انتہاپسندی کا عفریت


جس معاشرے میں علم کے بجائے جہالت کو پنپنے کا موقع ملتا ہے۔ وہاں عربی خطاطی پر مبنی ڈیزائن کو لوگ آیت قرآنی نہ سمجھیں تو کیا سمجھیں۔ اہل علم ہی نہیں، عام لوگ بھی جانتے ہیں کہ عربی ایک زبان ہے۔ جس میں عام زبانوں کی طرح شاعری اور گیت بھی ہوتے ہیں اگر عربی لٹریچر کا مطالعہ کیا جائے تو لوگ قدیم اردو شاعری کے رموز عشق اور غزلوں کو بھول کر عربی عشقیہ شاعری کا اردو ترجمہ پڑھنے اور سننے کو ترجیح دیں گے۔ عربی سے نابلد افراد کو عربی رسم الخط میں بھی یہی لگتا ہے کہ کوئی مقدس عبارت لکھی ہوئی ہے خواہ وہاں عربی کے عامیانہ شعر ہی کیوں نہ ہوں۔ میں بچوں کو پڑھاتے ہوئے جب عربی کی کوئی عبارت یا نظم جو نصاب کا حصہ ہوتی اور طلبہ کو کسی لفظ کا ترجمہ سمجھ نہ آتا تو وہ کہتے سر! اس آیت کا کیا ترجمہ ہے؟ ظاہر ہے سب عربی عبارات آیات نہیں ہوتیں۔

25 فروری کی سہ پہر لاہور کے اچھرہ بازار میں شاپنگ کرنے والی ایک خاتون نے شالک ریاض نامی برانڈ کا ایک لباس پہن رکھا تھا جس پر عربی رسم الخط میں مصورانہ خطاطی کی گئی اور لفظ حلوہ لکھا ہوا تھا۔ تحریر کا کوئی مذہبی مفہوم نہیں ہے۔ ایک مشتعل ہجوم نے خاتون کو گھیرے میں لے کر الزام لگایا کہ خاتون نے قرآنی آیات والا لباس پہن رکھا ہے۔ وہاں موجود کچھ افراد نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، نعرے لگاتے ہوئے خاتون کی طرف بڑھے اور لوگوں کو اشتعال دلایا۔ لباس پر لکھا لفظ ”حلوہ“ عربی میں محبت اور خوبصورتی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مگر نجانے کیوں ہجوم بے قابو ہو گیا۔

پولیس اہلکاروں کو باور کرا نے کی کوشش کی گئی کہ اس خاتون پر پرچہ کٹنا چاہیے، کیونکہ یہ الفاظ قرآنی آیات کے مشابہ ہیں، یہ ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر دستیاب ہے۔

ایک راہ چلتے ہجوم کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ موقع پر ہی الزام لگائے، مقدمہ بنائے، فیصلہ سنائے اور سزا دینے کا اہتمام بھی کر لے۔ ایسا تو کسی جنگل میں بھی نہیں ہوتا، وہاں بھی کچھ نہ کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں تو یہ روایت زور پکڑتی جا رہی ہے، ہر معاملے اور ہر محاذ پر ہر کوئی خود ہی فیصلے کا اختیار چاہتا ہے۔ عبد الحمید عدم کے بقول:

جنوں اب منزلیں طے کر رہا ہے
خرد رستہ دکھا کر رہ گئی ہے

ماضی میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جب توہین رسالت اور توہین مذہب کے نام پر معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، ان کی جان لے لی گئی لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکا۔

سری لنکا کے فیکٹری منیجر کو سرعام مشتعل ہجوم کے سامنے قتل ہوتے دیکھ کے پولیس اہلکار اپنا حقیقی فرض منصبی کیسے ادا کریں گے؟ اس ملک کے شہریوں کو نام نہاد مذہبی پیشواؤں کے گمراہ کن اشتعال سے کون تحفظ دے گا۔ افسوس یہ ہے کہ الزام لگانے والے کے لئے کوئی سزا نہیں ہے۔ عمر گزر جاتی ہے مقدموں کا فیصلہ ہوتے ہوتے، مظلوم انصاف کی امید پر دنیا سے ہی چلا جاتا ہے اور ظالم دندناتا پھرتا ہے۔ ریاست اپنی رٹ قائم کرے۔ ریاست پر لازم ہے کہ ایسی قانون سازی کرے کہ کسی میں دوسرے پر جھوٹا الزام لگانے کی جرات ہو اور نہ قانون ہاتھ میں لینے کی ہمت ہو۔ علما اعتراف کر رہے ہیں، کہ خاتون کے ساتھ غلط ہوا۔ اسلام تو امن کا پیغام دیتا ہے، دشمنوں کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا درس دیتا ہے پھر اس کے نام پر یہ نا انصافی کیوں؟

اس واقعے پر ہمارے معاشرے میں جو رد عمل آیا ہے اگرچہ وہ حوصلہ افزا ہے، ہر شخص نے، چاہے وہ مذہبی ہو یا آزاد خیال، اس کی شدید مذمت کی۔ لیکن یہ کافی نہیں، اس خاتون شہری کی اذیت کا مداوا کیسے ہو گا جس کی ناکردہ گناہ کی پاداش میں جان خطرے میں ڈالی گئی۔

انتہاپسندی ہمارا عام سماجی رویہ بن چکا ہے۔ یہ رویہ کوئی دو چار افراد کا یا کسی ایک شعبہ حیات میں نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اکثریت کا عام رویہ ہے اور قریب قریب ہر شعبہ حیات میں ہے۔ مذہبی معاملات ہوں، سیاسی مسائل ہوں، علمی مباحث ہوں یا سماجی نزاعات ہوں، اس رویے کا اظہار ہر جگہ موجود ہے۔ خاتون کے ساتھ ہونے والا واقعہ ہمارے سماجی بحران کا محض ایک جزو ہے۔ صرف مذہبی طبقہ نہیں، اپنے اپنے دائرے میں ہم سب انتہا پسند ہیں۔ یہ عارضہ سارے معاشرے کو لاحق ہو چکا ہے۔

کسی ایک طبقے کو مورد الزام ٹھہرانا مسئلے کا حل نہیں۔ اصلاح احوال کی واحد صورت اپنے اپنے شعبے میں موجود انتہا پسندوں کی حوصلہ شکنی ہے۔ ان میں سے کوئی قانونی گرفت میں آئے تو کارٹل کی صورت رد عمل کی بجائے سچائی کا ساتھ دیں۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ انتہا پسندی کا جب کسی مذہبی بیانیے میں ظہور ہو تو اس کی نوعیت زیادہ سنگین ہو جاتی ہے۔

ٹاک شوز میں میزبان اور مہمان کی گفتگو میں انتہا پسندی دیکھ لیں۔ ریٹنگ کے لیے مہمان کے انتخاب میں علم و فراست کی بجائے بد زبانی اور بد تہذیبی قابل ترجیح ہوتی ہے۔ اہل سیاست کی پارلیمان میں گفتگو ہویا ٹاک شو میں سیاسی حریف سے مکالمہ اسی طرح کسی جلسہ عام کا خطاب ان کا طرز گفتگو مہذب، معتدل اور شائستہ ہوتا ہے؟

کیا اہل مذہب کا ایک بڑے حصے کی اپنے مذہبی دائرہ کار میں حریفوں کے بارے میں گفتگو اعتدال اور بقائے باہمی پر مبنی ہوتی ہے اور کیا مخالف کی اسلام دوستی پر سوال نہیں اٹھایا نہیں جاتا؟ کیا تعلیمی اداروں میں اہل سیاست کے مذہب، لسانیت اور قومیت کے عنوانات کے تحت قائم طلباء کے جتھوں میں سے کوئی ایک کسی دوسرے جتھے کے وجود کو برداشت کر سکتا ہے؟

کیا ادیب، شاعر اور اہل دانش دوسرے معاصرین کا تذکرہ کرتے ہوئے بغض اور حسد کی شمشیر بے نیام نہیں بن جاتے؟ کیا کسی دفترمیں اپنے افسر سے جائز اختلاف کرنے والا عبرت کا نشان نہیں بنا دیا جاتا؟

سیاسی جماعتوں میں ترجمانی کا منصب شعلہ بیانی میں مہارت والوں کو دے کر شائستگی، تحمل اور اعتدال کا دروازہ بند کرنا کس رویے کا عکاس ہے؟

ذرائع ابلاغ اور ان سے وابستہ اہل قلم اور اہل صحافت یک طرفہ محبت اور نفرت کا سمبل بننے اور توازن کو بالائے طاق رکھتے کو آپ کی نام دیں گے؟ مذہبی طبقے کے ناقدین؛روشن خیال لبرلز کے ہاں اہل مذہب کے بارے میں تلخی، نفرت، تضحیک اور پایا جانے والا تمسخر کس زمرے میں آتا ہے؟ دفتر، گھر، گلی، محلے اور بازار میں قوت اور طاقت رکھتے والے اپنے سے کم ترکا اختلاف رائے برداشت کرنے کے روادار ہیں؟

سوشل میڈیا اب اظہار رائے کا مرکز ہے۔ جہاں موجود سماج کے تمام طبقات میں انتہا پسندی کے تمام مظاہر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جاہلانہ انداز میں اپنے اپنے جتھے کی ہر جائز و نا جائز حرکت کا دفاع کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟ سیاست میں خود پرستی کا شکار ہونے والوں کا یہ بیانیہ اپنانا کہ اس کے علاوہ سب چور ہیں، سیاسی فاشزم نہیں۔ شاید ہی کوئی سیاسی گروہ اس آزار سے محفوظ ہو۔ یہ مثالیں ہمارے سماجی رویے کی حقیقت واضح کرتی ہیں۔

ایسی جذباتیت قوانین کے بروقت اور بلا تفریق استعمال سے قابو میں لائی جا سکتی ہے۔ ورنہ مستقبل میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں ماضی میں ہاں کئی مسلمانوں کو بھی اسی طرح کے جذباتی ہجوم موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔ ’مشتعل‘ ہجوم اپنا ”ایمان“ بچانے کی خاطر کب تک بلا تحقیق ایسی جنونیت کے ذریعے اسلام کی بدنامی کا باعث بنتے رہیں گے؟ قرآن مجید کا یہ حکم ہم کیوں بھول جاتے ہیں؟

”اے ایمان والو! جب تمھارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ جہالت میں قوم کے ساتھ ایسا کام کر بیٹھو کہ تمہیں اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے۔“ یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعات ایک طرف اسی جہالت کا عکاس اور دوسری جانب ریاست کی بے بسی کے غماز ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments