کیا کیلون کیلائن کا پرفیوم آدم خور شیرنی کو پکڑنے میں مدد دے سکے گا؟


شیر

انڈیا میں شیروں کی سب سے زیادہ تعداد ہے

کیا مردوں کا وہ پرفیوم جو اپنی خوشبو کے لیے معروف ہے انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے جنگل میں گھومتی آدم خور شیرنی کو پکڑنے میں مدد کر سکتا ہے؟

جنگلات کے حکام کا کہنا ہے کہ انھیں اس پر پورا بھروسہ نہیں ہے، تاہم انھوں نے چھ سالہ شیرنی کو پکڑنے کے لیے کیلون کیلائن کمپنی کی مردوں کے استعمال والے پرفیوم ‘آبسیشن’ کی بوتلیں خریدی ہیں۔

اس شیرنی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس نے پنڈھرکواڈا قصبے کے مضافات میں کم از کم 13 افراد کو ہلاک کر دیا ہے اور وہ گذشتہ دو برسوں سے پکڑ میں نہیں آ رہی۔

وائلڈ لائف کے ایک افسر سنیل لیمائے نے بتایا:’ہمیں بتایا گيا ہے کہ یہ سینٹ (خوشبو) شیرنی کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے کام کرے گی۔ اس لیے ہم لوگ پیڑوں پر اور اس کے آس پاس جھاڑیوں پر اس خوشبو کو چھڑک دیں گے اور دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔’

اس خوشبو میں بلی جیسے جانور کے جسم سے خارج ہونے والی ‘مشک بلاؤ’ نامی بو ہوتی ہے اور اس کا عام طور پر کولون میں استعمال ہوتا ہے۔ کولون کو انسان اپنے جسم سے نکلنے والی بدبو کو دبانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ نیویارک کے چڑیا گھر میں کیے جانے والے ایک تجربے میں یہ پایا گیا کہ جیگوار یعنی امریکی تیندوے اس خوشبو کو بظاہر بہت پسند کرتے ہیں۔

ماہر علم حیات میگوئل آرڈینانا نے سائنٹیفک امریکن میگزین کو بتایا کہ ان کے خیال میں اس خوشبو کو پیڑوں پر چھڑک کر جیگوار کو کیمرے میں قید کرنے کے لیے پھانسا جا سکتا ہے۔ تین سال قبل انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں ایک کیمرے اور پنجرے پر اس خوشبو کا ایک چیتے کو شکنجے میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

شیرنی کو فریب میں لانے لیے ایک قیمتی خوشبو کا استعمال اس بات کا اظہار ہے کہ اس شیرنی کو پکڑنے کی خواہش کتنی شدید ہے۔ اس شیرنی کا نام ٹی-1 دیا گیا ہے اور یہ انڈیا کی تاریخ میں شیر کے سب سے بڑے شکار میں سے ایک ہے۔

اس شیرنی کی تلاش نے جنگلات کے حکام اور نشانہ بازوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ وہ اپنے دو نو مہینوں کے بچوں کے ساتھ ڈیڑھ سو کلومیٹر پر پھیلے جنگل میں بار بار چھپ جاتی ہے۔ اس جنگل میں کہیں کہیں کھیت اور گاؤں بھی ہیں۔

اس جنگل کے کنارے آباد تقریباً 20 گاؤں میں آباد پانچ ہزار لوگوں میں اگست کے مہینے میں تین آدمیوں کی موت کے بعد سے خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔

شیرنی کے حملے سے بچنے کے لیے کسانوں اور چرواہوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کھیتوں اور جنگلوں میں دن کی روشنی میں جائیں اور اگر باہر جانا ہو تو گروہ میں جائیں اور کھلے میں رفع حاجت نہ کریں۔ خیال رہے کہ ان علاقوں میں کھلے میں رفع حاجت عام بات ہے۔

شہروں میں جانوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے شیرنی کو شکاری کی بندوق سے ‘بچانے’ کے لیے سماجی رابطوں کی سائٹ اور آن لائن پر ایک مہم چھیڑ رکھی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جنگلات کے حکام کے پاس شیرنی کو زندہ پکڑنے میں مہارت نہیں ہے اور اس لیے وہ آخر کار اس کو گولی مار دیں گے۔

ستمبر میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے اس معاملے میں دخل دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس کو پکڑنے کے چکر میں رینجرز کو اس کو گولی مارنی پڑی تو عدالت عظمیٰ اس میں دخل نہیں دے گی۔

اس علاقے میں وائلڈ لائف کے سب سے سینیئر اہلکار اے کے مشرا نے بتایا: ‘ہماری نیت اسے مارنے کی نہیں ہے۔ اس کا سارا انحصار حالات پر ہے۔ اگر وہ ہم پر حملہ کرتی ہے تو ہم اس پر گولی چلا دیں گے۔ یہ صبر آزما کام ہے۔’

دوسرے حکام کا کہنا ہے کہ یہ ‘صبر آزما کھیل’ بہت لمبا کھنچ چکا ہے اور انھوں نے شیرنی کی تلاش کے تقریباً تمام حربے آزما لیے ہیں۔

روزانہ 36 محافظ جنگل کا دورہ کرتے ہیں جہاں تقریباً 100 کیمرے اس شیرنی کا پتہ لگانے کے لیے نصب ہیں اور اب تک ان میں شیرنی اور اس کے دو بچوں کی 300 سے زیادہ تصویریں قید کی جا چکی ہیں۔

جنگل میں درجنوں مختلف مقامات پر گھوڑوں اور بکریوں کو چارے کے طور پر باندھا گیا ہے۔ ان میں سے دو گھوڑے اب تک بظاہر شیرنی کا شکار ہو چکے ہیں لیکن اس علاقے میں شیرنی کی تلاش اب تک بےسود ثابت ہوئی ہے۔

رینجرز وائرلیس اور ٹارچ کے ساتھ اونچے اونچے پیڑوں پر بنے مچانوں سے 24 گھنٹے اس پر نظر رکھتے ہیں۔ شیر کے تحفظ کی ٹکڑی کے 50 کمانڈوز پولیس اور اے کے-47 رائفلز کے ساتھ جنگل میں گشت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

آدم خور شیرنی کو مارنے کا حکم برقرار

انڈیا کے آدم خور شیروں سے کیسے نمٹا جائے؟

وہ شیرنی کے پاؤں کے تازہ نشان اور اس کے پیشاب کو سونگھتے پھرتے ہیں اور پیڑوں پر ان کے پنجوں کے نشان تلاش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں ایک کرائے کے نشانہ باز کو اس کی ٹیم کے نو افراد کے ساتھ بلایا گیا ہے۔ ہاتھیوں کو بھی تعینات کیا گیا ہے۔ اور اس شیرنی کی تلاش میں جنگل پر ایک ڈرون اور پاور گلائڈر پرواز کرتا رہتا ہے۔

جنگل کے کنارے ستارا گاؤں میں ایک عارضی خیمے میں نائلون کے تین بڑے جال ہر وقت تیار ہیں تاکہ جہاں کہیں بھی شیرنی کو دیکھا جائے اسے فوری طور پر وہاں پہنچایا جائے۔

جانوروں کے ڈاکٹروں کا ایک گروپ بھی اپنی بےہوش کرنے والی ڈارٹس کے ساتھ تیار ہے۔ مجموعی طور پر 500 افراد اور مختلف قسم کی مشینیں اس کام میں لگائی گئی ہیں اور اس کے باوجود ٹی-1 شیرنی اب تک بچتی رہی ہے۔

جنگلات کی ایک سینیئر اہلکار کے ایم ابھرنا کا کہنا ہے کہ ‘وہ بہت چالاک ہے۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ ہے اس لیے ذرا زیادہ ہی محتاط ہے۔ وہ ہمیں ہر بار دنگ کر دیتی ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ جنگل کا یہ حصہ بھی ہماری مشکلات میں اضافہ کرتا ہے۔

یہ ٹیک کا جنگل لہردار اور چٹان والا ہے۔ اور سب سے زیادہ مشکلات تیزی سے بڑھنے والی جھاڑیاں ہیں جو بعض اوقات آٹھ دس فٹ اونچی ہوتی ہیں۔ یہ جھاڑیاں ٹیم کے پیدل یا گاڑیوں پر چلنے میں رخنہ ڈالتی ہیں اور جانوروں کو دیکھنے میں مانع ہوتی ہیں۔ اس جنگل میں چیتے، نیل گائے، جنگلی سور اور سانپ پائے جاتے ہیں۔ گرمیوں میں یہاں کا درجۂ حرارت 48 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے جس کے سبب شکاری جلد ہی تھک جاتے ہیں۔

شیرنی کو پکڑنے کی اس مہم میں حادثے بھی ہوئے ہیں۔ رواں ماہ کے اوائل میں شیرنی کو پکڑنے کے لیے شکاریوں کے نقل و حمل کی خاطر پانچ ہاتھی اس جنگل میں لائے گئے۔ اس آپریشن کو اس وقت روک دیا گیا جب ایک ہاتھی نے اپنی زنجیریں توڑ دیں اور گاؤں کی ایک خاتون کو کچل ڈالا اور گاؤں والوں کے مشتعل ہونے کے بعد انھیں فوراً واپس بھیج دیا گیا۔

مسٹر لیمائے کا کہنا ہے کہ ‘تلاش جاری ہے۔ ہمیں صبر سے کام لینا ہو گا۔’

اس کے علاوہ اس شیرنی کے متعلق بھی کئی سوال ہیں جن کے جواب ابھی تک نہیں مل سکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سوزوکی کی فیکٹری بند کرانے والا تیندوا پکڑا گیا

شیر سے لڑائی: ’میں نے سوچا میری بیٹی مرنے والی ہے‘

ایک یہ کہ ٹی-1 کہاں سے آئی کیونکہ وہ کسی تحفظ والی پناہ گاہ میں پیدا نہیں ہوئی۔ اس کے بارے میں یہ علم بھی ہے کہ اس کی ماں بجلی کے تار کی زد میں آنے سے ہلاک ہو گئی تھی۔ اس علاقے میں کسان عام طور پر جانوروں سے اپنی فصلوں کی حفاظت کے لیے بجلی کے ایسے تار بچھا دیتے جن میں کرنٹ دوڑ رہا ہوتا ہے۔

انڈیا میں 2200 سے زیادہ شیر ہیں جو کہ دنیا کا 60 فیصد ہیں۔ ان میں سے 200 سے زیادہ مہاراشٹر ریاست میں ہیں لیکن ان میں سے صرف 60 شیر ہی محفوظ پناہ گاہوں میں رہتے ہیں۔

ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ ٹی-1 شیرنی کو ‘آدم خور’ کہا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اس نے سنہ 2016 سے گذشتہ 20 مہینوں میں دس افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔ لیکن اگست میں علاقے میں خوف و ہراس اس وقت پھیل گیا جب اس نے مبینہ طور پر تین افراد کو ہلاک کر دیا۔ زخموں پر لگے شیر کے لعاب کے ڈی این اے ٹیسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 13 افراد میں سے پانچ مادہ شیر کا شکار ہوئے ہیں۔ دوسرے دو نمونوں کا نتیجہ بہت واضح نہیں ہے۔

کئی لاشوں کا سر تن سے جدا تھا کیونکہ وہ اپنے شکار کو بظاہر گھسیٹ کر لے گئی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی گوشت اس کے منہ لگ گیا ہے کیونکہ ایک شخص کا پاؤں کھایا ہوا دیکھا گیا ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی واضح نہیں کہ ٹی-1 انسانوں پر حملہ کیوں کرتی ہے۔ جنگلات کے تیزی سے کٹنے کے سبب شیروں کی پناہ گاہ کے قریب رہنے والے انسان اور جانوروں میں تصادم دیکھا جا رہا ہے۔

ٹی-1 کے انسانوں پر حملہ آور ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ لوگ اب جنگل میں بڑی تعداد میں اپنے مویشیوں کو چراگاہ کے لیے لے جاتے ہیں۔

اس علاقے میں آباد افراد کے پاس تقریبا 30 ہزار مویشی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر بوڑھے اور بے کار ہو چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کی تعداد میں اضافہ اس لیے ہوا ہے کہ حکومت نے گائے اور اس کی نسل کے جانور کے ذبیحے پر پابندی لگا دی ہے۔

خون پینے والی شیرنی

اپنے دو مویشیوں کے ساتھ 70 سالہ رام جی شینڈرے اور ان کی اہلیہ جنگل گئیں۔ جوں ہی شنیڈرے نے کیڑوں مکوڑوں کو بھگانے کے لیے لکڑیا اکٹھا کرکے آگ جلائی اور شیرنی ان کے پیچھے سے نمودار ہوئی۔ ان سے 50 میٹر کے فاصلے پر خوف کے عالم میں کھڑی ان کی اہلیہ لتا نے دیکھا کہ وہ کس طرح ان کے شوہر کو گھسیٹتے ہوئے لے گئی۔ وہ ایک اونچی جگہ پر چڑھ کر مدد کے لیے چیخ و پکار کرنے لگیں۔

گاؤں والے وہاں پہنچے گاڑیاں سڑک پر ہی رک گئیں، گاڑیوں کے ہارن بجائے گئے۔ شیرنی شینڈرے کی لاش کو دو کلومیٹر تک کھینچ کر لے گئی اور پھر اس نے اسے چھوڑ دیا۔

لتا کہتی ہے کہ ‘ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے شکار کو کھاتی نہیں ہے وہ صرف اپنے شکار کا خون چوس لیتی ہے۔’ زیادہ تر گاؤں والے اسے ‘خون پینے والی شیرنی’ کہتے ہیں۔ لیکن حکام کہتے ہیں کہ اس نے اپنے کئی شکار کا گوشت بھی کھایا ہے۔

21 مئی کو شکاریوں نے اسے تقریباً پکڑ لیا تھا۔ اس کی تلاش میں سرگرداں گروہ نے اسے سراتی کیمپ سے 18 کلومیٹر دور ایک نیل گائے کو کھاتے ہوئے دیکھا۔ ابھرنا بتاتی ہیں کہ انھوں نے اسے گھیر لیا اور بے ہوش کرنے والی ڈارٹ سے اس پر نشانہ لگایا جو اسے لگی۔

وہ مڑی اور ایک تنگ ڈیم سے تیر کر نکل کر کھیتوں سے ہوتی ہوئی میکا ڈیم سڑک پار کی اور جنگلوں میں گم ہو گئی۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ بہت زیادہ پرجوش رہی ہو گی اس لیے بے ہوشی کی دوا اس پر کام نہیں کر سکی یا پھر ڈارٹ میں بے ہوشی کی دوا وافر مقدار میں نہیں رہی ہوگی۔

ابھرنا بتاتی ہیں کہ سڑک پر جب ریجرز اپنی گاڑی میں اس کے پیچھے چلے تو اس نے ان پر ‘حملہ کیا۔’ وہ بلند آواز میں دھاڑ رہی تھی۔ وہ بہت غصے میں تھی۔اس کے بعد وہ جھاڑیوں میں کودی اور غائب ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32684 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp