اپُن کا کرانچی (3)


(کراچی کا ایک دل چسپ احوال پیش خدمت ہے۔ یہ نہ تو تحقیقی مقالہ ہے نہ کوئی سرکاری گزٹ۔ دیکھی، پڑھی اور سنی گئی باتوں پر لکھا ایک مضمون ہے۔ طویل اور معلوماتی۔ کراچی شہر کو سمجھنے میں اور اس پر مزید تحقیق کرنے میں اس سے یقیناً ’مدد ملے گی۔ ہمارے دیوان صاحب کراچی کے باسی ہیں۔ ہوم ڈپارٹمنٹ، مجسٹریسی، ڈسٹرکٹ انتظامیہ، کے ایم سی، جیل ایڈمنسٹریشن، ٹرانسپورٹ، محکمہ زراعت اور ریونیو۔ کراچی کے تقریباً ہر انتظامی محکمے سے منسلک رہے ہیں۔ و – مسعود)

٭٭٭         ٭٭٭

آغا خان دوم کی شادی اور قیام ڈیفنس کراچی میں اس ٹھیکری پر رہا جہاں ایک انگریزوں کی تعمیر کردہ ایک عمارت موجود ہے جس کو ہنی مون لاج کہا جاتا ہے۔ اسی اہم علاقے کو سرگوشیوں میں کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کا فیز تھری مانا جاتا ہے ۔ اسے کسی نقشے میں احتیاطاً اور مصلحتاً اس دھڑلے سے ظاہر نہیں کیا جاتا۔ جیسے فیز ایک سے آٹھ تک کا کونہ کونہ چپہ چپہ ان رہنما نقشوں میں مذکور ہے۔ ہز ہائی نیس سلطان محمد آغا خان سوئم سن 1877 میں اسی عمارت میں پیدا ہوئے۔ امام عالی مقام کا تحریک پاکستان میں بڑا حصہ ہے۔ وہ مسلم لیگ کے پہلے صدر تھے اور بڑی باکمال علم دوست شخصیت کے مالک تھے۔

کراچی کی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا ایک بڑا سمندر کے زیر آب تھا۔ گمان غالب ہے کہ جھرک سے ابراہیم حیدری اور پھر اس مقام تک یہ سب علاقہ سمندر برد تھا۔ اسمعیلیہ جماعت کے پیروکار یہاں حاضر امام کے درشن کے لیے کشتیوں کے ذریعے آتے ہوں گے۔ کوئی مستند تاریخ اس طرح سے دستیاب نہیں جو بزرگوں سے سنی اس بات کی تصدیق یا تردید کرے۔ کراچی کے غریب غربا یہاں پانی کی لہروں میں اپنے پاپ دھونے آ جاتے تھے۔

Honey moon Lodge

اس ساحل سے ذرا ہٹ کر ایک شرمیلی ٹھیکری پر واقع کور کمانڈر صاحب کے پرانے گھر کو تو سمندر وطن کی مٹی کو گواہ بنا کر باقاعدہ احتراماً سلام پیش کر کے قدم بوسی کیا کرتا تھا۔ لاہور والوں کی طرح کراچی کا سمندر گستاخ، بد لحاظ اور بے ادب نہ تھا کہ نو مئی کے دن اپنے ڈویژنل سپہ سالار کا گھر جلا دے، ان کے آنسو کے موتی پلا کر پالے ہوئے مور چرا کر بھاگ لے اور ان کی اپنی نوکری کا کریا کرم کردے۔ کراچی کے غریب غربا البتہ یہاں پانی کی لہروں میں اپنے پاپ دھونے آ جاتے تھے، ذرا دور چل کر پروفیسر انیتا غلام علی صاحبہ، ہمارے سسرال والوں کا کیو ہاؤس اور ارد شیر کاؤس جی کا 4۔ میری روڈ والا آستانہ پروقار تھا جہاں جناح صاحب اکثر شام کو گلے کی خشکی مٹانے پشتینی رئیس رستم فقیر کاؤس جی کے گھر چلے آتے۔ انہیں نشستوں پر براجمان ہو کر بعد میں بڑے بیٹے ارد شیر کاؤس جی کے پاس اکبر بگٹی، الہی بخش سومرو، کریم لودھی، انور مقصود حمیدی، جسٹس دراب پٹیل، فخرالدین جی ابراہیم بھی بندگی آب و ہوا کرتے تھے۔

کور کمانڈر صاحب کے پرانے سرکاری گھر کے ساتھ ہی آئی جی ہاؤس ہے۔ ضرورت نہیں مگر چاہیں تو عسکری مکین بھی جلوے ادھر کے دیکھ سکتے ہیں۔ جب جنرل احسن حیات کور کمانڈر تھے جون 2004 میں تو یہاں ان پر موڑ کاٹتے میں خوف ناک حملہ ہوا تب سے وہ ایک زیادہ محفوظ علاقے میں شفٹ ہو گئے۔ وقت اگر آگے پیچھے شرابیوں کی طرح لڑکھڑا کر اپنا منھ سپاہی اللہ دتا کو سنگھائے بغیر چلتا تو لاہور والے کہہ سکتے تھے کہ ہمارے چند خارجی عورتوں مردوں نے تو صرف کور کمانڈر کا گھر جلایا تھا تم کراچی والے تو جھیمان بن محمد بن سیف العتیبی [جس نے سنہ 1979 میں خانہ کعبہ پر حملے کی سربراہی کی تھی] کے گروہ کے وہ گمراہ افراد ہو جو معصوم کور کمانڈر کی جان لینے پر تل گئے تھے۔

اس وقت کور کمانڈر صاحب وہاں سے ترک سکونت کرچکے تھے مگر طاقت کا وہ تاج محل اب بھی موجود ہے۔ کہنے کو پڑوسی کا مقام بھلے ماں جائے جیسا ہو مگر ان بے مہر لوگوں نے پڑوسی ہونے کا بھی بھرم نہ رکھا۔ وہیں پڑوس کے آئی جی ہاؤس سے اور نیند کے خمار میں ڈوبے آئی جی کو یہیں سے اغوا کر کے لے گئے تھے۔ شنید ہے کہ آئی جی صاحب نے کہا بھی تھا کہ یارو مجھے معاف کرو۔ یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانند جام مے یا تھوڑی دور ساتھ چلو۔ یہ صفدر بھٹی کو گرفتار کرنے کا بھلا کون سا وقت ہے۔ سندھی محاورے میں وہ تو گھر کا ککڑ ہے۔ جب دل چاہے ذبح کر لیں گے مگر فرشتے کسی کو لینے آ جائیں تو کب کسی کی سنتے ہیں۔ ڈالے میں ایم کیو ایم کا سیکٹر انچارج سمجھ کر آواری ہوٹل لے گئے۔

جان لیں کہ یہ سارا علاقہ باتھ آئی لینڈ کہلاتا ہے۔ مشرف دور میں جب سید کمال شاہ آئی جی تھے تو ایک انتہا پسند گروپ والے انہیں ٹپکانا چاہتے تھے۔ تین ہفتے مسلسل ان کی رفاقت میں جمعے کی نماز پڑھی تو یقین آ گیا کہ ارے یہ تو اپنے ہی فرقے کے ہیں انہیں کیا مارنا یہ تو ہات باندھ کر نماز پڑھتا ہے۔ مسجد طیبہ سے آگے بڑھیں۔ ڈھلان طے کریں تو پنجاب ہاؤس کے پیچھے پی آئی ڈی سی اور مرکزی حکومت کے وہ فلیٹ ہیں جن میں ایوب خان کے دور میں دار الحکومت منتقل ہونے سے قبل ان میں سے ایک سرکاری رہائش گاہ میں بطور پرنسپل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب کا بسیرا تھا۔

جناح صاحب کے اجداد پہلے اسمعیلی تھے۔ 1844 میں جب آغا خان ثانی ہز ہائی نس آغا علی شاہ ممبئی منتقل ہوئے تو جماعت میں بارہ افراد کے ایک گروپ نے دسوند (tithe)، جو جماعت کا ہر ممبر لازمی جماعت کے فنڈ میں اپنی آمدنی سے دان کرتا ہے، کی تقسیم پر جھگڑا کیا۔ ان بارہ افراد کو ”بارہ۔ بھائی۔ کی۔ کھیتی“ کہا جاتا ہے۔ اس گروپ کے سرغنہ تاجر حبیب ابراہیم تھے۔ گجراتی میمنوں میں پارٹنر شپ یا کاروباری شراکت داری کو ناپسند کرتے ہیں۔ اسے رد کرتے وقت یہی اصطلاح اختلاف ”بارہ۔ بھائی۔ کی۔ کھیتی“ استعمال کی جاتی ہے۔ ان بارہ میں سے چار افراد کو جماعت سے نکال دیا گیا اور یہ اپنے پرانے مذہب اثنا عشری کی جانب لوٹ گئے۔ بعد میں انہیں معافی مل گئی تھی مگر کچھ برس کے اندر ہی انہیں ممبئی میں آغا خان مخالف گروہوں کو شہ دینے کے شبے میں مستقلاً جماعت سے خارج کر دیا گیا۔ اس کی سند نہیں کیوں کہ ان معاملات کی دستاویزات انگریز کے پاس یا تو یقیناً ہوں گی یا ساجن مہر علی کیس میں جج سر اریسکن پیری کی عدالت کی کارروائی میں موجود ہوں گی۔ ان کارروائیوں نے طول پکڑا تو چند افراد کو جماعت سے خارج کر دیا گیا۔ جناح صاحب اور حبیب بنک والی فیملی بھی ان میں شامل تھی۔

ایک عرصے تک کھارادر کی گلیوں میں اس بات پر چہ مگوئیاں ہوتی رہیں کہ حبیب بینک چونکہ اسمعیلی جماعت سے علیحدگی کے بعد ملنے والی رقم سے بنا تھا لہذا اسی لیے پرویز مشرف کی مدد سے اسے واپس لے لیا گیا۔ اس میں دو اور بھی دل چسپ پہلو ہیں مگر اتنے سچ مفت میں کون بتاتا ہے۔ نیک تاجر اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ دھندے میں جھوٹ بولنا بہت بری بات ہے مگر سچ بولنے میں نقصان بہت ہوتا ہے۔

ہم انگریزوں کے سندھ پر حملے اور کراچی پر قبضے کی بات کر رہے تھے۔ یاد ہے نا رنجیت سنگھ کی بیماری کی خبریں کئی دنوں سے گردش کر رہی تھیں۔ طرح طرح کی پرویز مشرف والی بیماریوں میں مبتلا، کثرت مے نوشی سے جگر تو پہلے ہی ریزہ ریزہ ہو چلا تھا۔ ہم سے صحیح وقت پر کرونا کے ماسک دستانوں اور بروقت گیس اور پٹرول کی خریداری کا بندوبست نہیں ہوتا۔ اس دور کے قابل اور دور بین انگریز نے بھانپ لیا کہ برگ انجیر Fig-Leaf جیسا جو ایک خوف سندھ کے ٹالپر حکمرانوں پر مہاراجہ رنجیت سنگھ کی جانب سے طاری ہے وہ اس کی موت سے جاتا رہے گا۔ سندھی اصطلاح کے حساب سے یہ چھتے (بے مہار و بے قابو) ہوجائیں گے۔ یوں بھی افغانستان کے حالات نرم گرم چل رہے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ کوئی نیا محمود غزنوی سندھ کے راستے ٹالپر حکمرانوں کی مدد سے ہندوستان میں ان کی حکومت کے لیے خطرہ پیدا کردے۔ عین اس وقت جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی چار ہندو بیگمات اور سات عدد داشتائیں بیوٹی پارلر میں اس کی وفات حسرت آیات کے موقع پر جل مرنے کے لیے ستی کی تیاریاں کر رہی تھیں (ان کی مسلمان بیگمات اور داشتائیں بھی تھیں) انگریزوں نے اپنے جنگی بحری جہاز HMS Wellesley کو منوڑہ کے جزیرے پر بھیج کر بغیر کسی کشت و خون کے کراچی پر اس کی موت سے چار ماہ پہلے یکم فروری سنہ 1839 کو قبضہ کر لیا۔

karachi 1900s

اس جہاز کے کمانڈر Frederick Maitland تھے جو بعد میں ایڈمرل بنے۔ یہی وہ افسر تھے جنہوں نے نپولین کو حالت حراست میں سینٹ ہلینا پہنچایا تھا۔ قلعے دار محافظ منوڑہ کا ایک کچھی واصل بچو تھا۔ اس نے نہ اس طرح کا کوئی جہاز دیکھا تھا نہ وہ انگریز کی طاقت کا شعور رکھتا تھا۔ ڈٹ گیا۔ انگریزوں نے جب جہاز پر سے توپ داغی تو اس کے اوسان خطا ہو گئے۔ قلعے کا ایک حصہ ریزہ ریزہ ہو چکا تھا۔ بھاگ کر گیا بیگم کا سفید دوپٹہ لہرایا۔ امن قائم ہوا تو معلوم ہوا کہ قلعے میں وہ اس کی نسبتاً جواں سال بیوی اور ایک بیٹا، پرانی توپ دو پرانی بندوقیں جو کئی برسوں سے ناکارہ پڑی ہیں، رہتے ہیں۔ کوئی گولہ بارود بھی نہیں۔ واصل بچو کو دیگر ہم وطنوں کی طرح توپ چلانا بھی نہیں آتی تھی۔ چار سال قبل انگریزوں نے جھرک ٹھٹھہ پر مقامی اسمعیلیوں اور ہندو تاجروں کی اعانت سے اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔

سندھ کے ٹالپر حکمرانوں نے تین سالہ جنگ میں افغانوں کے خلاف انگریزوں کا ساتھ دیا مگر انگریز ریزیڈنٹ میجر آؤٹ ریم نے اپنی حکومت کو رپورٹ دی کہ در پردہ یہ امیر افغانیوں کے حامی تھے۔ جنگ میں شکست اور ہزیمت اٹھانے کے نتیجے میں جب لارڈ آک لینڈ کو لارڈ ایلن برو کی جگہ کمپنی نے گورنر جنرل مقرر کیا تو اس نے اسی حوالے سے سندھ میں چارلس نیپیئر کو تعینات کر دیا گیا جو سندھ کیا پورے پاکستان کا آخری قابل، خود مختار اور طاقتور حکمران تھا۔

اپنا نام نواب بادشاہ سر چارلس نیپیئر فرماں روا سندھ لکھتا تھا۔ اس کے زمانے میں وفادار کو خدمت کے عوض سپاس نامہ اور ڈپٹی کمشنر کے دربار ہال میں بیٹھنے کو کرسی ملتی تھی۔ اس کے پاس محسن نقوی جیسے سول اور ملٹری ہر طرح کے اختیارات تھے سوائے پی سی بی کی سربراہی کے۔

Charles James Napier 1849

جو سرکار کے قانون سے کھلواڑ کرتا اسے تمغۂ امتیاز کی مانند ایک خاص میعاد تک ذلت نامہ لٹکانا پڑتا تھا جس پر اس کی ذلت کی میعاد درج ہوتی۔ خلاف ورزی کرتا تو میعاد ذلت کا آغاز وہیں سے ہوتا جہاں سے آئی ایم ایف کے قرض کی شرائط کا ہوتا ہے۔

مشہور بنگالی تاریخ دان رمیش چندرا مجمدار کا خیال ہے کہ انگریزوں کی سندھ میں باقاعدہ فوج کشی کے تحت ایک بھرپور عملداری کا قیام ایک منصوبہ بندی اور امیج بلڈنگ کے طور پر ہوئی۔ اس کا مقصد اٖفغان جنگ میں شکست کا داغ دھونا مقصود تھا۔ سندھ ان کے لیے ایک نرم ہدف (Soft Target) تھا۔ بعض مصنفین کا اصرار ہے کہ صوبہ سندھ صلح جو لوگوں قلندروں کی بارگاہ میں مست و مست مدام، عشق دا جام پی کر دھمال ڈالنے والے دلبروں کی سرزمین ہے۔ ان معصومین نے باہر سے آن والے آخری جنگجو محمد بن قاسم کے بعد گیارہ سو ایک سال سے کبھی میدان جنگ کا منھ بھی نہ دیکھا تھا۔ کلہوڑوں اور ٹالپر خاندان کی جنگ تو خاندان کی بہو بیٹیوں کی نوک جھونک تھی۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سندھ پر 1740 میں نادر شاہ درانی جن کے قبیلے سے طالبان کے بانی سربراہ ملا عمر کا بھی تعلق تھا اس نے بھی حملہ کیا تھا اور کلہوڑہ خاندان کے دور کا سندھ اصل میں کابل کی ایک کالونی تھا۔ سندھ میں درانی اسی دور سے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سب سے نام چین سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی ہیں جن کے والد آغا صدر الدین درانی بھی بھٹو صاحب کے دور میں اسی اسمبلی کے اسپیکر تھے۔

R C Majumdar

کابل کا یہ حاکمانہ تسلط انگریزوں کے ریڈار پر تھا۔ اہل ہند افغانستان کو ہمیشہ سے ہندوستان کا حصہ مانتے تھے۔ قندھار ان کی سیاسی لغت میں اصل میں گندھار تھا۔ وہ قبل از طالبان اسے تہذیب کا ایک جانفزا مرکز مانتے تھے۔ قطع نظر اس کے کہ کون انہیں کیا جانتا مانتا ہے طالبان کے کریڈیٹ پر یہ بات جاتی ہے انہوں نے اس تاریخی غلط فہمی کا بھرپور ازالہ کر دیا۔ مودی بھکت اور سنگھ پریوار جس طرح بھارت کوایک قومی ریاست منوانے کے در پے ہیں وہ انگریز کی آمد اور 1857 کی جنگ آزادی سے قبل کسی طور Nation State نہیں تھا۔

آئیں سندھ کا رخ کریں ورنہ مباحثہ کہیں اور گامزن ہو جائے گا۔

رنجیت سنگھ کی وجہ سے جس نے شاہ شجاع کی تخت کابل پر واپسی میں اعانت اس شرط پر کی تھی کہ وہ اس کا ماتحت مانا جائے گا۔ انگریز اس سے نالاں تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ایک مرتبہ رنجیت سنگھ کا خوف افغانوں کے دل سے جاتا رہے گا۔ ان کا ہندوستان میں پھیلاؤ وہی رنگ اختیار کرے گا جو غوری حکمرانوں کے دور سے شہنشاہ بابر تک جاری رہ چکا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ شاہ شجاع کی تخت پر واپسی کی اعانت کے جو پچیس لاکھ روپے ادا کیے گئے وہ سندھ کے امیروں سے زبردستی ہتھیا لیے گئے تھے جنہیں اس سہ فریقی معاہدے میں ان کی رضا کے خلاف شامل ہونا پڑا تھا۔

سندھ میں چارلس نیپیئر نے تعیناتی کے فوراً بعد حیدرآباد کے انگریز ریزیڈنٹ James Outram میجر جیمز آؤٹ ریم کے لگائے ہوئے الزامات کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ اس نے ان ٹالپر امیروں پر الزام لگایا کہ وہ غدار ہیں۔ اس نے ان امیروں کو فوری طور پر حکم دیا کہ وہ تین شرائط پر فوری طور پر عمل کریں۔ سکہ اب ان کے نام کی بجائے کمپنی سرکار کے نام سے جاری ہوا کرے گا۔ دریائے سندھ کے راستے جو اسٹیمر سامان لے کر آئیں گے جائیں گے انہیں مفت کوئلہ فراہم کرنا ان امیروں کی ذمہ دار ہوگی۔ کراچی، ٹھٹھہ، سکھر، بھکر، روہڑی اور ان سے ملحقہ علاقے اب کمپنی بہادر کی عملداری میں ہوں گے۔ اس سے سندھ کے امیروں کا کوئی تعلق نہ ہو گا۔ امیروں نے دل پر پتھر رکھ کر یہ سب احکامات مان لیے مگر مسئلہ اس وقت گمبھیر ہو گیا جب اس نے خیر پور کے امیر رستم خان کے نامزد ولی عہد میر محمد خان کی جگہ ان کے بھائی رستم خان کو میر آف خیرپور بنانے کا حکم دیا۔ اس پر تمام میر صاحبان کو حیدرآباد جو دار الحکومت تھا پہنچ کر نئے معاہدے پر دستخط کرنے کو کہا گیا۔ امیر رستم خان میر آٖف خیرپور نے عذر خواہی کی اور حیدرآباد میں موجود ہوتے ہوئے بھی اپنا نمائندہ دستخط کے لیے بھیجا مگر میجر آؤٹ ریم نے اس حرکت کو حکم عدولی مانا۔ جب چارلس نیپیئر کو اس کی اطلاع ملی تو اسے شدید اشتعال آیا کہ ایک تو میری آمد کے باوجود وہ حیدرآباد کیوں گئے دوسرے میرے حکم پر دستخط کرنے سے کیوں گریز کیا۔ آؤٹ ریم کی مرضی نہ تھی کہ چارلس نیپیئر خیرپور سے حیدرآباد فوج لے کر آتا۔ وہ ٹالپروں کی فوج میں بلوچ سپاہیوں کے باغیانہ موڈ کو بھانپ گیا تھا۔ جب حیدرآباد یہ اطلاع پہنچی کہ انگریز فوج کشی کے نیت سے نکل پڑے ہیں تو سپاہیوں نے قلعے میں واقع ریزیڈنٹ آؤٹ ریم کے دفتر پر حملہ کر دیا۔ وہ بمشکل جان بچا کر بھاگا۔

یہ واقعہ وہ آخری تنکا تھا جس سے اونٹ کی کمر ٹوٹ گئی

 17 فروری 1843 کے دن سندھ کے ایک بہت اعلی مرتبت شاعر مخدوم طالب المولی کے علاقے ہالا کے پاس میانی کے جنگل میں جنگ کا میدان سجا۔ سندھی فوج کا سربراہ ایک حبشی (جنہیں سندھ میں مکرانی کہا جاتا ہے اور جو سب سے زیادہ لیاری میں آباد ہیں ) سپہ سالار ہوش محمد شیدی نے سندھ کی محبت میں جان نچھاور کی۔ آپ قوم پرستوں کی تقاریر میں جو ایک مشہور نعرہ ”سر ڈیسوں، سندھ نہ ڈیسوں“ سنتے ہیں یہ ان کی ہی War-Cry تھی۔

سندھ پر قبضے کے فوراً بعد نیپیئر نے حیدرآباد پکا قلعے میں منعقد اپنے دربار میں کئی وفود کو شرف باریابی و اطاعت بخشا۔ وہ ٹالپر خاندان کی شرافت اور امیر شیر محمد ٹالپر کی جرات مندی کا دل سے معترف تھا۔ جب وہ بغرض حلف وفاداری اٹھانے آتے تو انہیں ان کی ذاتی تلوار اس اعتراف اور حلف کے ساتھ لوٹا دی جاتی کہ ان کی جرات کا سرکار انگلشیہ کھلے دل سے نہ صرف اعتراف کرتی ہے بلکہ وہ ان کی اطاعت کا بھرم رکھنے کے لیے اور ان کے وقار کو دوبارہ بحال کرنے کے لیے ان کے ذاتی ہتھیار لوٹا بھی رہی ہے۔ ایسا ہی ایک وفد جس میں مقامی طور پر کئی سردار شامل تھے

حیدرآباد میں فتح کے بعد اطاعت و سلام کی غرض سے حاضر ہوا۔

ان سب کے لیے حیرت کا باعث دیوار پر آویزاں ملکہ وکٹوریہ کی تصویر تھی۔ وفد میں شامل چند ارکان کا مکالمہ کچھ یوں ہوا کہ یہ نیک دل بی بی کون ہے؟ جواب ملا کہ یہ ہماری ملکہ ہر مجیسٹی رانی وکٹوریہ ہے۔ ایک بلوچ امیر کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھا کہ کوئی عورت بھی ٹھیک سے راج پاٹ سنبھال سکتی ہے۔ وہ تو نیپیئر کی طاقت اور حکمت عملی سے ہی مرعوب تھے۔ فرمانے لگے کہ جنگ میں تو آپ ہی ہم پر بھاری پڑ گئے۔ ہمارے لیے تو آپ بادشاہ ہو۔ دوسرے سادہ لوح امیر کا سوال تھا کہ ملکہ ء عالیہ کا راج سنگھاسن پکا قلعہ حیدرآباد سے کتنا دور ہے کہ آپ اس کا اس قدر احترام کرتے ہو؟ جواب ملا وہ تو مہینوں کی مسافت پر ہے۔ سوال ہوا کیا آپ اس کے براہ راست نائب ہو؟ جواب ملا کلکتہ میں ہمارے گورنر جنرل ان کے ہندوستان میں نائب مانے جاتے ہیں۔ اس پر ایک حیرت زدہ امیر نے کہا کیا آپ میرا سر قلم کر سکتے ہو؟ نیپیئر نے جس کا قد درمیانہ، بدن اکہرا اور بلا کا پھرتیلا اور عمر 61 برس تھی۔ قابلیت، قوت فیصلہ، چٹانوں جیسے عزم اور جرات کا کیا بیان ہو۔ ایسے مسکراتے ہوئے بلند حؤصلہ جنرل اب کہاں۔ اس سوال کو سن کر مسکرایا۔ فرمایا اس کا جواب آپ کو اس وقت ملے گا جب آپ کمپنی بہادر کی حکم عدولی کریں گے۔ یہ سننا تھا کہ سوال کرنے والے مردم شناس سردار نے کہا ”سائیں پھر تو ہم آپ کے غلام بے دام ہیں“ ۔

دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ سندھ پر قبضے کے بعد ایک چھوٹے بلوچ سردار کے دو تابعدار کارندوں نے ایک پارسی سیٹھ کو ہائی وے سے اغوا کر کے قتل کر دیا اور اس کا مال بھی لوٹ کر لے گئے۔ یہ حیدرآباد میں انگریزوں کی انتظامیہ کے ابتدائی ایام تھے۔ نیپیئر کے حکم پر ان کا کھوج لگا کر گرفتار کیا تو علم ہوا کہ یہ حرکت انہوں نے اپنے سردار کی شہ پر کی ہے اور لوٹا ہوئے مال کا بڑا حصہ سردار کو بطور معاوضہ سر پرستی بھی دیا ہے۔ پیغام بھجوایا گیا کہ مال سمیت حاضر ہو اور سچائی بیان کرے۔ سردار چونکہ سر چارلس نیپیئر کی شہرت سے واقف تھا۔ اس نے اعتراف جرم کیا تو اس کو دیگر دونوں ملزمان سمیت قلعے کے باہر چوک میں نشان عبرت کے طور پر پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

Pucca Qilla Chowk
اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments