تصاویر کی بحث میں میرا موقف


یہ خوشی کی بات ہے کہ ”ہم سب“ پر تصاویر کی بحث اب نفسیاتی حدود میں داخل ہو گئی ہے۔ وقار ملک اور ڈاکٹر خالد سہیل کے مضامین دلچسپ ہیں۔ ان تصاویر پر اعتراضات بھی آئے ہیں اور ان کی حمایت بھی کی گئی ہے۔ میں ذاتی طور پر اس گروہ میں شامل ہوں جسے ان تصاویر پر اعتراض ہے، لیکن میں ان خوش قسمت افراد میں شامل ہوں جو کوئی چیز پسند نہ آنے پر اسے اپنے حواس پر طاری کر کے اس کے گرد مسلسل گھومنے کی بجائے اسے نظرانداز کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔

یہ بات تسلیم ہے کہ معترضین میں سے بہت سے ایسے افراد ہیں جو ”ہم سب“ کو بہت پسند کرتے ہیں اور اس کے لئے اپنی نیک خواہشات کے سبب یہ نہیں چاہتے کہ ”ہم سب“ ایسی تصاویر شائع کرے۔ ”ہم سب“ کی ٹیم کے بیشتر اراکین، بشمول راقم الحروف، ان کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ لیکن ٹیم میں اس نقطہ نظر سے اختلاف رکھنے والے بھی موجود ہیں اور ہم ایک دوسرے کی رائے کا احترام تو کرتے ہیں مگر دوسروں پر اپنی رائے تھوپنے پر یقین نہیں رکھتے۔ نتیجہ یہ کہ تصاویر شائع بھی ہوتی ہیں، اور کسی رکن کی جانب سے حتمی حکم آئے کہ اسے ہٹا دیا جائے تو وہ ہٹا بھی دی جاتی ہے۔ گو کہ ایک دوسرے کے احترام کے سبب کسی تصویر یا مضمون پر ناپسندیدگی کے باوجود ایسا حتمی حکم دینے سے بیشتر اوقات احتراز کیا جاتا ہے۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ہمیں اردو اور انگریزی اخبارات کے رنگین صفحات سے راہنمائی لینی چاہیے۔ حاشا وکلا میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیں ان موقر اخبارات کے اتواری میگزین کی مانند حکیمی کشتوں کی مدد سے مردانہ کمزوری دور کرنے اور کالے جادو کی کاٹ پلٹ پر فوکس کرنا چاہیے، بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ ”ہم سب“ پر تصاویر کی اشاعت کے لئے ان اخبارات میں شائع ہونے والی تصاویر کو معیار مقرر کرنا چاہیے۔

لیکن خیال رہے کہ یہ اخبارات، اور نہایت ہی محتاط اور قومی روایات کا امین پاکستان ٹیلی وژن بھِی نہ صرف مختصر لباس میں ملبوس ٹینس کھیلتی خواتین کی تصاویر بلاجھجک پبلش کرتے ہیں، بلکہ اولمپکس اور دیگر مقابلوں کی لائیو نشریات میں مختصر ترین لباس بکنی میں ملبوس پیراکی کرتی لڑکیوں اور جمناسٹک اور آئس سکیٹنگ میں مشغول کم پوش حسیناؤں کو ہر ہر زاویے سے دکھاتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص بہت ہی عسرت و حسرت کی زندگی بسر کر رہا ہو یا اتوار میگزین سے مطلوبہ دوا آرڈر کر کے زیادہ مقدار میں استعمال کر بیٹھا ہو، تو وہ کرکٹ میں پورے لباس میں ملبوس باؤلنگ کرتی لڑکی میں بھی فحاشی دیکھ سکتا ہے۔ نظرانداز کرنے والے پیراکی اور جمناسٹک کے مقابلوں میں بھی اپنی توجہ لڑکی کی بجائے کھیل پر مبذول کر سکتے ہیں۔

بہرحال میں پھر بھی ان تصاویر کی اشاعت کو غلط سمجھتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ ”ہم سب“ کی مقبولیت کے پیش نظر اس کے خلاف مہمیں چلتی رہتی ہیں۔ معترضین کے پاس فنی ماہرین اور منطقی انداز میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے والی خواتین کے مضامین کا دلیل سے جواب دینے کی اہلیت نہیں ہے تو ان کا فوکس اس بات پر ہوتا ہے کہ اعتراض کس بات پر کیا جائے اور یہ تصاویر اعتراض کرنے کے لئے ایک ایسا میدان فراہم کرتی ہیں جس میں دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔

یہ بھی نوٹ کریں کہ یہ اعتراضات زیادہ شدت سے اور منظم انداز میں کہاں سے آتے ہیں۔ بیشتر معترضین آپ کو ان ویب سائٹس سے کسی طرح منسلک نظر آئیں گے جو اپنی کم سمجھی کے سبب اپنی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا طریقہ یہ سمجھتے ہیں کہ ”ہم سب“ کو ناکام کر دیا جائے۔ دوسروں کے ناکام ہونے سے آدمی خود کامیاب نہیں ہوتا ہے۔ کامیابی اپنی پرفارمنس پر ملتی ہے۔ بہرحال ان کا یہ رویہ ہی ہماری کامیابی کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہ ”ہم سب“ کے مواد پر فل فوکس کیے ہوئے ہیں جبکہ ”ہم سب“ کی ٹیم کو کوئی پروا نہیں ہوتی کہ ادھر کیا شائع ہو رہا ہے اور کیا شائع نہیں ہو رہا ہے۔

نتیجہ یہ کہ غل غپاڑہ کر کے ”ہم سب“ کے لئے لکھنے اور اسے پڑھنے والوں پر ایک باقاعدہ مہم چلا کر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ تصاویر کے بہت زیادہ ویو ملتے ہیں اس لئے شائع کی جاتی ہیں۔ پچھلے دنوں خاص طور پر ثانیہ مرزا کے بارے میں شائع ہونے والے ایک مضمون پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ معترضین کی ”ہم سب“ کے لئے اس بہترین مارکیٹنگ کے باوجود اس مضمون کو چھے ہزار سے بھی کم مرتبہ دیکھا گیا اور نومبر کے مضامین میں یہ 53 ویں نمبر پر تھا۔ جبکہ صرف دسمبر کے بیس دن کے اعداد و شمار لئے جائیں تو ٹاپ کے دس مضامین کے ویو کم از کم 11000 اور زیادہ سے زیادہ 17000 ہیں۔ یہ تمام روٹین کے مضامین ہیں اور کوئی خاص وائرل ہونے والا مضمون ان میں شامل نہیں ہے۔ ہم سب کے وائرل مضامین کے ویو پچاس ہزار سے پونے دو لاکھ تک ہوتے ہیں۔

وجاہت صاحب کا موقف یہ ہے کہ انسانی جسم کے زاویوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے انہیں ویسے ہی قبول کیا جانا چاہیے جیسے ترقی یافتہ ممالک یا ہمارے گاؤں دیہات میں کیا جاتا ہے۔ ادھر خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ اس موقف کی بنیاد پر وہ ایسی تصاویر شائع کرتے ہیں۔ بہرحال وجاہت صاحب اپنا موقف خود دیں تو مناسب ہے کہ میں اسے غلط بیان کر سکتا ہوں۔

سنسر پالیسی پر اپنے پسندیدہ مصنفین میں سے ایک، ابن انشا کا ایک مضمون یاد آتا ہے۔ اگر آپ کے پاس ”خمار گندم“ موجود ہے تو ”فلم مائی کا لال سنسر ہوتی ہے“ پڑھ کر لطف لیں۔ ہم کوشش کریں گے کہ اسے جلد ہی ”ہم سب“ پر بھی شائع کر دیا جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1545 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar