کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی وزیر دفاع نے پاک فوج سے گفتگو میں افغان شہریوں کے خلاف پاکستانی حکومت کے اقدام پر بات کی ہو۔

حکومت پاکستان اگر اس فیصلہ پر عملدرآمد کرنے کا پختہ ارادہ ظاہر کرتی ہے تو اس اقدام سے اس ریجن کے علاوہ عالمی طور پر اثرات مرتب ہوں گے۔ طاقت کے زور پر بیس لاکھ کے لگ بھگ لوگوں کو ملک بدر کرنے سے پیدا ہونے والی صورت حال کابل کی طالبان حکومت ہی کے لیے چیلنج نہیں ہوگی بلکہ اس سے شدت پسند عناصر کو تقویت بھی مل سکتی ہے اور اس انسانی بحران کی آڑ میں دہشت گرد عناصر عالمی سطح پر کسی بڑی کارروائی کا ارادہ بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں اس صورت حال کی حساسیت کو سمجھتی ہیں۔ اسی لیے یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ پاکستان شاید افغان شہریوں کو نکالنے سے زیادہ کابل کے علاوہ عالمی طاقتوں پر واضح کرنا چاہتا ہے کہ دنیا میں امن کے لیے پاکستان اب بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر امریکہ اور اس کے مغربی حلیف بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے پاکستان کو مسلسل نظر انداز کریں گے اور اسے مسائل حل کرنے کے لیے مناسب سفارتی، سیاسی اور معاشی امداد فراہم نہیں کریں گے تو وہ بھی ایسے ممالک کے مفادات کا محافظ نہیں بنے گا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایپکس کمیٹی کا اعلان یہ پیغام اتنی ہی صراحت و وضاحت سے متعلقہ دارالحکومتوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ کیا پاکستانی وزارت خارجہ نے اس فیصلہ کا عام اعلان ہونے سے پہلے مناسب سفارتی ہوم ورک کیا تھا اور کیا اس ’دھمکی نما فیصلہ‘ سے کوئی مناسب رعایتیں حاصل ہوجائیں گی۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب یکم نومبر سے پہلے ملنا شروع ہونا چاہیے۔ پاکستان چاہے گا کہ امریکہ نہ صرف پاکستان پر دہشت گرد حملوں کی مذمت کرے بلکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستانی معیشت کے استحکام میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اس حوالے سے اسلام آباد کی ایک امید یہ ہو سکتی ہے کہ پاکستان عرب ممالک سے جس کثیر سرمایہ کاری کی توقع کر رہا ہے، اس میں سہولت کاری کی جائے اور سی پیک کے سوال پر پاکستان کو سزا دینے کے لیے اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2779 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments