پانچ ہزار سال قبل


کرینہ راؤ جلد از جلد ماتا کے پاس پہنچنا چاہتی تھی۔ ماتا، جو درگا دیوی کا اوتار تھی، وہ کرینہ کو پاس بلا کر ایک پیغام دینا چاہتی تھی۔ جب کرینہ کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے فوراً مختصر ضروری سامانِ سفر باندھا، اپنے قبیلے کے لوگوں کو اس کی واپسی کا انتظار کرنے کے لئے کہا، اور سفر شروع کر دیا۔ خاردار راستے، دہکتے ہوئے پتھر، وہ آہستہ آہستہ چلتی رہی، قدم بہ قدم آگے بڑھتی رہی، جسم چھلنی ہو چکا تھا لیکن اب تکلیف کی شدت کم ہوتی جا رہی تھی۔ پھر وہ اس جگہ پہنچ گئی جہاں کچھ سکون تھا، نہ آگ تھی نہ ہی چبھتے ہوئے کانٹے۔

” آخر یہ کیا پیغام ہو گا جس کے لئے مجھے یہ کٹھن سفر کرنا پڑھ رہا ہے؟“

اس نے کچھ دیر سانس لیا، اسے منزل تک پہنچنے کے لئے راستے کا تعین کرنا تھا۔ اس نے ان راستوں کے بارے میں کچھ تحقیق کی ہوئی تھی۔ وہ کسی نسبتاً آسان راستے کی تلاش میں تھی۔ ایک راستہ صحرا میں سے گزرتا تھا، دوسرا سنگلاخ چٹانوں سے بھرا پڑا تھا۔ ایک اور راستہ بہت سرد اور تیز ہواؤں کی زد میں تھا۔ وہ صحرا کی تپش اور یخ بستہ تھپیڑوں سے بچنے کے لئے چٹانوں کی طرف چل پڑی۔ ہر چٹان کو عبور کرنا ایک چیلنج تھا۔ ایک غلط قدم اس کا توازن خراب کر سکتا تھا اور اس کو گرا سکتا تھا۔

وہ انتہائی احتیاط سے ہر قدم لیتی۔ ہر چٹان کی چوٹی پہ پہنچ کر اسے دور اپنی منزل نظر آتی تو اس کی تھکن کم ہو جاتی، اس کے حوصلے بلند ہو جاتے۔ منزل اب آہستہ آہستہ قریب آتی جا رہی تھی۔ دور سے منزل کی سادگی کو دیکھ کر اسے عجب سکون مل رہا تھا۔ مگر اس کے مکین کے بارے میں سوچ کر اس کا دل دھڑکنے لگتا۔ اس کو یقین تھا کہ وہ جلد ہی وہاں پہنچ جائے گی، وہ اندر داخل ہو گی اور اس مکین کے پیروں کو چوم لے گی۔ وہ اس مقدس زمیں پہ پہنچ جائے گی جہاں سے کسی پیغام کے آنے کا اسے کب سے انتظار تھا۔

جیسے جیسے اڑتالیس سالہ اور سخت خد و خال کی حامل کرینہ منزل کے نزدیک تر ہوتی گئی، اس کا جوش و ولولہ بڑھتا گیا، اور اب وہ اس چاندنی میں نہائے ہوئے مکان کے باہر کھڑی تھی۔ اس نے دستک دیے بغیر نارنجی رنگ کے دروازے کا ایک پٹ کھولا اور اندر داخل ہو گئی۔ اندر بھی ہلکی ہلکی سفید روشنی تھی۔ اس نے ’ماتا جی‘ پکارا تو ایک منحنی سی آواز آئی۔ کرینہ آواز کی طرف تیزی سے دوسرے کمرے میں داخل ہوئی۔ ماتا جی زمین پہ بچھی ہوئی چٹائی پہ لیٹی ہوئی تھی۔ کرینہ نے اس کے پیروں کو بوسہ دیا۔ ”ماتا جی! میں، کرینہ، آ گئی ہوں۔ “

ایک انتہائی کمزور آواز میں وہ گویا ہوئی۔

” میں اپنی آخری سانسیں روک کر کب سے لیٹی ہوئی ہوں۔ یہ پرچی مجھ سے لے لو اور اس پہ لکھے ہوئے یہ پانچ الفاظ زبانی یاد کر لو۔“

پھر اس نے بے ترتیب سانسوں کے درمیان کانپتے ہوئے ہاتھوں سے وہ پرچی کرینہ کے ہاتھ میں تھما دی۔
کرینہ بے اختیار بول پڑی۔ ”بس، اتنا۔ “ پھر وہ مزید کچھ نہیں کہہ سکی۔
کرینہ کے چہرے پہ اب اضطراب اور بڑھ گیا تھا۔

ماتا جی نے کرینہ کو غور سے دیکھا۔ ”یہ دنیا کے لئے سب سے اہم پیغام ہے۔ اس پہ عمل کرنے سے ہر طرح کے لڑائی جھگڑے ختم ہو جائیں گے۔ “

کرینہ اب ان پانچ الفاظ کو دہرا رہی تھی۔
اگلے پورے دن وہ ماتا جی کی خدمت کرتی رہی۔ وہ اور رکنا چاہتی تھی لیکن ماتا جی نے منع کر دیا۔

” میری فکر نہیں کرو۔ میں نے دیوی کا پیغام تم کو پہنچا دیا ہے، اب میں اس سنسار کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوں۔ تم فوراً اپنے قبیلے کے لوگوں کو جا کر میرا یہ پیغام دے دو ورنہ وہ خونریزی شروع کر دیں گے۔ “

اگلی صبح کرینہ ماتا جی کے پیروں کو چھو کر واپسی کی طرف چل دی۔
۔ پانچ دن بعد ۔
آج پھر کرینہ اونچی چوٹی پہ کھڑی تھی۔
اس نے ہاتھ بلند کر کے سب کو نمشکار کہا، چاروں طرف خود اعتمادی سے دیکھا۔

” مجھے پتا ہے کہ آپ لوگ درگا دیوی کا پیغام سننے کے لئے بیتاب ہو رہے ہیں۔ یہ پیغام دیوی نے سات پیڑھیاں پہلے ہمارے بڑوں کو دیا تھا لیکن انہوں نے اس پہ عمل نہیں کیا۔ اس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ اس عرصے میں کتنے لوگ مارے گئے، بچے یتیم ہو گئے، عورتیں بیوہ ہو گئیں، ان گنت لوگ گھائل ہو گئے۔ ہمیں ان بدلے کی لڑائیوں سے کچھ حاصل نہیں ہوا، سراسر نقصان ہی ہوا ہے۔ “

اتنے میں ایک ساٹھ پینسٹھ سال کا شخص آگے بڑھا۔ ”یہ سب کچھ ہمیں بھی پتا ہے۔ آپ ہمیں پیغام بتائیں جو درگا دیوی نے دیا ہے۔ “

کرینہ نے اپنے سر کو بلند کیا۔ ”یہ ایک بہت مختصر مگر اہم ترین پیغام ہے۔ ماتا جی نے اس پہ لکھا ہے کہ
ہر ایک کو محبت بانٹو۔ ”
مجمع کے لوگ تذبذب کا شکار ہو گئے۔

ایک ادھیڑ عمر کی عورت نے اپنی پوری قوؔت کو استعمال میں لاتے ہوئے کہا۔ ”اتنا مختصر پیغام دینے کے لئے آپ کو ماتا جی نے کوسوں دور کٹھن راستوں پہ چلنے پہ مجبور کیا۔“

کرینہ نے نرم لہجے میں کہا۔ ”ماں جی، یہ پانچ الفاظ کا پیغام سب سے زیادہ اہم پیغام ہے۔“

ایک اور نوجوان زور سے چیخا۔ ”کیا ہم بھول جائیں کہ ہمارے ساتھ کیا کیا ہوا تھا؟ مرنے والوں کی آخری ہچکیاں، زخمیوں کی چیخ و پکار، بچوں کی آہ و بکا، اور یہ آگ سے جلی ہوئی جھونپڑیاں۔ یہ سب ہماری غیرت کو للکار رہے ہیں۔ کیا آپ چاہتی ہیں کہ ہمارے سر ہمیشہ کے لئے ندامت سے جھکے رہیں؟“

کرینہ نے ہاتھ بلند کیے تو سب خاموش ہو گئے۔
” میرے لوگو۔

ہم دس پیڑھیوں سے ساتھ والے قبیلے سے لڑ رہے ہیں۔ کبھی ہم بستیاں اجاڑتے ہیں اور خون بہاتے ہیں اور کبھی وہ۔ یہ بدلے کا سلسلہ دس پیڑھیوں سے چل رہا ہے۔ ہم کتنے سالوں سے اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ امن اور شانتی میں رہنے کے بجائے ڈر اور وحشت کی فضا میں رہتے ہیں، ہر وقت حملے کا خوف لگا رہتا ہے۔ اسی طرح کئی اور صدیاں بیت جائیں گی اور دونوں قبیلوں کی ہار ہوتی رہی گی۔ اس میں کسی کی جیت نہیں ہے۔ جیت اسی کی ہے جس نے دشمنی کے بجائے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ اس قبیلے کے لوگوں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں میں ایک جیسے ہی انسان بستے ہیں۔ ”

دو چار نوجوان مرد اور عورتیں مجمع میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ ”اگر وہ لوگ دوستی کا ہاتھ بڑھائیں تو ہم صلح صفائی کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔ “

بائیں طرف سے ایک تیس پینتیس سال کا جیالا چیخا۔ ”نہیں نہیں، تم ہمیں ان کے سامنے جھکنے پہ مجبور کر رہے ہو۔ ہم ان سے کہیں بہتر ہیں، ہر لحاظ سے۔ بھائیو بہنو۔ ان بزدل لوگوں کی بات نہ مانو۔ یہ ہماری عزت پہ کلنک کا ٹیکہ لگا رہے ہیں۔ “

اس کے ساتھ ہی شور و غل بڑھ گیا اور ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ کرینہ نے مجمع کو قابو میں کرنے کے لئے ہاتھ اوپر کیے۔ ایک تیر کرینہ کی گردن پہ لگا۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور وہ اس کے ہاتھ سے دیوی کا پیغام اڑا کر لے گیا۔

حبیب شیخ
Latest posts by حبیب شیخ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments