پاکستانی صحافت کا المیہ!


3 مئی کو دنیا بھر میں آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ کئی برس سے میرا معمول ہے کہ اس دن کے حوالے سے صحافیوں کو درپیش مشکلات و مصائب اور صحافت پر عائد پابندیوں کا نوحہ لکھتی ہوں۔ اس مرتبہ 3 مئی کو دل ہی نہیں چاہا کہ آزادی صحافت پر کچھ لکھوں، سو پاکستانی ڈرامہ پر ایک کالم لکھ ڈالا۔ محسوس ہوتا ہے کہ کئی برس سے پاکستانی صحافت بھی ایک ڈرامہ بن کر رہ گئی ہے۔ اگرچہ سنجیدہ ڈرامہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، جس میں کئی طرح کے پیغام اور سبق پوشیدہ ہوتے ہیں۔

پاکستانی صحافت کا المیہ ہے کہ یہ بے مقصد اور بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ جب میں یہ باتیں کہہ رہی ہوں تو میرے مخاطب سنجیدہ اور غیر جانبدار صحافتی حلقے نہیں ہیں۔ یقیناً ایسے صحافیوں کا ایک حلقہ موجود ہے، جو نہایت ایمانداری کے ساتھ اپنے صحافتی فرائض کی ادائیگی کرتا ہے۔ میں ان نام نہاد صحافیوں کی بات کر رہی ہوں، جنہوں نے صحافت کو ذاتی مفاد سمیٹنے کا ذریعہ اور حربہ بنا رکھا ہے۔ ایسے صحافیوں میں کئی کئی ملین ماہانہ تنخواہ لینے والے بھی شامل ہیں اور چند ہزار ماہانہ کے عوض کام کرنے والے بھی۔ جس کا جہاں تک ہاتھ پڑتا ہے، وہ مفاد سمیٹ لیتا ہے۔ اس صورتحال کا نتیجہ ہے کہ ہماری صحافت اپنی ساکھ، وقار اور اعتبار کھو چکی ہے۔

جہاں تک آزادی اظہار رائے کا تعلق ہے تو دستور پاکستان کا آرٹیکل 19 ہمیں یہ آزادی فراہم کرتا ہے۔ تسلیم کہ اس آرٹیکل کی موجودگی کے باوجود پاکستان میں صحافیوں کو نہایت مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔ انہیں ہراسانی، تشدد اور دباؤ کا سامنا رہتا ہے۔ بہت سے صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اپنی جان سے ہاتھ تک دھو بیٹھتے ہیں۔ ان حقائق سے قطع نظر، سچ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اظہار رائے کی اچھی بھلی آزادی موجود ہے۔

جس صحافی اور اینکر کے منہ میں جو آتا ہے، وہ بغیر کسی رکاوٹ کے کہہ ڈالتا ہے۔ عمومی طور پر پاکستان میں صحافیوں کو غلط بیانی پر جواب دہی اور قانونی گرفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اگرچہ ہمارے یہاں ہتک عزت کا قانون موجود ہے۔ لیکن کیا کبھی آپ نے سنا ہے کہ کسی صحافی یا اینکر کو جھوٹ بولنے، کسی کی عزت اچھالنے یا الزام تراشی کرنے پر کسی عدالت نے سزا دی ہو؟ یہی حال پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یعنی پیمرا اور پریس کونسل آف پاکستان کا ہے۔

معمولی سزاؤں اور جرمانے کے علاوہ صحافی ہر طرح کی جواب دہی سے آزاد گھومتے رہتے ہیں۔ میں کئی برس تک پیمرا کی کونسل آف کمپلیٹس کی ممبر رہی ہوں۔ صورتحال یہ تھی (اور اب بھی ہے ) کہ جب کسی صحافی، اینکر یا چینل کو کسی کی پگڑی اچھالنے اور جھوٹے الزامات لگانے پر قانون کے مطابق سزا سنائی جاتی، تو وہ عدالت کا رخ کرتا، اور عدالتی اسٹے حاصل کر نے کے بعد دندناتا پھرتا۔ ماضی میں یہ صورتحال بھی دیکھی گئی کہ زیر سماعت کیسوں کے دوران کچھ جج صاحبان عدالت میں، ، ملزم یا جواب دہندہ (respondant) ٹی وی اینکر کی تعریف و توصیف کر کے اس کی حوصلہ افزائی اور پیمرا افسران کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتے رہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ہمارے ہاں صحافیوں کو جتنی پابندیوں کا سامنا ہے، اس سے کہیں زیادہ آزادی، سہولت اور طاقت حاصل ہے۔ جواب دہی اور گرفت کے نظام کی عدم موجود گی میں اس صحافتی آزادی کا منفی استعمال ہوتا ہے۔ دوسری طرف ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ پاکستان سے باہر پاکستانی اینکر یا چینل نے کسی پر جھوٹا الزام لگایا تو ہتک عزت کے دعوے کے باعث خاک چاٹنے پر مجبور ہو گیا۔ اسے کہتے ہیں قانون کی طاقت۔

چند دن پہلے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی اس صورتحال کی جانب اشارہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 واضح طور پر آزادی رائے اور اظہار رائے کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ جنرل صاحب کی اس بات سے کامل اتفاق کرنا پڑتا ہے کہ ”جو لوگ آئین میں درج آزادی اظہار پر عائد واضح پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہ دوسروں پر انگلیاں نہیں اٹھا سکتے۔“ ۔ اب یہی دیکھیے کہ ہمارے ہاں آئین کے آرٹیکل 19 کے تناظر میں آزادی اظہار رائے کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے۔

یہ آرٹیکل پاکستانی شہریوں پر یہ پابندی بھی عائد کرتا ہے کہ بات کرتے وقت وہ اسلام کی عظمت یا پاکستان یا اس کے کسی حصہ کی سالمیت یا دفاع، غیر ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات، امن وا مان، تہذیب اخلاق کو پیش نظر رکھیں۔ آرٹیکل یہ بھی کہتا ہے کہ تمام شہری توہین عدالت، کسی جرم کے ارتکاب یا اس کی ترغیب سے متعلق قانون کے ذریعے عائد کردہ مناسب پابندیوں کے تابع رہیں۔ لیکن، آئین کی عائد کردہ ان پابندیوں کا حوالہ آپ کم ہی سنیں گے۔ دراصل ہمارے ہاں آئین کے آرٹیکل انیس کے نام پر شتر بے مہار آزادی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ایک حلقہ چاہتا ہے کہ وہ منہ بھر بھر کے دفاعی اداروں کو گالیاں دے۔ دوست ممالک پر الزامات لگائے۔ مخالفین کے گریبان چاک کرے، لیکن اسے کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ آزادی صحافت کے عالمی دن پر پاکستانی صحافت کو ذمہ دارانہ صحافت کا درس دیا جائے۔ اس وقت آزاد صحافت سے کہیں زیادہ ہمیں ذمہ دار، حقائق پر مبنی، غیر جانبدار اور بردبار صحافت کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں جس طرح صحافتی اقدار کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ اس کی مثال دیگر ممالک میں کم کم ہی ملتی ہے۔ مزید آزادی کا مطالبہ کرنے سے پہلے نہایت ضروری ہے کہ صحافی برادری، صحافتی اصولوں اور اخلاقیات کی پابندی کو یقینی بنائے۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میڈیا کو ہر بات کہنے کی آزادی ہو، اور یہ ہر قسم کی صحافتی اخلاقیات کی پابندی سے بھی آزاد ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری صحافتی برادری کے بیشتر معاملات داخلی احتساب اور اصلاح احوال کے متقاضی ہیں۔ اس ضمن میں ایک چھوٹی سے مثال دیتی ہوں۔ کچھ عرصہ سے ہمارے رپورٹروں اور صحافیوں کو اعلیٰ تعلیم کا شوق چرایا ہے۔ چند استثنیات سے قطع نظر، بیشتر صحافی ایسے ہیں جو کسی میرٹ اور قواعد کی پابندی کے بغیر ایم۔

فل اور پی۔ ایچ۔ ڈی پروگراموں میں داخلہ لینا چاہتے ہیں۔ داخلہ لینے کے بعد ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کلاسوں میں حاضر ہوئے بغیر، اسائنمنٹ جمع کروائے بغیر، اور بسا اوقات فیس ادا کیے بغیر، انہیں ڈگری عطا کر دی جائے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اساتذہ کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ منفی خبریں چھپوائی جاتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جامعات کے بہت سے اساتذہ او ر وائس چانسلر صاحبان اس مقصد کے لئے سہولت کاری کرتے ہیں۔

یہ شعبہ تعلیم میں صحافتی مداخلت کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ہمارے ہاں پریس کلبوں سمیت دیگر صحافتی تنظیمیں موجود ہیں۔ یہ تنظیمیں گلا پھاڑ پھاڑ کر آزادی صحافت کا مطالبہ کرتی ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی اس صورتحال کا نوٹس لیا؟ کسی رپورٹر یا صحافی سے جواب دہی کی؟ رپورٹروں کی اس بلیک میلنگ کو روکنے کی کاوش کی ہے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو آزادی صحافت کے عالمی دن کا تقاضا ہے کہ پاکستانی صحافت نہایت سنجیدگی سے اپنے کردار کا تنقیدی جائزہ لے۔ اپنے گریبان میں جھانکے۔ اپنی اصلاح کا اہتمام کرے۔ لازم ہے کہ صحافت خود کو صحافتی اخلاقیات کا پابند کرے۔ اپنے آپ کو ذاتی مفادات کے چلن سے آزاد کرے۔ اس کے بعد مزید آزادی کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ قابل جواز ہو گا۔ پاکستانی عوام کی نگاہ میں صحافت اور صحافیوں کی ساکھ تباہ ہو چکی ہے۔ اگر ہمیں صحافت کا اعتبار اور وقار بحال کرنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ شعبہ صحافت اپنا قبلہ درست کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments