مسجد اقصیٰ۔ (عہد زریں سے لہو لہو )


مسجد اقصیٰ پاک گھر جس کا ذرہذزرہ مقدس ہے۔ یہ یروشلم کے اندر واقع ہے۔ اس وجہ سے پورے یروشلم کو ہی شہر مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہ شہر تینوں مذاہب کے ماننے والوں یعنی مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے مقدس ہے۔ نبی کریمﷺ ہجرت کے بعد تقریباً 17 ماہ تک اسی شہر مقدس کے قبلہ اول کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے رہے تھے۔ جب آقا کریم ﷺ معراج شریف پر گئے تو یہ ہی مقام نبی کریم ﷺ کی پہلی منزل بنا جہاں پر آپ ﷺ نے انبیاء سابقین ؑ کا امام بن کر نماز پڑھائی اور کم و بیش ایک لاکھ تئیس ہزار نو سو نناوے انبیاء کرام ؑ صف آرا ہو کے مقتدی بنے۔

مسجد اقصیٰ کو قبلہ اول بھی کہا جاتا ہے اور روایات کے مطابق مسجد اقصیٰ اور بیت اللہ یعنی خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران کم و بیش 40 سال کا فرق ہے۔ جب حضرت آدم ؑ جنت سے زمین پر اتارے گئے تھے تو انہوں نے عبادت الہی ٰ کے لئے بیت اللہ شریف کی تعمیر فرمائی تھی۔ جب مدت دراز گزرنے کے بعد حضرت آدم ؑ کی بنائی ہوئی بیت اللہ شریف کی عمارت گر گئی تو بحکم ربی حضرت ابراہیم ؑ نے بیت اللہ شریف کی دوسری مرتبہ تعمیر فرمائی تھی۔

اب یہاں ایک بات بہت غور طلب ہے کہ جب مکہ شریف میں حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کے ساتھ مل کر ان کی عبادت الہیٰ کی ضروریات کے لیے تکمیل کے لئے اور آنے والے مسلمانوں کی حج بیت اللہ شریف کی تکمیل کے لئے خانہ خدا کی تعمیر فرمائی تھی۔ تو یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے دوسرے بیٹے حضرت اسحق ؑ کی عبادت کے لئے مسجد نہ تعمیر کرتے تو اس طرح سے دراصل مسجد اقصی ٰ کی تعمیر بھی حضرت ابراہیم ؑ نے فرمائی تھی مگر بعد میں اس کو گر جانے کے بعد دوبارہ تعمیر حضرت سلیمان ؑ نے فرمایا تھا۔

اس کو لوگ ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ ہیکل کا مطلب شکل ہوتا ہے۔ حضرت عیسیؑ سے ایک ہزار سال پہلے حضرت سلیمان ؑ نے اس ہیکل کی دوبارہ تعمیر کی تھی۔ کم و بیش سات سال تک اس اس کی تعمیر جاری رہی جس میں تقریباً 2 لاکھ افراد نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا جس میں نہ صرف انسان پیش پیش تھے بلکہ جنات بھی تعمیر میں شامل رہے اب قلوب و اذہان کی نذر یہ کرنا چاہوں گا کہ حضرت سلیمان ؑ کی حکومت نہ صرف زمین پر تھی بلکہ ہوا اور جنات اور چرند پرند بھی آپ کے تابع فرمان تھے۔

اس لئے آپ جب ہوا کو حکم فرماتے تھے وہ آپ کا تخت اٹھا کر لیے پھرتی تھی۔ الغرض میں بیت المقدس کی تعمیر کا ذکر عرض کر رہا تھا۔ حضرت سلیمان ؑ کے حکم پر انسانوں کے ساتھ ساتھ جنات نے بھی اس مقدس تعمیر میں حصہ لیا۔ حضرت داودؑ کے وصال کے بعد جب حضرت سلیمان ؑ تخت نشین ہوئے تو انہوں نے 1012 ق م میں اس ہیکل کی تعمیر شروع کروائی۔ ہیکل سلیمانی کے اندر ایک پاک قطعہ مخصوص کیا گیا جہاں پر تابوت سکینہ رکھا گیا۔ حضرت سلیمان ؑ کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کی قوم فحاشی اور فسق و فجور میں مبتلا ہو گئی۔ انہوں نے ایک اللہ کی عبادت چھوڑ کر بتوں کی پوجا شروع کر دی۔ حضرت سلیمان ؑ کے بیٹے حضرت رجحان بن سلیمان ؑ کو تخت پر بیٹھے صرف پانچ سال ہی ہوئے تھے کہ شاہ مصر شاق نے یروشلم کی طرف پیش قدمی کی۔ اور بنی اسرائیل کی نااتفاقیوں کی وجہ سے بغیر کسی مزاحمت کے یروشلم میں داخل ہو گیا۔ وہ شاہی نوادرات کے ساتھ ساتھ ہیکل کی تمام قیمتی اشیاء کو لوٹ کر لے گیا۔ یہود کی اصل تباہی بخت نصر کے ہاتھوں ہوئی۔ اس تباہی میں نہ صرف ہیکل سلیمانی کا نشان مٹ گیا بلکہ دیگر صحائف کے ساتھ ساتھ تورات بھی غائب ہو گئی۔

بخت نصر کے حملے کے وقت تابوت سکینہ ایسا غائب ہوا کہ آج تک بہت تلاش کے باوجود نہیں مل سکا۔ بخت نصر کے حملے میں یہودی ایسے تتر بتر ہوئے اور بہت جانی اور مالی نقصان ہوا کہ اس دور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت سلیمان ؑ کا تعمیر کردہ ہیکل تقریباً پانچ سو برس قائم رہا۔ پھر 587 قبل مسیح میں بخت نصر نے اس کو تباہ و برباد کر دیا پھر تقریباً 100 سال بعد یہودیوں نے دوبارہ اس کو تعمیر کیا۔ جس کو سیکنڈ ٹیمپل کہتے ہیں۔

اس کو رومیوں نے گرا دیا یعنی حضرت عیسی ؑ کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کے 40 برس بعد اور یہ اب تک گرا ہوا ہے۔ 70 عیسوی کے بعد عیسائیوں کا وہاں غلبہ تھا تو ان لو گوں نے اس کو غالب گمان ہے خالی پلاٹ مگر مقدس جگہ سمجھ کر چرچ بنا لیا۔ کیونکہ جب یروشلم کی حضرت عمر کے دور میں فتح ہوئی اور آپ وہاں پہنچے اور چرچ کی سیر فرما رہے تھے تو نماز کا وقت ہو گیا تو آپ نے فرمایا میری نماز کا وقت ہو گیا تو عیسائی راہب نے کہا آپ ادھر ہی ادا فرما لیں تو آپ نے فرمایا میں ادھر نماز پڑھوں گا تو مسلمان اس کو مسجد سمجھ کر ادھر ہی ادائے نماز شروع کر دیں گے۔

آپ باہر نکلے اور یہ گنبد صخرا اس جگہ ریت وغیرہ پڑی ہوئی تھی تو آپ نے اس جگہ نماز ادا کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب بیت المقدس فتح کیا تو اس وقت وہاں پر یہودیوں کی کوئی عبادت گاہ موجود نہ تھی ہاں مگر کھنڈرات موجود تھے۔ حضرت عمر کے حکم سے ان کھنڈرات پر ایک مسجد کی تعمیر شروع ہوئی۔ یہ انتہائی سادہ سی مسجد تھی بعد میں تقریباً پچاس سال بعد اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے مسجد اقصیٰ اور قبہ الصخرا کی تعمیر شروع کی مگر یہ خلیفہ صرف قبہ الصخرا کی تعمیر ہی مکمل کروا سکا اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر خلیفہ ولید بن مروان نے مکمل کروائی۔

جو جگہ مسلمانوں عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے متبرک ہیں وہ اکثر و بیشتر شہر کی مشرقی پہاڑی کے احاطے میں ہیں جن کو مسلمان حرم پاک اور یہودی بیت الحم کہتے ہیں۔ یہ بیت المقدس کا متبرک ترین حصہ ہے۔ اس طرح جو حرم پاک ہے اس کی کم و بیش حدود 35 ایکڑ ہیں۔ اور قبہ الصخرا اور مسجد اقصیٰ دونوں حرم پاک کا حصہ ہیں۔ جب کہ ان کے علاوہ بھی اس حرم پاک میں اور بھی مقدس مقامات واقع ہیں۔ ایہود باراک نے امریکی صدر کلنٹن کے دور حکومت میں اس حد تک بات چیت شروع کی تھی کلنٹن کی مصالحتی کوشش کے نتیجے میں کہ مسجد اقصیٰ تم لوگ رکھو تمہاری نماز پڑھنے کی جگہ ہے مگر ٹیمپل ماؤنٹ ہم نہیں دے سکتے یہ ہمارا ہے کیونکہ 2 ہزار سال سے ان کا ٹیمپل گرا ہے اور اب وہ لوگ طاقتور ہیں تو وہ چاہتے یہ ہیں کہ ہم اپنا ٹیمپل بنائیں۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments