اسرائیل اور امریکی جامعات


آٹھ دہائیوں سے قتل عام جاری ہے اسے روکنا ہو گا۔ ایک بھی اور فلسطینی نہ مارا جائے۔ کل نہیں، اگلے ہفتے نہیں، جنگ بند کرو ابھی فوراً! یہ جنگ تمہاری محنتوں سے رکے گی۔ پلٹ کر تم اپنا یہ کارنامہ فخر سے دیکھو گے کہ تم نے فلسطین آزاد کرانے میں کتنا بڑا کردار ادا کیا۔ عورتیں بچے ناقابل یقین تعداد میں مر رہے ہیں۔ قیامت توڑی جا رہی ہے۔ نہ صاف پانی، نہ پٹیاں نہ ادویہ نہ مرہم۔ اب ایک پائی بھی نہیں، ایک بم، ایک گولی، ایک ڈالر بھی اسرائیل کو نہیں جائے گا۔ یہ ہمارے ٹیکسوں کے ڈالر ہیں۔ ہم کہہ رہے ہیں۔ اپارتھائیڈ (نسلی تفریق/ امتیاز) ختم کرو۔ ابھی۔ فوری! ہر کیمپس کھڑا ہو اور بتا دے۔ فلسطین کب آزاد ہو گا؟ ’ابھی‘ ۔

یہ اقتباس مائیکو پیلیڈ، (سابق اسرائیلی جنرل کے بیٹے ) کی اس تقریر کا ہے جس میں کولمبیا یونیورسٹی کے طلباء کو داد و تحسین پیش کی گئی اور پورے مجمع میں بجلی بھر کر ! Now! Now ”(ابھی! ابھی) کے نعرے لگوائے گئے۔ یونیورسٹی آف کولمبیا سے فلسطینیوں کے حق میں طلبہ کے احتجاجی مظاہرے طاقت کے استعمال اور 2400 سے زیادہ گرفتاریوں کے باوجود ساٹھ سے زائد یونیورسٹیوں میں پھیل چکے۔ طلبہ کا مطالبہ کہ اسرائیل سے فوجی تعلقات فوراً ختم اور غزہ کی صحت اور تعلیم کے مسائل میں فوری مدد کی جائے اور انہیں ان ڈیفنس کنٹریکٹرز اور ان کی مالی معاونت کرنے والے اداروں کے بارے میں بتایا جائے جو غزہ میں نسل کشی کے لئے ہتھیار مہیا کر رہے ہیں۔

امریکی حکومت نے بعض طلبہ کو یونیورسٹیوں سے بھی نکال دیا۔ بہت سے طلبہ سے ایسے بانڈز پر دستخط کروائے گئے، کہ وہ آئندہ ایسے احتجاج میں شامل نہیں ہوں گے۔ یاد رہے کہ امریکہ دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جہاں پرائیویٹ ہتھیار بنانے والی کمپنیوں کو ریاست یہ ضمانت فراہم کرتی ہے کہ وہ جتنے بھی ہتھیار اور بم بنائیں گی، وہ ریاست نہ صرف خریدے گی بلکہ ان ہتھیاروں کے ایکسپائری پر بھی ریاست معاوضہ دینے کی پابند ہو گی۔

یہ مظاہرے اب برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، ترکیہ، جاپان سوئٹزرلینڈ اور آئرلینڈ کے تعلیمی اداروں تک پھیل چکے ہیں۔ لندن میں 13 بڑے عوامی مظاہرے ہو چکے۔ یہ احتجاجی مظاہرے ساٹھ کی دہائی میں ہونے والے مظاہروں سے بہت مشابہت رکھتے ہیں جب امریکہ نے ویت نام اور جنوب مشرقی ایشیا میں تباہی اور بربادی کا ہوشربا مظاہرہ کیا تھا۔ ایشیا کے طلبہ کا بھی سیاسی معاملات میں عمل دخل طویل تاریخ کا حامل ہے۔ بھارت ’چین‘ برما ’انڈونیشیا‘ پاکستان اور دیگر کئی ایشیائی ممالک میں انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران سر اٹھانے والی تحریکوں نے بے حد فعال کردار ادا کیا۔

آزادی حاصل کرنے والے کچھ ممالک میں طلبہ تحریکیں براہ راست یا بالواسطہ حکومتوں کو برخاست کرنے یا سیاسی بحران پیدا کرنے میں بھی کامیاب ہوتی رہیں جیسے ترکی ’جنوبی کوریا‘ جنوبی ویت نام ’انڈونیشیا‘ پاکستان اور جاپان۔ 1969 ء میں ایوب خان کے خلاف تحریک کا آغاز بھی طلبہ نے ہی کیا تھا۔ یہ مختصر تاریخ ظاہر کرتی ہے کہ طلبہ کی تحریکیں تاریخ کا رخ موڑنے اور حالات و واقعات کے دھارے تبدیل کرنے کی استعداد رکھتی ہیں۔ ویت نام میں مداخلت کو دیکھ کر امریکی طلبہ اٹھ کھڑے ہوئے تو امریکی انتظامیہ کو اس تحریک کے سامنے سر جھکانا پڑا۔ ویت نام کی جنگ بند کرنے اور اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔ امریکی فوجیوں کا انخلا 1974 ء میں مکمل ہوا تھا۔

اس وقت فلسطین کے حوالے سے تحریک ابتدائی مراحل میں ہے۔ اگر غزہ میں جنگ بندی اور مستقل امن کے قیام کے لیے جلد کوئی معاہدہ نہ ہوا اور مسئلہ فلسطین مستقل طور پر حل کرنے کا کوئی بندوبست نہ کیا گیا تو ویت نام جنگ کی تحریک کی طرح طلبہ کی فلسطین تحریک میں بھی تیزی آنے کے امکانات ہیں۔ ویت نام کی جنگ کے خلاف تحریک نے جس طرح عالمی سیاست کا رخ موڑ دیا تھا اسی طرح فلسطینیوں کے حق میں امریکی طلبہ کی یہ تحریک ’جو، اب ایک عالمی تحریک بنتی نظر آ رہی ہے‘ بھی نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ عالمی سیاست کے معاملات کو تبدیل کر دے گی۔

120 سے زائد تنظیموں پر مشتمل طالب علموں کا اشتراک و اتحاد ’CUAD‘ (کولمبیا یونیورسٹی، اپارتھائیڈ اینڈ ڈائی ویسٹمنٹ ’۔ ) یہ تحریک، اسرائیلی‘ اپارتھائیڈ ’غزہ قتل عام، فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف ہے۔ اس کا مطالبہ یونیورسٹی سے اسرائیل کی اسلحہ سازی میں سینکڑوں ملین ڈالر کے اثاثوں کی سرمایہ کاری ختم کرنا ہے۔ یہ سرمایہ کاری اسرائیل کے لیے اسلحہ فراہمی کا ذریعہ ہے، جس پر طلبا سیخ پا ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی میں سرمایہ کاری (اسرائیل سے ) ختم کرنے پر ریفرنڈم ہوا جس میں 76.55 فیصد نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

امریکہ کے اسرائیلی حامی سیاستدانوں نے، مظاہروں کو کچلنے کے لیے امریکی صدر سے نیشنل گارڈ بلانے کی اپیلیں کیں مگر بائیڈن نے نیشنل گارڈ بلانے سے انکار کر دیا۔ محدود پولیس ایکشن میں سینکڑوں طلباء کی گرفتاریاں تو ہوئیں لیکن بہت زیادہ تشدد سے احتراز کیا گیا بائیڈن کو شاید ماضی میں تشدد کے نتائج یاد تھے اور انہیں انتخابی معرکہ بھی درپیش ہے۔ 4 مئی 1970 کو امریکی ریاست اوہائیو کی کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی میں نیشنل گارڈ نے ویت نام کی جنگ کے خلاف احتجاجی طلبا پر گولی چلائی جس میں چار طلبہ ہلاک اور نو زخمی ہوئے۔ چند دن بعد یونیورسٹی آف نیو میکسیکو میں نیشنل گارڈز نے گیارہ طلبا کو سنگینوں کے ذریعے زخمی کر دیا۔

اس تشدد نے احتجاجی تحریک کو جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیلا دیا۔ طلبا کے پرامن احتجاج پر سرکاری تشدد نے ان کے حوصلوں کو پست کرنے کی بجائے مہمیز کا کام کیا اور پورے امریکہ میں طلباء کے جذبات کا اظہار نیویارک یونیورسٹی کے طلبا کے ایک بینر میں ہوا جس پر لکھا گیا تھا، ”وہ ہم سب کو قتل نہیں کر سکتے۔“ پولیس نے اس بار بھی جس طرح مظاہرے کرنے والے طلبہ کو گرفتار کیا، وہ مناظر دنیا نے دیکھے۔ اس کریک ڈاؤن میں مشاعروں پر پابندی، طلبہ اور فیکلٹی کے خلاف سوشل میڈیا مہمات، یونیورسٹی صدور کی برطرفی اور فلسطین کی حمایت کرنے والے طلبہ گروہوں کی معطلی شامل ہے۔

کریک ڈاؤن سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کس طرح پرامن مظاہروں کو بھی خلل، نفرت انگیز اور تشدد کا خطرہ قرار دیا جا سکتا ہے طلبہ کی گرفتاری کی تصاویر اور ویڈیوز نسل نو کو متاثر کر رہی ہیں جو ایک اشارہ ہے کہ ایک ایسی نسل جسے معلومات سے عاری اور غیر سیاسی سمجھا جاتا ہے، درحقیقت وہ بھی اب انصاف کے لیے لڑنے کو تیار ہے۔ عالم اسلام خاموش تماشائی ہے پاکستان سے واحد پیغام ایک طلبا تنظیم نے جرمن سفیر کے ’عاصمہ جہانگیر کانفرنس‘ سے جو ”شہری حقوق کے تحفظ“ پر تھی خطاب میں مداخلت کر کے دیا۔

جس پر سفیر صاحب سیخ پا ہو گئے۔ ان مظاہروں کے دباؤ نے نیتن یاہو کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا ”امریکا کے کیمپسوں میں جو ہو رہا ہے وہ خوفناک ہے! یہود مخالف جتھوں نے بڑی یونیورسٹیوں میں ڈیرے جما لیے ہیں۔ وہ اسرائیل کی تباہی کے لیے پکار رہے ہیں۔ اب اہم ترین یہ ہے کہ وہ سب جو ہماری تہذیب اور اقدار کو عزیز رکھتے ہیں، اٹھ کھڑے ہوں اور کہہ دیں کہ بس کر دو بہت ہو چکا۔ قتل و غارت گری کو تہذیب کہنا واضح کرتا ہے کہ نیتن یاہو اور صیہونیت جہالت کا نام ہے۔ اور حالات یہ اشارہ کر رہے ہیں کہ بہت جلد مکافات کی چلے گی اور:

شکست جہل کو ہو گی شعور جیتے گا

اب دیکھنا یہ ہے کہ طلبہ کی مزاحمتی تحریک امریکہ کی عالمی سامراجیت کے تصور اور ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے مفادات کے تحت چلنے والی امریکی خارجہ پالیسیوں میں کس قد ر تبدیلی لا سکتی ہے۔

مئی 1970 میں کینٹ اسٹیٹ یونیورسٹی کے چار طلبا کی ہلاکت نے ویت نام جنگ کے احتجاجی تحریک کو پورے امریکہ میں بھڑکانے میں اہم کردار انجام دیا تھا۔ اس مرتبہ جانی نقصان کے بغیر محدود کارروائی کے نتائج آئندہ چند دنوں میں سامنے آ جائیں گے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ اسرائیلی حرکتوں کے خلاف عوامی بیزاری کی نے اب بڑھنا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments