امریکی صدر کا پاکستان پر ”بڑا سفارتی حملہ“

محمود جان بابر - صحافی


تین سال پہلے اگست کی 15 تاریخ تھی جب افغانستان سے اچانک ہر وہ سرپرست لاپتہ ہو گیا جو اب تک اس کا وارث اور حقیقی غمخوار ہونے کا دعویدار تھا ان میں امریکہ اور اس کے چھپن اتحادی ممالک بھی تھے افغانستان میں برسراقتدار اشرف غنی انتظامیہ اور خود کئی سالوں کی محنت سے تیار کی گئی قومی فوج بھی تھی۔

پوری دنیا حیران تھی کہ یہ اچانک کیا ہو گیا؟ کوئی ایسے بھی کرتا ہے کیا؟ وہ افغان طالبان جن کے سامنے امریکہ کو گھٹنے ٹیک کر گلے پڑے افغانستان سے جان چھڑانے کے لئے دوحہ میں معاہدہ کرنا پڑا تھا کے بارے میں یہ خیال تھا کہ طالبان کو افغانستان آنے اور یہاں کا اقتدار سنبھالنے میں بڑا وقت لگے گا اور ان کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ اشرف غنی اور ان کی فورسز ہوں گی جو انہیں ناکوں چنے چبوائے بغیر افغانستان خصوصاً کابل پر قبضہ نہیں کرنے دے گی۔

لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا نہ ہی امریکہ نے اپنی فیس سیونگ کے لئے ہی سہی کوئی ایسی محفل منعقد کی جس میں اشرف غنی انتظامیہ اور افغان طالبان ایک چھت تلے بیٹھتے، ملک کا انتظام باضابطہ طالبان کے حوالے کیا جاتا اور حکومت حوالے کرنے کی اس تقریب کے لئے کوئی ایسا ایک یا زیادہ بین الاقوامی کھلاڑی بھی موجود ہوتے جو اس تبادلہ اقتدار کے گواہ بنتے اور بعد میں افغانستان کی جانب سے کوئی خطرہ بننے کی صورت میں یہ گواہ صورتحال کو سنبھالنے کا کام کرتے۔

کابل جب ایک ایک کر کے افغان طالبان سے بھرنے لگا تو اس وقت بہت سے لوگ اسے طالبان کی جیت سے تعبیر کر رہے تھے لیکن ہم جیسے لوگ جو ایسے بہت سے ڈرامے کبھی حقیقی اور کبھی فلموں میں دیکھ چکے تھے اسے افغانستان میں دشمن کا نیا جال سمجھ رہے تھے۔

وقت گزرتا گیا افغانستان کی طالبان انتظامیہ کو ہفتوں اور مہینوں میں ناکام ہوتے دیکھنے کے خواہشمندوں نے اپنے اپنے اندازے لگائے کہ ایک ایسی انتظامیہ جس کے پاس ملک چلانے کے لئے افرادی قوت اور درکار رقم بھی نہیں کب تک چل پائے گی۔ پھر آہستہ آہستہ راز کھلنے لگے کہ افغانستان کو اس حال میں چھوڑ کر جانا اور سب کا یوں لاپتہ ہوجانا منصوبے کا حصہ تھا اس منصوبے کے تحت خود افغانستان میں طالبان مخالف قوتوں نے سر اٹھایا اور سکھ کا سانس لینے کی تیاری کرنے والے پاکستان کو بھی ایک نئی مشکل کا سامنا ہوا اس کو مطلوب زیادہ تر جنگجو افغانستان میں مہمان بن کر رہنے لگے ان کا جب جی چاہا امریکہ کے چھوڑے ہوئے اسلحے اور دشمن کی فراہم کی گئی فنڈنگ سے وہ پاکستان کے لئے درد سر بن گئے۔

بہت سے تبصرہ نگاروں نے اس بیانیے کو اہمیت دی کہ امریکہ نے خود کو بڑے خرچے سے بھی بچا لیا اور اپنے تمام دشمنوں کو مشکل سے دوچار بھی کر دیا اور اب وہ اپنے تمام مقاصد بہت کم خرچے پر حاصل کرسکے گا اس کا اپنا بھی خیال تھا کہ اس خطے میں اب کبھی استحکام نہیں آئے گا، افغانستان کے قریبا نو ارب ڈالر روک کراس نے اس تباہ حال ملک کی مکمل تباہی کا انتظار کیا۔ اسے یقین تھا کہ دنیا بہت جلد اس کے پیر پڑے گی اور اسے واپس افغانستان کو طالبان سے بچانے اور دنیا کو افغانستان میں بننے والے خطرے سے بچانے کے لئے دہائی دے گی۔ اس دوران افغانستان اور پاکستان کے تعلقات خرابی کی انتہاؤں کو چھونے لگے، جنگجووں کے قدم سرحدیں پار کر کے شاہراہ قراقرم کے راستے چین کی گردن پر پڑنے لگے۔

مشکلات سے گھرا افغانستان اس کے ہاں موجود بہت سے جنگجووں کے سامنے کھڑا نہ ہوسکا اور وہ جنگجو اس کی مشکلات میں اضافہ کرتے گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب دنیا نے یوکرین کی جنگ کے نام پر افغانستان کو بے یارومددگار چھوڑا۔ اس کے ہسپتالوں کو عالمی امدادی اداروں سے ملنے والی رقوم بھی اس لئے بند کردی گئیں کہ امریکہ بہادر یہ چاہتا تھا وہاں پر پریشانیوں کے مارے لوگ ذہنی مریض بننے لگے جن کے پیٹ بھوکے، بچے ننگے اور خواتین مشکل زندگی گزار رہی تھیں۔ انسانی حقوق کی تمام تنظیموں نے افغانستان سے اس لئے منہ موڑا کہ امریکہ ناراض ہو جائے گا اس لئے وہ انسانی امداد فراہم کرنے کی بجائے افغانستان کے اندر انسانی حقوق کی پامالیوں کی رپورٹس جاری کر کے اپنے ان اعمال کو جواز دیتی رہیں کہ وہ اگر افغانستان میں سسکتے انسانوں کو مرتے ہوئے چھوڑ گئی ہیں تو اس کے ذمے دار افغان ہی ہیں۔

لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا چین نے لیڈ لی، اپنا سفیر افغانستان میں بٹھایا اور افغان سفیر کو اپنے ہاں ویلکم کہہ کر دنیا کو پیغام دیا کہ وہ اور اس کے دوست وہی کریں گے جو ان کے لئے اچھا ہو گا۔ نہ صرف افغانستان امریکہ کے اثر سے مکمل نکل گیا بلکہ پاکستان نے بھی امریکہ پر پہلے سے اپنے کم ہوتے انحصار کو مزید کم کیا اور اپنے لئے روس و چین سمیت دوسرے دوست ڈھونڈنے شروع کیے۔ خود امریکہ اسرائیل جنگ کی بدولت مشکل صورتحال سے دوچار ہوا۔

پاکستان میں حکومت بدلنے کے بعد چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے منصوبے میں جان پڑ گئی منصوبے سے منسلک دیگر پراجیکٹس پر بھی کام چلتا رہا اور پھر صورتحال سے پریشان قوتوں نے ایک بار پھر بشام میں چینی باشندوں کے قافلے پر حملے کی منصوبہ بندی کی۔ حملے کے ساتھ ہی چین اور پاکستان کے تعلقات مکمل خرابی کی جانب بڑھتے ہوئے لگے لیکن پاکستان کے سیاسی اور عسکری اتحاد کی حکومت نے چینی سفارتخانہ پہنچ کر پیغام دے دیا کہ وہ چین کو چھوڑنے کو تیار نہیں اور چین نے بھی دو تین دن بعد ہی پیغام دے دیا کہ وہ پاکستان میں اپنے کسی منصوبے پر کام بند نہیں کرے گا۔

ابھی حالات کو سنبھالنے کی کوششیں ہی کی جا رہی تھیں کہ اچانک بشام کے اس دہشت گرد حملے سے ”بڑا سفارتی حملہ“ ہو گیا امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کو اہم قرار دے کر ایک بار پھر مثبت شراکت داری کا پیغام دیا اور کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ چلنے کو تیار ہے یہ بیان اگر کچھ اور حالات میں آتا تو شاید پاکستان میں اسے خوش بختی اور اچھے مستقبل کی نشانی کے طور پر محسوس کیا جاتا لیکن ایسا لگا جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔

یہ بات تو اب سب کو سمجھ آ چکی ہے کہ اس جنگ میں پاکستان، افغانستان یا کسی اور کی اپنی اکیلے کی کوئی اہمیت نہیں ہاں اگر اہمیت ہے تو اس بات کی ہے کہ یہ ممالک امریکہ مخالف بلاک میں شامل نہ ہوجائیں اور بلاک بھی وہ جو صرف سی پیک تک محدود نہ ہو بلکہ اس کی نظریں دنیا پر ہوں وہ سی پیک سے سو قدم آگے بی آر آئی یعنی بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو کے ذریعے پاکستان، افغانستان، سنٹرل ایشیا، ایران اور ترکی کے راستے یورپ کو ایک ہی لڑی میں پرونے جا رہا ہو۔

ایسے میں ان معاملات کے ماہرین کہتے ہیں کہ امریکہ اس صورتحال میں یہ ضرور چاہے گا کہ وہ کسی بھی طرح اپنی مرضی کے خلاف بننے والے اس بلاک کی زنجیر کی کوئی ایک کڑی کہیں سے توڑ دے کیونکہ کوئی ایک بھی مسنگ لنک اس کے مسئلے کا حل بن سکتا ہے۔

نوٹ: کالم نویس پشاور کے صحافی ہیں جو افغانستان اور خطے کے بارے میں رپورٹنگ کا تجربہ رکھتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments