اپنے لیے وقت نکالیے


میری تعیناتی رحیم یار خان مین برانچ ہوئی تو یہ کسی چیلنج سے کم نہ تھی جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی برانچ صادق بازار میں واقع تھی۔ جہاں شاہ عالمی لاہور کی طرح رش کا یہ عالم تھا کہ گاڑی تو دور کی بات ہے۔ پیدل پہنچنا بھی مشکل تھا۔ برانچ بزنس میں اضافہ بغیر پارکنگ بڑا مشکل کام ہوتا ہے لیکن میرا پورا بینکنگ کیریر اس طرح کے چیلنجز سے بھرا پڑا تھا۔ اسی لیے مجھے ”بینکنگ ٹائیگر“ اور گولڈن آ رم ”کہا جاتا تھا۔ ہمارے گروپ ہیڈ مشہور بینکار اور موجودہ صدر سمبا بنک لمیٹڈ شاہد ستار مجھے اپنا“ اسکڈ میزائل ”قرار دیتے تھے۔

چند ہی دنوں میں قدرت نے ایسے حالات پیدا کر دیے کہ میری دن رات کی محنت رنگ لانے لگی اور برانچ کی تاریخی ترقی ہونے لگی ملک کے مشہور ادارے یونی لیور نے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کی پالیسی کا اعلان کر دیا اور ریٹائرمنٹ لینے والوں کو دینے کے لیے اربوں روپے ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہو گئے۔ تمام ملازمین کے اکاؤنٹ پہلے ہی تنخواہ کے لیے ہمارے پاس موجود تھے۔ ہر ملازم کی رقم ان کے اکاؤنٹ میں جمع ہو جاتی اس طرح برانچ کے ڈپازٹ کو چار چاند لگ گئے دیگر بڑے ادارے کوکا کولا، اور احمد آئلز کے بھی غیر معمولی فنڈز آنے لگے غرض اللہ کی رحمت سے پورے بنک میں میری کارکردگی کا طوطی بولنے لگا۔

میں بغیر وقفہ صبح نماز کے وقت لے کر رات کے بارہ بجے تک کام کرتا تھا۔ ایک جنون کی کیفیت طاری تھی۔ میری یہ حالت دیکھ کر ایک دن میری برانچ کی ایک کسٹمر سروس افسر لڑکی نے کہا سر! میں آپ سے ایک ذاتی سوال کرنا چاہتی ہوں میں نے کہا ضرور کریں تو اس نے سوال کیا سر! میں جاننا چاہتی ہوں کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ زندگی بہت مختصر اور قیمتی ہے اور صرف ایک بار ملتی ہے۔ آپ اپنے آپ کو اور صرف اپنی ذات کو پورے دن میں کتنا وقت دیتے ہیں؟

عجیب سا سوال تھا۔ میں نے جواب دیا بیٹا یہ سب کچھ میں اپنے لیے ہی تو کر رہا ہوں اپنی مختصر زندگی کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتا اپنا پورا دن اپنے آپ کو ہی دیتا ہوں، تو اس نے کہا نہیں سر بالکل نہیں میں بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں آپ سب کچھ بنک افسران اور کسٹمرز، بیوی بچوں، دوستوں، بینک کے ساتھیوں کی خاطر کرتے ہیں۔ پورے دن کا وہ لمحہ اور کام بتائیں جو صرف اور صرف آپ اپنے اور اپنی ذات کے لیے کرتے ہوں؟ میں نے کہا میں نماز پڑھتا ہوں تو وہ بولی وہ تو اللہ کے لیے اور آخرت کے لیے ہوتی ہے۔

میں باوجود کوشش کے کوئی ایسا کام نہ بتا سکا جو میں صرف اپنی ذات اور اپنے آپ کے لیے کرتا ہوں۔ اس نے کہا سر! ملازمت، عزت، دولت، شہرت کچھ بھی آپ کی ذات کے لیے نہیں ہے۔ سر اپنی ذات کو وقت دیں ورنہ آپ کی روح آپ کے جسم سے پہلے ہی تھک کر ساتھ چھوڑ جائے گی کیونکہ انسان کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کی ذات میں پنہاں ہے۔ لوگ آپ کی نوکری، آپ کی جدوجہد، محنت اور آپ کی زندگی کی تلخیاں اور آپ کے گھر کے حالات نہیں جانتے۔ آپ کے دوست اور پیارے آپ کے اوپر نئی اور پرانی ذمہ داریوں کے سائز کو نہیں سمجھیں گے۔ آپ کا جیون ساتھی ہمیشہ آپ کی طرف سے محبت اور تعاون کا منتظر رہتا ہے اور وہ اس بات کو کبھی نہیں سمجھے گا کہ آپ کتنے دباؤ یا پریشانیوں سے گزر رہے ہیں۔ چاہے آپ اس سے کتنی ہی بات کریں اور سمجھائیں آخر میں ایک ہی بات رہ جاتی ہے۔ آپ کے علاوہ کوئی بھی آپ کے بارے میں محسوس نہیں کرتا ہے۔

کوئی بھی نہیں سمجھے گا کہ آپ پہ کیا گزر رہی ہے اور نہ ہی آپ کی کبھی تعریف کی جائے گی۔ یہ زندگی آپ کو صرف تھوڑے عرصے کے لیے ملی ہے تو پھر آپ کی ہی ہوئی ناں! پوری کائنات کے گرد بھوکا پیاسا اور مسلسل سفر کرنے سے انسان کو اتنی تھکن نہیں ہوتی جتنا اسے اپنی ذات کی تلاش کے سفر میں اٹھانا پڑتی ہے۔ کیونکہ یہ سفر قدموں کا نہیں، احساس کا ہوتا ہے۔ قدموں کا سفر صرف جسم کو تھکا دیتا ہے جب کہ احساس کا سفر آپ کی روح کو تھکا دیتا ہے۔

روح کی تھکان اپنے آپ کو وقت نہ دینے سے پیدا ہوتی ہے۔ مجھے اس کی بات میں وزن لگا وہ درست کہہ رہی تھی۔ مجھے فوراً اپنے دو مختلف دوستوں کی بات یاد آ گئی جن میں سے ایک شراب پیتا تھا۔ میں نے اسے منع کیا تو کہنے لگا یار یہ واحد کام ہے جو میں صرف اپنی ذات کے لیے کرتا ہوں میری ذات کو بھی اپنی خواہش پورا کرنے کا حق ہے پھر اسے جب موقعہ ملتا بیرون ملک چلا جاتا اور وہاں جاکر صرف شراب نوشی کرتا میں نے پوچھا یار!

یہ شراب نوشی ملک میں رہ کر بھی کر سکتے ہو ملک سے باہر کیوں؟ تو وہ جواب دیتا اپنے ملک میں اپنی مرضی سے پینا ذرا مشکل ہے۔ اپنی ذاتی خواہش کو ڈر ڈر کر پورا کرنا منافقت لگتی ہے۔ میرا اپنی ذات پر اتنا تو حق ہے کہ اپنی مرضی سے جو چاہے کر سکوں۔ پھر مجھے اپنے شہر وہ مرد قلندر یاد آیا جو کروڑ پتی ہونے کے باوجود سادگی کا پیکر تھا۔ اپنی عام زندگی میں بظاہر نہایت کرخت اور خشک مزاج اور ان پڑھ تھا۔ روپیہ پیسہ اس کے گھر کی لونڈی تھی۔ مگر کھانا اور روٹی زمین پر بیٹھ کر اچار کی ایک پھانک سے کھاتا تھا۔ ایک روز میرے پاس بنک آیا میں حج درخواستیں جمع کرر ہا تھا۔ کہنے لگا یار میں نے بہت کاروبار کیا بہت کچھ کمایا اور خرچ کیا میں چاہتا ہوں کہ کچھ اپنی ذات اور اپنی خواہش پر کچھ ایسا کروں جو میری روح کو سکون دے۔

میں نے کہا ضرور تو بولا شہر کے نیک نام تمام امام مسجد کی حج درخواستیں اپنی جانب سے دینا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا اس پر بہت رقم خرچ ہوگی تو بولا زندگی میں اپنی زندگی اور اپنی ذات کے لیے کر رہا ہوں رقم کی پرواہ نہ کرو۔ اس نے میرے ذریعے شہر کے تیس امام مسجد حضرات کو حج پر بھجوا دیا اور پھر یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہا وہ کہتا تھا۔ یہ واحد کام ہے جو میں صرف اپنی ذات کے لیے کرتا ہوں۔

کچھ دنوں بعد اس نے کئی ایکڑ بڑی قیمتی زمین خریدی اور اسے قبرستان کے لیے وقف کر دیا میں نے پوچھا تو کہنے لگا یار میں کچھ کام اپنی ذات کے لیے کرتا ہوں میرے جسم اور میری روح کا بھی مجھ پر کچھ حق ہے اور ذات اور روح کا حق یہ ہے کہ جو ٓاپ کا دل کرتا ہے۔ کر گزریں آپ نے کون سا روز روز دنیا میں آنا ہے؟ مانا کے اس زندگی کا کوئی بھروسا نہیں ہے لیکن جب تک یہ ہے۔ اس پر اختیار تو آپ کا ہی ہے اور کل حساب بھی آپ کو ہی دینا ہے تو خوشیاں بانٹیں درد بانٹیں اپنا وقت بانٹیں لیکن کسی کے ساتھ اپنی زندگی نہ بانٹیں۔ زندگی کو دوسروں کے حساب سے مت گزاریں لوگوں سے اس کی بے قدری مت کروائیں دنیا میں خوشیاں وہی بانٹ سکتا ہے جو اپنی ذات کو خوشی دے سکے اپنے آپ کو جاننا دراصل اپنے رب کو جاننا ہے۔

میرے سامنے عظمت کا ایک پہاڑ کھڑا تھا اور میں اس کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے بے پناہ خوشی کے آنسوؤں کو محسوس کر رہا تھا۔ اس کی اندر چھپی خوبصورتی اور اطمینان صاف جھلک رہا تھا۔ مجھے حضرت علامہ اقبالؒ کا یہ شعر یاد آیا۔

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

ہماری زندگی بڑی عجیب سی ہے۔ پہلے بات چیت کا، رونقوں سے محظوظ ہونے کا وقت نہ تھا جب وقت ملا تو رونقیں نہ جانے کہاں کھو گئیں۔ دل کی حسرتیں اور خواہشات دب کر رہ گئیں۔ ہر سو ایک بے چین سی چپ نے سماں باندھ لیا تھا۔ پیغام یہ ہے۔ ہمارے گھروں کے چہچہاتے، کھلکھلاتے وجود دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور آپ کی ذات سب سے اہم ہے۔ اپنے آپ سے محبت کا تقاضا ہے کہ اپنی صحت تندرستی کا خیال رکھیں دنیا کا سب سے بڑا عشق ”روٹی“ اور سب سے بڑی عیاشی ”تندرستی“ ہے کیونکہ زندگی سے صحت نفی ہو جائے تو سکون خود بخود نکل جاتا ہے اور یاد رکھیں کہ آپ ہیں تو سب کچھ ہے۔ اپنے آپ سے محبت کریں اپنے دل کی خواہشات کو لوگوں کے ڈر سے پورا کرنے سے مت روکیں۔

اپنی ذات اور اپنی خواہشات کے لیے وقت نکالیے یہ لمحات آپ کی ذات اور آپ کے لیے سب سے قیمتی ہیں۔ انھیں محسوس کیجئے۔ انھیں کھونے نہ دیجئے۔ اپنے قیمتی خوابوں اور خواہشات کی قدر کریں اور انہیں پورا ضرور کریں یاد رکھیں اگر یہ لمحات کھو گئے تو پھر تلاش نہ کر پاؤ گے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ جو اپنی ذات اور اپنے آپ سے مخلص نہیں وہ کسی کی ذات اور کسی شخص سے کیسے مخلص ہو سکتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments