منٹو کے کھول دو سے “کجا ہستی جان پدر” تک


کابل یونیورسٹی پر دہشت گرد حملہ جسے ہم چار دن یاد رکھنے اور فضول کا واویلا کرنے کے بعد اب ایسے بھول گئے ہیں جیسے ایسا کوئی وقوعہ کبھی ہوا نہیں۔ جہاں یہ اجتماعی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے وہیں اس بات کی بھی غماز ہے کہ اس طرح کے واقعات اب ہمارے لئے کوئی خاص اہم نہیں رہے۔ یہ روز کا معمول بن گیا ہے کہ دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں کچھ نہ کچھ غیر انسانی کام تواتر کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ اور ہم ایک مذمتی بیان کے بعد شہر خاموشاں کی سی خاموشی اپنا لیتے ہیں۔

شہر خاموشان میں کم از کم جن بھوتوں کا ڈر تو رہتا ہے ہم زندوں کے معاشرے میں ایسی کسی خوف کا وجود اب ناپید ہو گیا ہے۔ ہم صرف تماش بین بن گئے ہیں۔ الفاظ، جملے، حالات، بے بسی یا پھر کچھ اور۔ ہم پر کچھ بھی اثر انداز ہونے والا نہیں۔ ہمیں منٹو کا ”کھول دو“ کہنا زہر لگتا ہے مگر ”انکل“ کا ”کھول دینا“ دل و جان سے قبول ہے۔

یہی کچھ ہم نے کابل یونیورسٹی میں پڑھنے والی اس طالبہ کے ساتھ کر دیا۔ قریبا ایک صدی سے ہم نے منٹو کو زیر عتاب رکھا ہے۔ ہر کوشش کے بعد بھی بھول نہیں پا رہے ہیں کہ ایک شخص نے ”کھول دو“ کیوں بولا۔ کل ہی کی اس سے زیادہ سخت بات ہم بھول گئے جس میں ایک مجبور باپ بیٹی کے گھر نہ پہنچنے پر ”کجا ہستی جان پدر“ کہہ اٹھتا ہے۔ ان دو جملوں کا تقابلی جائزہ کریں توہماری اصلیت واضح ہوجاتی ہے۔

”کھول دو“ ایک خیال ہے، افسانہ ہے، مگر ہم اس افسانے پر گزشتہ ایک صدی سے جلاؤ گھیراؤ، قتل و غارت گری اور جائز و ناجائز فعل سرانجام دینے کے لئے تیار ہیں۔ ہم ثقافت کے نام پر، انسانیت کے اصولوں کو فالو کرتے ہوئے یا دین و ادیان کے حوالوں سے منٹو کو کئی بار واجب القتل ثابت کر چکے ہیں۔ اور یہ محنت اب جاری ہے۔ سوال یہاں صرف ایک ہی رہ جاتا ہے کیا ”کھول دو“ واقعی کوئی ناسور تھا۔ یا ہم میں سے ہر ایک کے نا تمام آرزوؤں کا پہلی بار ننگا اعتراف۔ یہ اعتراف ہی تو ہے کہ کئی نسلوں کے بعد بھی ہماری تربیت اسی نقطے پر مرتکز ہے۔ کہ منٹو کیوں بولا؟

دوسری طرف اس سے زیادہ سخت، زیادہ تکلیف دہ اور مکمل طور پر انسانیت والا جملہ۔ ”کجا ہستی جان پدر“ ۔ ہم اس کو باپ کی طرف سے اپنی بیٹی کے لئے ایک پیغام سمجھ کر بھول نہیں سکتے۔ اگریہ بھی ایک عام سا پیغام ہو گیا تو پھر ہم میں اور جانوروں میں کیا فرق رہ جائے گا۔ اس پیغام کو کسی بھی اینگل سے دیکھیں یہ بہت ہی بھر پور، بہت ہی جامع اور مکمل پیغام ہے۔ اس میں انسانیت ہے۔ یہ محبت کی انتہا کا پیغام ہے۔ بھروسے اور مان کی لبریزی کاپیغام ہے۔ سلگتے ہوئے آنسوؤں بھری جذبات کا پیغام ہے۔ اس میں احترام ہے، پیار ہے، محبت ہے۔ کسی کے ہونے کا بھرپور احساس ہے، کسی کو کھونے دینے کی تڑپ بھی ہے اس جملے میں۔ آپ اس جملے کو دنیا کے کسی بھی زبان میں ترجمہ کریں۔ اور اس واقعے سے جوڑ دیں۔ تو جانوروں کی آنکھیں بھی آنسوؤں سے لبریز ہوں گے۔

میں اس سحرسے شاید اس لئے بھی نہیں نکل پا رہا کیونکہ کل کو اس طرح کا وقوعہ میرے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ میری بیٹی بھی اب انسانوں کے جنگل کا باسی ہے۔ کل کو وہ بھی ایسے اداروں تک پہنچ سکتی ہے جہاں علم دی جاتی ہے۔ ایسے اداروں پر نہ تو ادارے والوں کا کوئی اختیار ہوتا ہے اور نہ ہی والدین کا۔ ہم اس کی کیسے اجازت دے سکتے ہیں کہ ایک غیر متعلقہ انسان جس کا نہ تو میری اولاد کی تربیت سے، اس کے مستقبل سے، اس کی پرورش سے، یہاں تک کہ میری اولاد کے جینے اور مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ میری بیٹی کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ وہ میری بیٹی کے جینے اور مرنے کا فیصلہ کرے۔ کیا لاچارگی ہے اور کیا بے بسی۔ یہ بے بسی لمبے عرصے سے موجود ہے۔ صدیوں تک موجود رہنے کا امکان برقرار ہے۔ یہی سب سے تکلیف دہ پہلو ہے اس بے بسی کا۔

مگر اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ”کھول دو“ والا معاشرہ چاہتے ہیں یا پھر ”کجا ہستی جان پدر“ کے رویوں کو فروغ دینے والے معاشرے کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ چار سال کی بچی اگر ایک انکل کے زیر سایہ اپنے آپ کومحفوظ تصور نہیں کرپا رہی ہے تو یہ کم ازکم انسانوں کا معاشرہ نہیں ہو سکتا ۔ رہی بات اٹھارہ سال کے یونیورسٹی کی طالبہ کا۔ وہ بھی اتنی ہی مظلوم ہے۔ وہ بھی ہمارے معاشرے کے چہرے پر ہماری تربیت کا ایک طمانچہ ہے۔ چار سال کی بچی کی پلنگ کے پائچے سے لٹکتی ہوئی شلوار اور اٹھارہ سال کی بچی کی کھڑکی سے لٹکتی ہوئی لاش دونوں ہمارے اس ضمیر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جو مرچکا ہے۔ اور ہم اپنے اس بے ضمیر و مردہ معاشرے کے ساتھ خوش ہیں۔ اس سے بڑھ کر المیہ کچھ اور ہو سکتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).