پہنچی وہیں پہ خاک


2013 میں 4 حلقوں کا ایسا شور ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ مینڈیٹ چوری کا بیانیہ بنا۔ حلقے تھے :
125، 122، 110، 154
154 میں اُس وقت کے اہم ”ترین“ امیدوار تھے۔ ان چاروں حلقوں سے امیدواران تھے :
سعد رفیق / حامد خان،
ایاز صادق / عمران خان،
خواجہ آصف / عثمان ڈار،
صدیق بلوچ (آزاد) /جہانگیر ترین/رفیع بخاری

تمام اول الذکر کامیاب قرار پائے، مگر 2018 تک یہ 4 حلقے نون لیگ کے حلق میں کانٹے کی طرح چبھتے رہے، کبھی ٹربیونل تو کبھی ہائیکورٹ، کبھی سپریم کورٹ تو کبھی جوڈیشل کمیشن۔ کبھی دوبارہ گنتی تو کبھی انگوٹھوں کی تصدیق۔ یعنی ”چین اک پل نہیں“ والا معاملہ بنا رہا اور لٹکتا رہا۔

2018 گزرا، 2024 میں پھر وہی گونج ہے ”4 حلقے“ جی ”4 حلقے“ ، جی پائی جان صرف ”4 حلقے“ ۔ حکومت پھر نون لیگ کی اور اسی پرانے کھڑاک کا ری میک لگ رہا ہے۔

اس بار 4 حلقے درج ذیل ہیں :
این اے 130 نواز شریف / یاسمین راشد
این اے 28 نور عالم خان / ساجد نواز
این اے 128 عون چوہدری / سلمان اکرم راجہ
اسلام آباد کے 3 حلقوں (این اے 46، 47، 48 ) میں سے کوئی بھی

عون چوہدری کے متعلق کسی نے کہا کہ اگر سارا پنجاب ایک حلقہ ہو تب بھی یہ بندہ پورے پنجاب سے اتنے ووٹ نہیں لے سکتا جتنے اس کے ایک حلقے سے دلوائے گئے۔

جو کچھ ہو چکا، وہ سب نے دیکھ بھی لیا اور پرکھ بھی لیا۔ پنجاب میں جو کچھ ہوا وہ بد دیانتی کی ایسی اعلی و عرفی لازوال مثال ہو گی جو تاریخِ پاکستان میں نام نہاد جیتنے والوں اور مقتدرہ کے لئے ایسا داغ ہو گی، جسے مٹانا تو دور کی بات دھونا ناممکن ہے۔

الیکشنز ارینج ہوتے رہے ہیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نتائج میں کھلم کھلا رد و بدل ڈنکے کی چوٹ پر ہو اور الیکشن کمیشن نے جو فارم اپلوڈ کیے ہیں، 45 اور 47، کوئی کسی سے میچ نہیں کرتا۔ لیکن ہٹ دھرمی ہے۔ دیکھتے ہیں ٹربیونلز اور عدلیہ سے کیا نکلتا ہے، یہ نہ ہو کہ سُوری صاحب کی طرح لوگ ساری مدت حکمِ امتناعی پر ہی نہ نکال جائیں۔

ڈیل سے بندہ باہر گیا، ڈیل سے ہی واپس لایا گیا، لیکن اس کے سارے خواب چکنا چور (چور کی ”چ“ پر پیش نہیں زبر ڈال لیں ) ہو گئے۔ خان صاحب تو کہہ رہے ہیں ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا، لیکن اصلاً مینڈیٹ کسی اور کا چوری ہوا ہے، جس کو چپ لگ گئی ہے۔ اسے پتا ہے کہ حکومت کس کی ہے، بظاہر چہرہ اس کی پارٹی کا ہے لیکن پسِ پردہ کوئی اور ہے۔

ہزارہ سے شکستِ فاش کھانے کے بعد ، لاہور کا جو حال احوال ہے، اگر منصفانہ تحقیق ہوئی تو پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ اور اگر یہ پلٹ گیا تو پلے ککھ نہیں رہنا۔

فارم 45 خود تو خراب ہوا سو ہوا، لیکن اس نے بہت سوں کی کافی مٹی پلید کی۔

ان الیکشنز میں پنجاب نے کھل کھلا کے ووٹ ڈالا، ووٹ کے انتقام نے ڈیلوں کے ڈھیلے نکال دیے۔ ان غیر متوقع نتائج نے سب کو بوکھلا کر رکھ دیا۔ بوکھلاہٹ میں مخصوص نشستیں بھی بندر بانٹ کر دی گئیں۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد صاحب نے اپنے کالم میں لکھا کہ یہ آرٹیکل ( 2 ) 51 کی خلاف ورزی ہے۔ راجہ صاحب (جمہوری جنرل باجوہ صاحب کی سفارش پر خان صاحب نے تقرری کی) کی بیوروکریٹک ٹیکنیکس بالکل نکمی اور بودی ہیں۔

اس الیکشن میں ووٹ اور ووٹر نے کیا خوب اودھم مچایا ہے۔

دائروں میں سفر کرتے کرتے ہم پھر واپس اسی مقام پر آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے دس گیارہ سال پہلے تبدیلی کا سفر شروع کیا تھا۔

سید تصور عباس، باکو - آذربائیجان
Latest posts by سید تصور عباس، باکو - آذربائیجان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments