بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی


آج سوشل میڈیا سکرولنگ کے دوران اک پوسٹ نظر سے گزری۔ اسی کے بابت کچھ عرائض آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

پوسٹ پڑھنے پر معلوم ہوا موصوف بلتستان یونیورسٹی کے معلم ہیں۔ موصوف لکھتے ہیں ؛

”آج میری بھتیجی کے فرسٹ پوزیشن آنے کی خوشی میں بھتیجی اور بہن کو لے کر کیک لینے بسم اللہ بیکری پہنچا اور گاڑی بیکری کے سامنے کھڑی کر کے اترا ہی تھا کہ اچانک وہاں ایک پولیس والے نے گریباں سے پکڑ کر گاڑی کے اندر دھکیلتے ہوئے غصے میں بولا گاڑی یہاں سے لے جاؤ، گاڑی یہاں سے ہٹاؤ، میں بہت Nervous سا ہو گیا کیونکہ مجھے کچھ سمجھ نہ آ سکا کہ اچانک یہ کیا ہو گیا ہے۔ میں نے سانسیں بحال کرتے ہوئے کہا بھئی کیا ہو گیا ہے؟ اس نے بولا میں کہہ رہا ہوں گاڑی ہٹاؤ۔ میں نے کہا یار۔ میں نے بس ایک کیک خریدنا ہے، ایک منٹ لگے گا۔ میں نے مزید کہا بھئی میں جامعہ بلتستان کا لیکچرار ہوں۔ مگر وہ مزید طیش میں آ گیا اور کہا یہاں VIP movement ہے بس گاڑی ہٹاؤ۔

جب ایسی صورتحال ہو تو خدا را اس پورے ایریے کو cordon off کر دیں اور پبلک کی انٹری بند کر دیا جائے۔ وہاں موجود لوگوں کے سامنے مجھے بہت برا بھی محسوس ہوا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ وہاں VIP movement ہے۔ نہ روڈ پہ کہیں ایسا لکھا ہوا تھا، نہ ہی پولیس والے کے ماتھے پہ درج تھا اور نہ ہی وہاں عام ٹریفک کے لیے کوئی روک ٹوک تھا۔ آج میں نے برداشت کر لیا کیونکہ میں احتیاط کرتا ہوں اور صبر بھی کر سکتا ہوں۔ کل کوئی دوسرا سر پھیرا آدمی یا sensitive آدمی یا کوئی وی آئی پی بنا جانے سمجھے بحث کرنا شروع کردے اور خدا نخواستہ VIP Movement والے اندھا دھند کوئی کارروائی کرے تو اب پچھتاوے کیا ہوت، جب چڑیاں چک گئی کھیت۔ ”

ایک قلمکار جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھاتا ہے تو وہ اس موضوع کے ذریعے سے معاشرے کی برائیوں کی نشاندہی کرنا چاہتا۔

اسی واقعے کو ہی لیجیے۔ اسی میں ہی کچھ نکات غور طلب ہیں۔ جیسا کہ :

آیا کسی معلم کے ساتھ کوئی شخص ناروا سلوک کرے تو اس کا راہ حل کیا ہونا چاہیے؟! مثلاً گریبان پکڑے، یا دیگر کسی حرکات کے ذریعے اک معلم کی بے عزتی ”توہین“ کرے تو کیا کرنا چاہیے؟ دونوں رخ دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے یا اک رخ؟ ہم سب ماشاءاللہ اتنے درد مند ہیں کہ فوراً مذمت کرنا شروع کرتے ہیں کہ فلاں شخص نے غلط کیا ہے، قابل مذمت ہے، کارروائی ہونی چاہیے۔ وغیرہ وغیرہ۔

بے شک معلمی کا پیشہ اک افضل با فضیلت، معزز پیشہ ہے۔ استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ قوموں کی فکری تربیت کا ذمہ داری استاد کے سر پر ہوتا ہے۔ با الفاظ دیگر اک مثالی معاشرے کی تشکیل میں استاد کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے پیشے مکرم نہیں بلکہ ہر پیشے کی اپنی ایک خاص عزت خاص شرف ہوتا ہے بعض کے زیادہ تو بعض کے کم۔ ہاں اس شعبے سے منسلک افراد اچھے یا برے ہوتے ہیں۔ پیشہ یا شعبہ بذات خود اچھے ہی ہوتے ہیں کچھ استثنائی شعبوں کے علاوہ۔ ان دونوں کے درمیان تفکیک کرنا فرق رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

غالباً جب ہم حقوق کے بارے بیان کرتے ہیں تو صرف اپنے حق کے بارے ہی صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں کیونکہ انسان فطرتاً خود غرض ہوتا ہے۔ علم حقوق سے آشنائی رکھنے والوں کے لیے یہ بات روشن ہے کہ کسی بھی حق کے ساتھ ایک وظیفہ بھی ضرور ہوتا ہے۔ عموما حقوق کے تذکرے بڑے شد و مد کے ساتھ بیان ہوتے ہیں لیکن وظائف/ ”ذمہ داری“ کے تذکرے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ وظائف کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ اس سے مسائل حل ہونے کے بجائے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔

بہرحال حقوق و وظائف کی بحث ایک وسیع میدان رکھتی ہے۔ اجمالا بیان کرنا ناگزیر تھا تاکہ لب مطلب سمجھنے میں آسانی ہو۔

یعنی جس کا جتنا زیادہ حقوق ہوتا ہے اتنا ہی اس کے گردن پر وظیفہ ”ذمہ داری“ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

مثلا؛اولاد پر فرض ہے کہ والدین کا احترام کیا جائے۔ دوسری طرف سے والدین کی ذمہ داری ہے کہ اولاد کی اچھی تربیت، اچھے نام کا انتخاب کیا جائے۔

اک استاد کا حق ہے کہ اس کا احترام کیا جائے۔ دوسری طرف استاد کا وظیفہ بھی عامة الناس سے کئی درجہ زیادہ ہے۔ اگر ایک استاد اپنے فرائض منصبی درست انجام نہ دے تو اک قوم کی مستقبل خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ لیکن اک پولیس کانسٹیبل یا دیگر کوئی بھی شخص اپنا فرائض منصبی کی انجام دہی میں کوتاہی کرے تو ممکن ہے کسی فرد واحد کی زندگی میں اثر انداز ہو لیکن اک مکمل اجتماع میں شاید اتنا اثر انداز نہ ہو جتنا استاد کا ہوتا ہے۔ یہ ایک مثال دی ہے۔ مثالوں پر مناقشہ نہیں ہوتا ہے فقط تقریب مطلب کے لیے، بات کی تفہیم کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اب سوشل میڈیا پر صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں کہ جس نے استاد کی بے احترامی کی ہے اس شخص کے خلاف کارروائی کیا جائے۔ یا ”اس شخص کی مذمت کرتا ہوں“ ۔

تو کیا وہ شخص ”پولیس کانسٹیبل“ واقعتا ذمہ دار ہے؟ اس کی غلطی ہے؟ یا نہیں بلکہ وہ بھی اپنے فرائض منصبی سے مجبور ہے؟!

ہم اکثر مسئلے کی ایک ہی رخ کو دیکھ کر فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ دوسرا رخ سے بالکل صرف نظر کرتے ہیں کہ وہ سپاہی بھی مجبور ہے، اس کو بھی اوپر سے حکم ہوتا ہے۔ اگر وہ اس حکم کی بجا آوری نہ کرے تو شاید اس کی جو بے عزتی بعد ہو میں گی اس سے ہم بے خبر ہیں۔ لہذا اگر وہاں پر پہلے سے اطلاع یا اشتہار دیے بغیر پولیس والے کسی کے ساتھ بھی کچھ کرے تو کوتاہی متعلقہ حدود کے ذمہ دار کا ہے نہ کہ مامور سپاہی کا۔

اور نہ ہم تبصرہ کرنے والے سوشل میڈیائی قلمکار حضرات عینی شاہد ہیں بلکہ ہم کسی اک شخص کی بات کو لے کر فریق دوم کو مکمل غلط قرار دینے پہ تلے ہوئے ہیں یہ انصاف کا تقاضا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments