پھٹی رناں


”پھٹی رن“ پنجابی زبان کا محاورہ ہے جس کے معنی متکبر اور جھگڑالو عورت کے ہیں، یہ محاورہ اکثر ان خواتین کے بارے میں کہا جاتا ہے جو شادی شدہ ہوں اور خاوند کی طرف سے تمام سہولیات اور آسائشیں میسر ہونے کے باوجود شکرگزار نہ ہو اور بے وجہ گھر میں لڑائی جھگڑے کرے، جس پر اس کے محلہ اور قریبی عزیز و اقارب اس کے بارے میں رائے دیتے ہیں کہ پھٹی رن ہے، اللہ نے کمانے والا شوہر، بچے، گھر، گاڑی پیسہ اور وسیع رزق دیا ہے مگر اللہ کی شکر گزار ہونے کے باوجود گھر اور محلے میں ہر کسی سے بلاوجہ لڑتی رہتی ہے

ایسی خواتین ناصرف شوہر کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں بلکہ خاندان کی رسوائی کا بھی سبب بنتی ہیں، پھٹی رن شوہر اور بچوں کے لئے بھی عذاب سے کم نہیں ہوتی، پھٹی رن کو اپنے دولت مند، خاوند، والد یا بھائی کے با اثر ہونے کا گھمنڈ ہوتا ہے، ان کا خیال ہوتا ہے کہ اس کی اتنی پاور ہے کہ وہ ایک فون کر کے کسی کو بھی ”اندر“ (حوالات) کرا سکتی ہے، ایسی خواتین معاشرے پر بھی بوجھ کا باعث بنتی ہیں، ان عورتوں کے سر پر طاقت کا نشہ سوار ہوتا ہے اس لئے کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتیں

”پھٹی رناں“ کا خیال چند روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو دیکھ کر آیا جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد ٹول پلازہ پر اوور سپیڈنگ کرنے پر موٹر وے پولیس اہلکاروں نے ایک خاتون کی گاڑی روک رکھی تھی اور اس کا چالان کرنا چاہ رہے تھے، اوور سپیڈنگ پر چالان کرنا بھی چاہیے مگر خاتون اہلکاروں سے الجھ رہی تھی پھر وہ ٹول پلازہ کے اہلکار سے بحث کر رہی تھی کہ وہ فیصل آباد سے ٹیکس لے کیونکہ اس کے پاس پیسے کم ہیں، ایک اہلکار خاتون سے کاغذات طلب کر رہا تھا تو دوسرے اہلکار نے کار کے سامنے کھڑا ہو کر اسے روکا ہوا تھا، مختصر بحث کے بعد خاتون نے کار اہلکار پر چڑھا دی اور فرار ہو گئی جس سے اہلکار زخمی ہو گیا

اس ویڈیو میں چند لمحوں بعد ہی موٹر وے پولیس کی کار خاتون کا پیچھا کرنے کے لئے روانہ ہوتے ہوئے نظر آتی ہے، یہ واقعہ تو یکم جنوری 2024 کا ہے مگر ویڈیو اپریل کے وسط میں وائرل ہوئی، اس سارے منظر میں وہ خاتون ”پھٹی رن“ لگ رہی تھی اور محسوس ہو رہا تھا کہ اس کا خاوند، بھائی یا والد با اثر شخصیت ہے جس پر وہ آپے سے باہر نظر آ رہی تھی، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ویڈیو ساڑھے تین ماہ بعد کیوں وائرل ہوئی

جب موٹر وے پولیس کی گاڑی فوری طور پر خاتون کو پکڑنے کے لئے روانہ ہو گئی تھی تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ خاتون کو پکڑ نہ سکی ہو، ویڈیو وائرل ہونے کے بعد حقیقت سامنے آئی کہ موصوفہ ملک کے نامور صحافی اور اینکر (جو ایک بڑے نجی چینل پر پروگرام کرتے ہیں اور حکومت کو اخلاقیات، میرٹ اور گڈ گورننس کا بھاشن دیتے نہیں تھکتے) کی (موجودہ یا سابقہ؟) اہلیہ ہیں بعد میں انہوں نے بتایا کہ ان کی علیحدگی ہو چکی ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے عورت تب ہی پھٹی رن بنتی ہے جب اس کے پیچھے طاقت ور ہاتھ ہوتا ہے اور وہ قانون کو گھر کی لونڈی سمجھ لیتی ہے، واقفان حال بتاتے ہیں کہ ساڑھے تین ماہ یہ معاملہ اس لئے دبا رہا ہے کیونکہ موٹر وے پولیس کے ایک سابق ”امام“ نے معاملہ رفع دفع کرانے میں اپنا کردار ادا کیا تھا

جن اہلکاروں سے بدتمیزی کی گئی اور ان کو جان سے مارنے کی کوشش کی گئی انہوں نے ہی کسی ذریعہ سے ویڈیو وائرل کرا دی ہوگی کیونکہ اشرافیہ ایک دوسرے کو تحفظ دینے میں متحد ہوتے ہیں جس پر یہ معاملہ سامنے آیا، ویڈیو وائرل ہونے پر نجی چینلز پر اس ایشو کو اٹھایا گیا تو راولپنڈی پولیس نے ایک بار پھر معاملہ دبانے کی کوشش کی، سینئر صحافی صالح مغل نے خبر دی کہ جب اس حوالے سے خبر دینے کے لئے پولیس کا موقف جاننے کے لئے رابطہ کیا تو پولیس نے ٹال مٹول سے کام لیا پھر عوامی ردعمل پر پولیس نے خاتون کو گرفتار کر لیا

گرفتار کرنے پر پولیس نے جو کہانی میڈیا کو بتائی وہ کسی جیمز بانڈ کے مشن سے کم نہیں، بات یہ ہے کہ اگر پولیس اتنی ہی باصلاحیت اور ماہر ہے تو ساڑھے تین ماہ قبل خاتون کو گرفتار کیوں نہ کیا، اب پھٹی رن جیل میں ہے، عدالت نے اس کی ضمانت کی درخواست بھی خارج کردی ہے

دوسرا واقعہ تین، چار روز قبل پیش آیا یہ بھی موٹر وے پر ہی پیش آیا، وائرل ویڈیو دیکھ کر دکھ ہوا کہ ایک شریف اہلکار نے ایک کار کو روکا جس پر خاتون شدید برہم ہو گئیں اور ویڈیو بھی بنانے لگ گئی، پولیس اہلکار بڑی عمر کا شریف آدمی نظر آ رہا ہے، اس پھٹی رن نے اس کو گالیاں دی وہ سن کر دکھ ہوا کیونکہ ایسی غلیظ گالیاں شوبز کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لاہور کی ہیرا منڈی میں طائفوں کی لڑائی یا پھر ایک چنگڑ محلے میں خواتین کی لڑائی کے دوران سنی تھیں۔

اب یہ علم نہیں ان خواتین کا تعلق کس قبیلے سے تھا یا پھر وہ بھی پھٹی رن ہے جس کا شوہر، بھائی یا والد انتہائی دولت مند ہو گا جو قانون بھی خرید سکتا ہے یا پھر بہت ہی با اثر ہو گا جس کے آگے قانون بے بس ہو گا ورنہ کوئی شہری خاص طور پر کوئی خاتون ایسی زبان استعمال نہیں کر سکتی، اس واقعہ کا فالو اپ ابھی تک سامنے نہیں آیا، ممکن ہے کہ اس معاملے کو دبانے کے لئے بھی کسی ادارے کا ”امام“ ثالث بن گیا ہو۔

ایسی پھٹی رنیں نہ صرف شوہر، بھائی اور والد کے لئے بھی ایک عذاب سے کم نہیں، ان عورتوں کا کوئی علاج نہیں ہوتا جس کا انجام یہ ہوتا ہے اینکر کو بھی یہ کہہ کر جان چھڑانا پڑتی ہے کہ ہماری علیحدگی ہو چکی ہے، چند پھٹی رنیں شریف عورتوں کی بدنامی کا باعث بنتی ہیں، اس کا علاج یہی ہوتا ہے کہ ان کو اتنی سہولیات نہ دی جائے بلکہ ان کو ”وتھ“ میں رکھا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments