لاہور کی ٹریفک اور حکومت کا رویہ


معروف مزاح نگار پطرس بخاری نے اپنے مضمون ’’لاہور کا جغرافیہ‘‘ میں لکھا ’’کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن طلبہ کی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اِس کو منسوخ کر دیا ہے اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے اور روزبروز واقع تر ہو رہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ دَس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا جس کا دارالخلافہ پنجاب ہوگا‘‘۔ پطرس مرحوم کا یہ کہا سچ ثابت ہوا۔

اگر لاہور کے ایک طرف واہگہ بارڈر اور دوسری طرف قصور کا بارڈر نہ ہوتا تو یہ اب تک رائیونڈ اور مانگا منڈی کی طرح فیروزپور اور امرتسر کو بھی ’’ڈکار‘‘ چکا ہوتا۔کسی زمانے میں اِسے ’’باغوں کا شہر‘‘ کہا جاتا تھا لیکن اب یہ دنیا کا آلودہ ترین شہر ہے جہاں سموگ کی عملداری۔ میاں شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ کے دور میں لاہور کو صاف ستھرا کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی لیکن ’’دَورِ بزدار‘‘ میں سب کچھ ٹھَپ ہو کر رہ گیا کیونکہ بُزدار صاحب کا ٹارگٹ کچھ اور تھا۔

رہی سہی کَسر کھمبیوں کی طرح سے اُگنے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے پوری کردی۔ وہ لاہور جس کے اطراف و جوانب میں کبھی لہلہاتے کھیت ہوا کرتے تھے اب وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیاں جنم لے چکی ہیں اور ہمارے حصّے میں تو صرف ’’سموگ‘‘۔ جب لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا تو پنجاب کی عبوری حکومت کو بھی ہوش آیا اور وہ تعلیمی ادارے اور دفاتر بند کر کے بیٹھ رہی۔ میاں شہباز شریف کو ’’شہباز سپیڈ‘‘ کہا جاتا تھا اور اب وزیرِاعلیٰ محسن نقوی کو ’’محسن سپیڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔

یہ بجا کہ نقوی صاحب عبوری وزیرِاعلیٰ ہونے کے باوجود سموگ کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں لیکن سانپ گزر جانے کے بعد لکیر پیٹنے کا پہلے کبھی فائدہ ہوا نہ اب ہوگا۔ سموگ کے خاتمے کے لیے اُس وقت کوششیں کی جانی چاہیے تھیں جب فصلوں کی باقیات جلائی جا رہی تھیں اور بھٹوں کی چمنیاں زہر اُگل رہی تھیں لیکن تب حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ آدھا لاہور بیمار ہوچکا پھر بھی عوام کو ہوش نہیں آیا۔اب حکومت بھی تھک ہار کے بیٹھ رہی کہ ’’سانوں کی‘‘۔

پنجاب کے سابق وزیرِاعلیٰ میاں شہباز شریف کی یقیناََ یہی سوچ ہوگی کہ لاہور کو ’’پیرس نظیر‘‘ بنایا جائے لیکن شاید وہ بھول گئے کہ اُن کا پالا جس قوم سے پڑا ہے وہ قانون کی دھجیاں اُڑانے کی شوقین ہے۔ شاید وہ سوچتے ہوں کہ آزاد ملک کے آزاد شہری ہونے کے ناطے مادر پدر آزادی اُن کا حق ہے۔ اِسی لیے ٹریفک قوانین کی پابندی اُنہوں نے کبھی سیکھی ہی نہیں۔ بیشمار اوور ہیڈز اور انڈر پاسز بنانے کے باوجود ٹریفک بے ہنگم۔ پنجاب کی عبوری حکومت نے جب ٹریفک کنٹرول کرنے کی ٹھانی تو نادرشاہی حکم جاری ہوا کہ جو چھوٹی عمر یا لائسنس کے بغیر ہوگا اُسے نہ صرف دَھر لیا جائے گا بلکہ گاڑی یا موٹرسائیکل کو بھی بند کردیا جائے گا۔

یہ سب سُن کر ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی آنکھوں کی چمک کئی گُنا بڑھ گئی کیونکہ حکومت نے اُن کی روزی روٹی کا بندوبست جو کردیا تھا۔ اب ہم روز نظارہ کرتے ہیں کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار موٹرسائیکلوں کو گھیر کر سودے بازی میں مصروف ہوتے ہیں، ٹریفک قوانین جائیں بھاڑ میں۔ بڑی گاڑیوں پر البتہ اُن کی نظر کم کم ہی پڑتی ہے کیونکہ کیا پتہ گاڑی میں کسی ’’وَڈے کا پُت بھتیجا‘‘ بیٹھا ہو اور اہلکار کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔

لاہور کی سڑکوں کو سگنل فری بنانے کی تگ و دو مناسب اور مستحسن مگر اِس سے حادثات میں کمی نہیں ہو سکتی۔ ہمارے خیال میں اگر موٹرسائیکلوں اور رکشوں کے لیے سڑک کا ایک حصہ مخصوص کردیا جائے اور اُس پر سختی سے عمل بھی کروایا جائے تو نہ صرف حادثات میں کمی ہو سکتی ہے بلکہ ٹریفک کی روانی بھی بہتر ہو سکتی ہے۔ ’’شہباز سپیڈ‘‘ نے لاہور کی سڑکوں کو کافی حد تک کھُلا کردیا ہے اور اب اِن میں اتنی گنجائش ہے کہ ایک حصہ موٹرسائیکلوں اور رکشوں کے لیے مختص کر دیا جائے۔

لاہوریے خوب جانتے ہیں کہ موٹرسائیکل سوار سڑکوں پر بائیں سے دائیں تک نہ صرف پھیل کر چلتے ہیں بلکہ ترنگ میں آ کر زگ زیگ بناتے ہوئے گاڑیوں کے آگے سے بھی گزرتے ہیں جنہیں دیکھ کر دِل دہل جاتے ہیں لیکن حکمرانوں کو اِس سے کیا غرض کہ وہ تو شاہانہ انداز میں پروٹوکول کی بیس، بیس گاڑیوں کے جَلو میں زوں کر کے گزر جاتے ہیں کیونکہ پہلے ہی اُن کے لیے سڑکیں خالی کروا لی جاتی ہیں۔ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر وزیرِاعلیٰ صاحب موٹرسائیکل پر سوار ہو کر کسی مصروف شاہراہ سے گزریں تو اُنہیں قدم قدم پر ایسے ’’دِل خوش کُن‘‘ نظارے دیکھنے کو ملیں گے۔

یہ بجا کہ رکشا لوئر مڈل کلاس کی سواری ہے جسے بند نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بھی عین حقیقت کہ رکشا ڈرائیورز نہ صرف ٹریفک قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہیں بلکہ سڑکوں کی بندش کا باعث بھی بنتے ہیں۔ وہ عین سڑک کے اوپر رکشے کھڑے کر کے سڑک کو اڈوں کی شکل دے دیتے ہیں۔ اگر ٹریفک پولیس کے اہلکار وہاں پہنچ جائیں تو اُن کی مُٹھی گرم کردی جاتی ہے۔ رکشوں اور موٹرسائیکلوں کے لیے الگ راستہ بنانے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟۔ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ لاہور کی ٹریفک پولیس ٹریفک کنٹرول کر سکتی ہے تو یہ اُس کی بھول ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جہاں بھی چوراہوں پر ٹریفک پولیس کے اہلکار کھڑے ہوتے ہیں وہ یا تو خوش گپیوں میں مصروف ہوتے ہیں یا پھر موٹرسائیکل سواروں کو گھیر کر ’’دیہاڑی‘‘ بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔

لاہور کی خوبصورتی کو زنگ آلود کرنے میں بڑا ہاتھ دُکانوں پر قائم کی گئی تجاوزات کا بھی ہے۔ جب کبھی حکومت تجاوزات ہٹانے کے لیے ایکشن میں آتی ہے تو چند دنوں بعد وہ پھر سے سَر اُٹھانے لگتی ہیں۔ دُکان داروں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ اب چھ مہینے سال آرام سے گزر جائیں گے۔ ہم امریکہ میں متعدد بار جا چکے ہیں اور تقریباََ ایک تہائی امریکہ گھوم پھر کر بھی دیکھ لیا۔ وہاں بڑے بڑے ڈپارٹمنٹل سٹورز کے سامنے وسیع و عریض کار پارکنگ کا انتظام ہوتا ہے۔

یہی حال مارکیٹوں کا بھی ہے، جہاں چند دُکانیں ہوتی ہیں وہاں کھُلی پارکنگ کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ لاہور میں البتہ انگلیوں پر گنے چند سٹورز کے علاوہ کہیں بھی پارکنگ کا انتظام نہیں ہوتا۔ یہ ضرور کہ بڑے سٹور تین چار گاڑیوں کی پارکنگ کا انتظام کر کے رکھتے ہیں تاکہ ’’بوقتِ ضرورت کام آئے‘‘۔یوں تو لاہور میں جگہ جگہ ’’تعلیمی منڈیاں‘‘ کھُلی ہیں سوائے چند سکولوں کے کہیں بھی پارکنگ کا انتظام نہیں۔ جس سوسائٹی میں ہماری رہائش ہے وہاں گرین بیلٹ پر تھوڑے تھوڑے وقفے سے 5 معروف سکول کھُلے ہیں اور کسی بھی سکول میں پارکنگ کا کوئی انتظام نہیں۔

جب اِن سکولوں میں چھٹی ہوتی ہے تو سڑک پر گاڑیوں، موٹرسائیکلوں اور رکشوں کی بھرمار ہوجاتی ہے۔ اگر اُس وقت کوئی شخص سڑک پر گاڑی لے کر نکلنے کی حماقت کر بیٹھے تو سوائے سَر پیٹنے کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اِسی سڑک پر گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین بھی ہے اور ’’ماشاء ﷲ پارکنگ وہاں بھی ندارد۔ یہ سب کچھ حکومت کی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے لیکن حکمران ’’ستّو پی کر ‘‘ سوئے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments