سرمد کھوسٹ سے نا انصافی


پاکستان کی بیوروکریسی میں گدھ بیٹھے ہیں جو ملک کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، خود تو یہ کام کرتے نہیں اور اگر کوئی ملک کے لئے خدمات سرانجام دیے تو اس کا کریڈٹ بھی خود لینے کے چکر میں رہتے ہیں، یہ بیوروکریسی ہی ہے جن کے کالے کرتوتوں کی وجہ سے ملک تباہ ہو چکا ہے، ملک کا کوئی ادارہ مستحکم نہیں، انصاف کی توقع اب کسی سے نہیں رہی، سب بکتے ہیں، ملک کے لئے خدمات سرانجام دینے والے ہزاروں سپوت ایسے ہیں جن کو آج تک ان کا حق نہیں دیا گیا

22 مارچ کو ملک کے نامور فلم ڈائریکٹر اور اداکار سرمد کھوسٹ نے انسٹا گرام پر انکشاف کیا ہے کہ ان کا نام ستارہ امتیاز کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے جو انہوں نے 23 مارچ 2024 کو وصول کرنا تھا، واضح رہے کہ گزشتہ سال اگست 2023 میں یوم آزادی کے موقع پر مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والے 304 پاکستانیوں اور غیرملکیوں کو اعزازات کے لیے منتخب کیا گیا تھا، فلم ڈائریکٹر سرمد سلطان کھوسٹ سمیت 50 کے قریب افراد کو ستارہ امتیاز سے نوازنے کا اعلان کیا گیا تھا، تقریب سے ایک روز قبل سرمد کھوسٹ نے انسٹاگرام سٹوری پر ستارہ امتیاز کے ناموں کی ایک فہرست شیئر کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ میرا نام صدارتی ایوارڈز کی 14 اگست 2023 کی فہرست سے غائب ہے

انہوں نے لکھا کہ جن لوگوں نے مجھے گزشتہ سال مبارک باد دی تھیں وہ اپنی مبارک باد واپس لے لیں، سرمد کھوسٹ نے مزید لکھا کہ ’بھئی، یہ میں نے خود تو نہیں بنا لی تھی لسٹ اور جہاں تک مجھے یاد ہے کہ حتمی فہرست 14 اگست 2023ء کو جاری کی گئی، یہ فہرست حتمی ہوتی ہے جب تک کہ وصول کنندہ ایوارڈ قبول کرنے سے انکار نہ کردے۔

سرمد کھوسٹ ملک کے قابل ڈائریکٹر اور رائٹر ہیں جنہوں نے بہت خوبصورت کام کیا جس کو عوام نے بے حد سراہا، سرمد کھوسٹ کے والد عرفان کھوسٹ پاکستان کے نامور کامیڈین اور اداکار ہیں جبکہ سرمد کھوسٹ کے دادا سلطان کھوسٹ بھی ملک کے معروف اداکار تھے، اس خاندان کی فلم، ٹی وی کے شعبہ میں بے پناہ خدمات ہیں، یقیناً سرمد کھوسٹ کو ستارہ امتیاز دینے کا فیصلہ ان کی صلاحیتوں کے اعتراف میں کیا گیا ہو گا ان کے کام کو کسی سفارش کی ضرورت نہیں مگر پاکستان میں کام کی کوئی قدر نہیں کرتا، اس کے لئے سفارش بہت ضروری ہے بلکہ لابی کا ہونا زیادہ ضروری ہے، یہاں تو مہوش حیات کو بغیر کسی کارکردگی کے تمغہ دیدیا جاتا ہے، قارئین کو یاد ہو گا کہ جب مہوش حیات کو تمغہ دیا گیا تھا تو عوام بے بہت لے دے کی تھی

سرمد کھوسٹ پہلی شخصیت نہیں جن کے ساتھ یہ زیادہ ہوئی ہے، ماضی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، سرمد کھوسٹ سے ہونے والی والی اس نا انصافی کا شدید دکھ ہے کہ ملک کا ہونہار اور باصلاحیت نوجوان غلیظ نظام کی بھینٹ چڑھ گیا ہے، ڈاکٹر غافر شہزاد نے اپنی تحریر میں انکشاف کیا ہے کہ کیسے پاکستان کی پہچان مینار پاکستان کا ڈیزائن کرنے والی ٹیم کو تمغہ حسن کارکردگی دینے کا معاملہ بیوروکریسی کے ایک افسر نے صرف اس لئے دبا دیا تھا کہ کیونکہ اس فہرست پر مینار پاکستان کا ڈیزائن کرنے والے آرکیٹیکٹ این مرات خان نے اعتراض کر دیا تھا جس پر اس افسر نے سب کے نام ہی اڑا دیے اور اپنی انا کی تسکین کے لئے مینار پاکستان کا افتتاح کیے بغیر عوام کے لئے کھول دیا تھا کس قدر دل ہلا دینے والی بات ہے کہ ہماری قومی یادگار آج تک بغیر افتتاح کے ہی کھڑی ہے

مینار پاکستان کا ڈیزائن کرنے والی ٹیم کو تمغہ برائے حسن کارکردگی نہ ملنے کی داستان بھی پڑھ لیں، مینار پاکستان کا ڈیزائن روسی نژاد پاکستانی آرکیٹیکٹ ایلری این مرات خان نے کیا تھا جس کی انہوں نے فیس نہیں لی تھی جب ڈیزائن کرنے کا معاہدہ ہوا تھا تو مرات خان نے فیس والے خانے میں یادگار الفاظ لکھے تھے، Humble donation for the nation، مینار پاکستان سات برسوں میں تعمیر ہوا، اس کی تعمیر کے لئے چندہ سنیما کی ٹکٹ پر ٹیکس لگا کر اکٹھا کیا گیا، اس دوران سات کمشنر لاہور تعینات رہے، مینار پاکستان جب تکمیل کے آخری مراحل میں تھا تو اس وقت کے صدر ایوب خان نے مینار پاکستان پر کام کرنے والوں کے لئے تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا

جب مینار پاکستان تکمیل کے آخری مراحل میں تھا تو ایک بیووکریٹ مختار مسعود (جو دانشور بھی بنتے تھے) کمشنر لاہور تعینات ہوئے، ایوب خان کے اعلان کے بعد اس نے تمغہ برائے حسن کارکردگی کے لئے فہرست بنائی اور مرات خان سے کہا کہ وہ اپنی ٹیم کے نام بھی دے دیں جس پر مرات خان نے اپنا، ڈیزائن سیشن کے ہیڈ آرکیٹیکٹ اعجاز حسین کاظمی، سول انجنیئر عبدالرحمن نیازی و دیگر کے نام دیے

کمشنر مختار مسعود نے فہرست فائنل کر کے کاپی مرات خان کو بھیجی تو مرات خان کا پارہ چڑھ گیا وہ فہرست دیکھ کر حیران رہ گئے کہ مختار مسعود نے سب سے اوپر اپنا نام لکھا ہوا تھا اور مینار پاکستان کی تعمیر کا سارا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی، (مختار مسعود نے اپنی کتاب آواز دوست میں بھی مینار پاکستان کی تعمیر کا سہرا اپنے سر لینے کی ناکام کوشش بھی کی)، مرات خان فوراً کمشنر کے پاس گئے اور کہا کہ آپ تو اس وقت تعینات ہوئے جب مینار پاکستان مکمل ہونے کے قریب ہے اگر آپ نے اپنا نام دینا ہے تو آپ سے قبل چھ کمشنر تعینات رہے ہیں جنہوں نے سخت محنت کر کے فنڈ اکٹھے کر کے اس مکمل کرایا ہے جبکہ آپ کا تو کوئی کریڈٹ ہی نہیں لہذا اپنا نام فہرست سے نکالیں یا پھر پہلے والے چھ کمشنرز کے نام بھی شامل کریں

اس بات پر افسر شاہی کے مختار مسعود ناراض ہو گئے اور ساری فہرست ہی غائب کردی جیسے سرمد کھوسٹ کا نام غائب کیا ہے، اس وقت ایوب خان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے درمیاں سخت سیاسی لڑائی جاری تھی، مختار مسعود نے حالات خراب ہونے کا بہانہ بنا کر افتتاحی تقریب ہی منسوخ کردی اور مینار پاکستان کو بغیر افتتاح کے ہی عوام کے لئے کھول دیا

بیوروکریسی کے کالے کرتوت 55 سال بعد بھی وہی ہیں، اس وقت کے کمشنر نے اپنی انا کی تسکین کے لئے ایک قومی یادگار کو بغیر افتتاح کے صرف اس لئے عوام کے لئے کھول دیا کہ اگر اس کو تمغہ نہیں ملنا تو پھر کسی کو بھی نہیں ملے گا، حکمرانوں کو اگر اپنی عیاشیوں سے فرصت ملے تو ریکارڈ سے مینار پاکستان کی تعمیر میں حصہ لینے والوں کے نام کی فہرست نکلوا لے اور اس پر غور کرے مگر وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ اس میں ان کا کوئی مفاد نہیں

بیوروکریسی ایک قومی یادگار کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتی ہے تو سرمد کھوسٹ کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ بیوروکریسی ان کی جگہ کسی اور مہوش حیات کو تمغہ دلوا کر ملک کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتی رہے گی، نجانے کتنے سرمد کھوسٹ ہیں جو ملک کا نام روشن کرتے ہیں مگر ان کو صرف اس لئے ان کا حق نہیں دیا جاتا کہ اس میں بیوروکریسی کا کوئی فائدہ نہیں، شاید ایک اور مختار مسعود بیوروکریسی میں بیٹھا ہو جس کو سرمد کھوسٹ سے کوئی فائدہ ملنے کا امکان نہیں ہو گا تو اس کی جگہ وہ اپنے کسی چاہنے والے کو تمغہ امتیاز دلوائیں گے

اس ملک کی قسمت عجیب ہے، 76 برسوں سے جونکیں ملک کا خون پی رہی ہیں، گدھ گوشت نوچ رہے ہیں، عوام کے پیسے سے پالے ہوئے سنپولیے ملک کو ڈس رہے ہیں اور نجانے کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا، سرمد کھوسٹ کو مشورہ ہے اپنی دھن میں مگن رہیں اور اپنا کام جاری رکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments