برہنہ عورت کا نوحہ


سنا تھا کہ جو سماج اپنی پستی کی جانب ہو اس کے بھی کچھ ادب و آداب ہوا کرتے ہیں۔
مگر ہم جس گھٹن زدہ سماج میں رہتے ہیں بلکہ جس سماج کو ہم نے خود اپنا لہو دے کر بنانے کے دعوے کئیے ہوں آج اس کا سرے سے نہ کوئی ادب ہے اور نہ ہی کوئی آداب کے دائرے بلکہ یوں کہا جائے کہ ہمارے سماج کے لچھن ہی خراب ہوچکے ہیں تو یہ بھی کچھ غلط نہ ہوگا۔
المیہ ہی المیہ بلکہ ایک کے بعد ایک نیا المیہ، ماتم ایک کے بعد ماتم۔ ہر روز شرمندگی کا نا ختم ہونے والا ایک ایسا سلسلہ جس سے سر جھکائے نم آنکھیں کئیے چپ چاپ گزر جانے کے سوا کوئی چارا بھی تو نہیں۔

کیسے نہ کہوں کہ یہاں بےحیائی کا رونا پیٹنے والے ہی اپنے ہاتھوں سے حیا کا پردہ چاک کر کے اسے برہنہ کر کے آنکھوں کو تسکین کا سامان کرتے ہیں۔
کیسے چپ رہوں کہ یہاں اب برہنہ جسم نہیں ہوا کرتا بلکہ وہ آنکھیں ہوتی ہیں جن کی حوس نے معصوموں کے جسم کوچہ و بازار کی نظر کر ڈالے۔
بس چند آنسو اور بےبسی کے سوا اس سماج کو اب ہم دے بھی نہیں سکتے۔
اور کتنی تعلیم چاہیے اس سماج کو ہاں یہ بھی سچ ہے کہ اس مملکتِ خداداد میں ناخواندگی اپنی جگہ ایک فاش المیہ ہے۔
مگر معاشرتی تربیت کا یہ ایک عجیب و غریب فقدان ہے۔ وحشت اور حوا کی بیٹی کے لیے حوس کا سلسلہ اب نسل در نسل ہم میں منتقل ہوتا جارہا ہے۔ !

زرا ماضی کی جانب چلتے ہیں۔
بزرگوں سے سنتے تھے کہ ایوب خان کا ہی ایک واحد دور ایسا تھا جب پاکستانیوں کی پاکستان کے اندر اور باہر یکساں عزت ہوا کرتی تھی بلکہ پاکستانی صدر کی امریکہ آمد پر وہاں کے صدر خود انہیں لینے جہاز تک آیا کرتے تھے۔

مگر اس کے بعد ایسا کیا ہوا کہ جگ بھر میں ہماری رسوائی کے قصے عمرو عیار کی کہانوں سے بھی زیادہ مشہور ہوتے گئے۔
باہر کا تو صاحب اب رہنے دیں وہ تو اب خواب ہی ہوا رہی بات یہ کہ اب تو ایک پاکستانی کی عزت پاکستان میں اس کے اپنے آبائی علاقوں میں اپنے ہم وطن کے ہاتھوں محفوظ نہیں رہی۔
یہاں درد، الم، افسوس اور دکھ جیسے الفاظ اپنے احساست سے ہی محروم کردیے گئے ہیں۔

یہاں آج بھی ریاست کے ہوتے ہوئے بھی کچھ علاقوں کی عوام کے رہن سہن اور سزاؤن کے طریقہ کار اپنے ہی رائج کردہ اصولوں کے مطابق ہیں یعٰنی کہ ریاست کے اندر ایک ریاست نہیں بلکہ کئی کئی ریاستیں بلاِ خوف و خطر موجود ہیں بلکہ آئے روز دلخراش واقعات کیساتھ اپنے وجود کے ہونے اور اپنی طاقت کا اظہار بھی کر رہی ہیں۔

ایسی ریاستیں گلی محلوں اور محلات سے لے کر کئی ایسے علاقوں میں اپنا وجود رکھتی ہیں جہاں قانون ان سے اور وہ قانون کی حیثیت سے واقف ہیں۔
مثال کے طور پر پڑھے لکھے گھرانوں بلکہ بیوروکریٹس سمیت ایوانِ اقتدار سمیت اعلٰی افسران کی مثال لی جائے تو ان کے بھی گھروں میں کام کرنے والے ملازمین خاص طور پر بچیوں کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک اور اس کے چرچے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
حتٰی کے ان پر بدترین تشدد سمیت جنسی طور پر حراساں کرنے کے کئی کیسز سامنے آچکے ہیں۔

یہ تو تھی وہ سرسی سی مثال جو بےانتہا پڑھے لکھے باشعور لوگوں کی ہے۔
مگر ان سے کچھ کم متوسط طبقے کی مثال لی جائے تو وہ اس معاملے میں کچھ ذرا دو ہاتھ آگے ہیں۔

مثال کے طور پر سبزی والے کی دکان سے یا کسی فیکڑی سے کی جانے والی چوری کے ملزم کو بغیر کسی تفتیش کے اگر مرد ہے تو اسے آدھا برہنہ کر کے پہلے خوب درگت بنائی جاتی ہے پھر اس کا منہ کالا کر کے کسی ایسی جگہ باندھ دیا جاتا ہے جہاں سے ہر آنے جانے والا فرد اس کی تضحیک کرتا ہوا گزرے۔
جب اسے خوب بےحال کر دیا جاتا ہے تو پھر اسے قانون کے حوالے کیا جاتا ہے۔
اس ہی طرح متوسط طبقے کے کم پڑھے لکھے یا یوں کہیں کے کہ غیر تعلیم یافتہ اور صرف مزدور طبقے کی مثال لی جائے تو ان کے ہاں چور کو پکرتے ہی ایک نعرہ بلند ہوتا ہے۔
“ پیٹرول لاؤ اسے تیلی لگا دیتے ہیں۔ ”
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھ آیا ملزم عوامی عدالت میں بغیر کسی تفتیش بنا کسی چالان اور ثبوتوں کے اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے۔

یہ تو تھیں چند ایسی مثالیں جو اربن ایریاز میں اپنا وجود رکھتی ہیں۔
مگر دوسری جانب اگر ہم دیہی علاقوں کی بات کریں جہاں سہولیات کے نام پر صرف دیواروں پر نعرے لکھے ہوں جہاں علاج کے نام پر قصائیوں کی بھرمار ہو جہاں عزت کے نام پر فرسودا رسومات کا ایک ناسمجھ آنے والا غیر شعوری اور انسانی تضحیک کا اعلٰی نمونہ ہو وہاں کی مثالیں دیکھنے اور سننے سے پہلے انسان کو اپنے اوسان مضبوط کرنے پڑتے ہیں۔

سندھ کے شدید پسماندہ علاقوں سے ہوتے ہوئے جنوبی پنجاب سے لے کر بلوچستان اور پھر پنجاب کے متوسط غیر تعلیم یافتہ طبقے سے پختونخواہ کے وہ علاقے جہاں صرف ترقی کے نام پر ریت اڑاتے راستے ہیں جہاں آپ کو اسکول کے نام پر گھنے درختوں کے نیچے تعلیم کی پیاس بجھاتے چند بچے ملیں گے،
جہاں دریاؤں پر بنے اپنی مدد آپ کے تحت کچے پُل ملیں گے جہاں مَلک اور سردار کے ڈیرے انسانی غلاموں سے لیس ملیں گے جہاں سہولیات کے نام پر صرف صدیوں سےکیے جانے والے جھوٹے وعدے ہوں وہاں بھلا شعور کی آبیاری کیوں اور کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔

ایسے علاقوں اور ان میں بسنے والوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے ایک ایسی دنیا جہاں کے رسم رواج اپنے ہیں جہاں سزا اور جزا کا نا ختم ہونے والا سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے جہاں پر بھائی کے کئیے کی سزا اس کی ماں اس کیبہن کو سرِ عام برہنہ کر کے دی جاتی ہو جہاں اگر کوئی بہن بھی غلطی کرے تو بھی اس کیسزا اس کی چھوٹی بہنوں کو بھگتنا پرتی ہے،
جہاں کوئی باپ چچا بھی غلطی کرے تو بھی اس کیسزا اس کے گھر کی عورت کو ہی دی جاتی ہے۔

اور یہ سزا کا ایک ایسا نظام ہے جس میں تیر ہمیشہ عورت کے سینے میں پیوست ہوا کرتا ہے اور کئی بار ایک ہی سزا ایک ہی عورت کو بار بار دی جاتی ہے۔
یہ شعور کی وہ پستی کا عالم ہے جس کے کوئی ادب و آداب نہیں ہیں۔

کہتے ہیں کہ افریقہ کے کئی جنگلوں میں مرد و خواتین ہزار ہا صدیوں سے برہنہ رہتے آئے ہیں اور آج بھی کئی قبائل ایسے ہیں کہ وہ برہنہ ہی زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں مگر اس کے باوجود ان میں اتنا تو شعور ہے کہ کسی عورت کو کسی دوسرے مرد سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
مگر یہ کالے قوانین صرف ہمارے ہی نصیب میں ہی کیوں اور صرف اس کا نشانہ عبرت عورت ہی کیوں؟

کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں جہاں بھی جرگہ ہوا اس میں ونی قرار دی جانے والی عورت ہی رہی۔
کیا کبھی کسی مرد کو ونی قرار دینے کی روایت بنی یا کبھی کسی مرد کو سزا کے طور پر مخالف قبیلے کے حوالے کیا گیا ہو کہ لو بھئی جب تک مجرم نہیں ملتا یہ آپ کا ملازم رہے گا خادم نوکر یا غلام بن کر زندگی گزارے گا۔

جرگوں میں دی جانے والی کئی سزاؤں میں اجتماعی زیادتی کی سزائیں دی جاتی رہی ہیں، کیا کبھی کسی مرد کے حوالے سے کوئی ایسی سزا تجویز کی گئی؟
یا کبھی یہ سنا ہوا کہ باپ بھائی کے ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر اُس کے گھر کے کسی مرد کو راہ سے اٹھا کر برہنہ کیا گیا ہو اور پھر اس برہنہ مرد کو بازار گلی کوچوں میں گھمایا گیا ہو؟

یقیناً میں نے غلط لکھا ہے کیونکہ ایسا آج تک بلکل نہیں ہوا اور نہ ہی ایسا ہوسکتا ہے۔
اور نہ ہی کوئی مرد ایسا کبھی کسی دوسرے مرد کیساتھ کرنا چاہے گا۔
آخر برادری جو ٹھہری۔

میں شرمندہ ہوں کہ ڈی آئی خان میں ہونے والے اُس حادثے پر چاہ کر بھی کچھ نہیں لکھ سکتا جس میں ایک کم عمر لڑکی کو اس کے بھائی کی سزا ملی اور سزا بھی ایسی کہ شاید ہی کوئی خاتون اس صدمے کیساتھ ساری زندگی جی سکے۔
شاید یہ عورت کا ہی حوصلہ ہے کہ وہ اپنے بطن سے اُس مرد کو پیدا کرتی ہے جو ہوش سنبھالتے ہی اپنی ماں کی برادری کی عورت کو برہنہ کر کے سڑکوں پر گھماتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).