میاں نواز شریف کا قوم سے گلہ


ستر کی دہائی میں سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے میاں نواز شریف اس وقت ملک کے سینئر ترین سیاستدان ہیں جو سیاست کے کارزار میں ہر طرح کے نشیب و فراز سے گزرے ہیں۔ اس طویل سیاسی سفر میں جہاں ان پر اقتدار کی دیوی مہربان رہی وہیں پر اسی اقتدار کی وجہ سے وہ پابند سلاسل بھی رہے ہیں۔ اقتدار کا یہ طویل سفر انہوں نے بڑی کامیابی سے طے کیا ہے پنجاب کے وزیر خزانہ سے شروع ہونے والا اقتدار کا سفر وزیر اعلیٰ کی مسند سے گزرتے ہوئے ان کے تین دفعہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی جاری ہے انہوں نے اقتدار کی غلام گردشوں میں اپنے پتے بڑی کامیابی سے کھیلے ہیں وہ آج بھی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد کے پسندیدہ سیاسی رہنما ہیں اور ان کی سیاسی میدان میں موجودگی ہی نواز لیگ کی سب سے بڑی طاقت اور کامیابی کی ضمانت ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ نواز لیگ کی بقا اور مستقبل کا سیاسی سفر نواز شریف کی وجہ سے ہی ممکن ہو پائے گا۔

میاں صاحب گزشتہ چار برس لندن میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزارتے رہے لیکن جیسے ہی انتخابات کا دنگل سجا وہ ملک واپس پہنچ گئے کیونکہ ان کی موجودگی کے بغیر نواز لیگ کی الیکشن مہم وہ رنگ نہ جما پاتی جو ان کی موجودگی کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔ الیکشن مہم میں ان کے چوتھی بار بطور وزیر اعظم منتخب ہونے کے لئے ان کے پاس کوئی ایسا جاندار بیانیہ نہیں تھا جو تحریک انصاف کی محبت میں جکڑے عوام کو ان کی جانب راغب کر سکتا حالانکہ ان کی سیاسی مخالف جماعت تحریک انصاف کو الیکشن مہم میں بہت مشکلات رہیں اور اس کے امیدوار جو کہ مختلف کیسوں میں ملوث تھے اپنی روپوشی کی وجہ سے ووٹروں سے براہ راست رابطہ بھی نہ کر سکے لیکن اس سب کے باوجود الیکشن کے نتیجے میں میاں نواز شریف کی جماعت کسی سیاسی اتحاد اور سہارے کے بغیر حکومت تشکیل دینے کے لئے مطلوبہ نشستیں حاصل نہ کر سکی اور یوں میاں نواز شریف بوجوہ چوتھی بار وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے سے قاصر رہے۔

میاں صاحب کو اس بات کا ادراک ہے کہ بیساکھیوں کے سہارے قائم کی گئی حکومت میں بہت قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور وہ اب شاید عمر کے اس حصے میں مزید قربانیاں دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ البتہ انہوں نے جیسے تیسے نواز لیگ کے ماضی کے سیاسی گڑھ پنجاب کی حکومت سنبھالنے کو ترجیح دی اور آج ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز وزیر اعلیٰ پنجاب کی کرسی پر متمکن ہیں اور وہ خود بطور رہبر پس منظر میں رہ کر پنجاب میں نواز لیگ کی ٹمٹماتی سیاست کو بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اپنے سیاسی اور حکمرانی تجربے کی بنیاد پر پرُامید نظر آتے ہیں کہ وہ دوبارہ پنجاب کے عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس مشن میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اس کا فیصلہ تو ہم سب کے سامنے آ جائے گا لیکن اس مشن کی کامیابی کے لئے انہیں ازسر نو اپنی جماعت کی تشکیل نو کرنی ہے جس کا انہوں نے آغاز کر دیا ہے اور پہلے مرحلے میں وہ 28 مئی یوم تکبیر کے روز دوبارہ اپنی جماعت کے صدارت سنبھالنے جا رہے ہیں جس پر پارٹی کے موجودہ صدر اور ان کے برادر خورد وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے تبصرہ کیا ہے کہ ماضی میں نواز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹا کر بہت ظلم کیا گیا تھا۔

میاں نواز شریف کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا وہ شاید واحد سیاست دان ہیں جن کی آنکھوں میں شرم و حیا بہت زیادہ ہے اور اس شرم و حیا کو برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ نواز لیگ کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ وہ خود چل کے اپنے سیاسی حریف عمران خان کے پاس بنی گالا گئے تھے اور ان کے پینتیس پنکچر کے الزامات کی حقیقت بتا کر ان کو ساتھ چلنے کی پیشکش کی تھی لیکن عمران خان نے صرف بنی گالا کی سڑک بنوانے پر ہی اکتفا کیا اور بعد ازاں انہوں نے مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر میری پیٹھ میں چھرا گھونپا اور حکومت کو ایک مبینہ سازش کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔

میاں نواز شریف نے سیاسی خاموشی توڑی ہے اور ملک تباہ کرنے والوں کے احتساب کی بات کی ہے۔ ان کا اشارہ ملک کی مقتدر قوتوں کی جانب ہے بغور جائزہ لیا جائے تو ان کا اور بانی پی ٹی آئی کا سیاسی ایجنڈا مماثلت رکھتا ہے بانی پی ٹی آئی بھی کسی غیر سیاسی قوت کی جمہوری معاملات میں غیر آئینی مداخلت پر احتجاج کرتے ہیں تو نواز شریف بھی اسی نظریے کے حامی ہیں لیکن دونوں کی بد قسمتی ہے کہ وہ ان غیر سیاسی قوتوں کے بل بوتے پر ہی حکومتیں حاصل کر کے ان کی مداخلت برداشت کرتے آئے ہیں اور آج وہ ان کو سیاسی معاملات سے دور رکھنا چاہتے ہیں جو کہ پاکستان جیسے جغرافیائی محل وقوع رکھنے والے ملک میں ممکن نہیں ہے البتہ اگر ہماری سیاسی پارٹیوں کو عوام پر اعتماد ہو تو وہ ایک آزاد سیاسی انتخابی عمل کا ڈول ڈالیں اور جس کو بھی عوام حکمرانی کے لئے منتخب کریں عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے حکومت اس پارٹی کے حوالے کر دیں اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیں کیونکہ باشعور عوام ایک ہی حکمرانی کے دوران اس بات کا فیصلہ کر دیں گے کون سی جماعت حکمرانی کا حق رکھتی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو جلد یا بدیر یہ دلیرانہ فیصلہ کرنا پڑے گا اسی میں سب کی بقا ہے اور ملک تب ہی آگے بڑھ سکتا ہے جب عوامی رائے کو مقدم رکھا جائے۔

میاں نواز شریف نے پاکستانی عوام سے بھی گلہ کیا ہے کہ جب بھی مجھے ہٹایا گیا تو قوم خاموش بیٹھی رہی اس سے پہلے بھی کئی دفعہ میاں صاحب یہ بات کہہ چکے ہیں کہ قوم نعرہ لگاتی رہی کہ نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں میں نے قدم بڑھائے لیکن جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی ساتھ نہیں تھا۔ میاں صاحب ایک طویل مدت تک اس ملک میں حکمران رہے ہیں ان کو بخوبی علم ہونا چاہیے کہ قوم مشکل وقت میں ان کا ساتھ کیوں نہیں دیتی ان کو قوم سے گلہ کرنے سے پہلے اپنی حکمرانی کے ادوار پر غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس دوران ان سے کیا غلطیاں ہوئیں جس کی وجہ سے عوام ان سے دور ہونے پر مجبور ہوئے اور پنجاب جو ان کی جماعت کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا اس کے عوام ان سے متنفر کیوں ہوئے؟ عوام کا بیگانہ پن ان کی جماعت کے لئے لمحہ فکریہ ہے اور جس روز میاں صاحب کو خود احتسابی کے بعد اپنے اس گلے کا جواب مل گیا ان کا پاکستانی عوام سے گلہ دور ہو جائے گا اور ہمیں دشمن ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کا یہ شرمناک طعنہ نہیں سننا پڑے گا کہ کبھی پاکستانیوں کے ہاتھ میں بم ہوتا تھا تو آج کشکول ہے۔

(محترم اطہر قادر حسن کا یہ موقف سمجھ  نہیں آیا کہ “پاکستان جیسے جغرافیائی محل وقوع والے ملک میں غیر سیاسی قوتوں کا سیاسی معاملات سے دور رہنا ممکن نہیں۔” غیر آئینی مداخلت کا جغرافیائی محل وقوع سے کیا تعلق ہے؟ دوسری طرف محترم اطہر صاحب سیاسی جماعتوں ہی سے “ایک آزاد سیاسی انتخابی عمل” کا تقاضا بھی فرما رہے ہیں۔ کیا یہ دونوں باتیں باہم متضاد نہیں؟ اگر “جغرافیائی محل وقوع” ماورائے دستور مداخلت کی وجہ ہے تو محل وقوع تو تبدیل نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف اگر مداخلت ناگزیر ہے تو سیاسی جماعتیں کیسے “آزاد سیاسی انتخابی عمل” کی بنیاد رکھ سکتی ہیں۔ کیا ہی مناسب ہو اگر محترم اطہر قادر حسن آئندہ کالم میں اس طالب علم کا یہ ابہام رفع فرما دیں۔ و-مسعود)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments