لندن میں حالیہ دہشت گردی!


لندن دنیا کا خوبصورت ترین شہر ہے۔ تاریخ کو اپنے سینے میں سموئے ہوئے ایک ایسا شہر جہاں ہر گلی اورمحلے میں صدیوں کے قصے آنکھ موندے سو رہے ہیں۔ ہرسال کروڑوں لوگ ذاتی، سرکاری کام یا چھٹیاں گزارنے کے لیے وہاں جاتے ہیں۔ یہ شہرپورا برس سیاحوں سے بھرا ہوتا ہے۔ تمام عجائب گھر، لائبریریاں، کیفے، آرٹ گھر، پب اور سڑکیں دنیا کے ہرملک کے باشندوں کوخوش آمدید کہتے ہیں۔

لندن خوبصورت ترین شہراس لیے نہیں ہے کہ وہاں دنیا کی بہترین عمارتیں اورباغات ہیں۔ اس کی اصل خوبصورتی وہ نظام ہے جس کے تحت یہ شہریا پورا برطانیہ سانس لے رہا ہے۔ اگر دنیا میں حقیقی طور پر کہیں جمہوری رویے ہیں تو یہی ملک ہے۔ کہیں، غیرمتعصب طریقے سے ترقی کرنے کے مواقع ہیں، تووہ یہی شہر ہے۔ برطانیہ مکمل طور پر ایک فلاحی ریاست ہے جہاں وزیراعظم اورعام آدمی کے حقوق میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں۔

یہ بھی درست ہے کہ وہاں اپنی نوعیت کے مسائل اورجرائم موجود ہیں۔ مگرمجموعی طور پر یہ ایک پُرامن شہر ہے۔ فکری، سماجی اورمذہبی آزادی کو ریاستی امورکاحصہ بنانے میں برطانیہ تمام قوموں سے آگے ہے۔ یہ نہیں کہ ان جیسے ممالک نے دنیا کے کمزورقوموں پرظلم یا زیادتیاں نہیں کیں، بالکل کی ہیں۔ مگرپچھلے دو سو سال میں برطانیہ اور چند مغربی ممالک نے اپنے نظام کوانسانی نفسیات کو مطمئن کرنے کے بنیاد پر تشکیل دیا ہے۔ آپ جو مرضی کرنا چاہیں، کسی کونقصان پہنچائے بغیر کر سکتے ہیں۔ جب تک آپ کی وجہ سے کسی کوکوئی مسئلہ نہیں، آپ آزاد ہیں۔

مقصد لندن کے لیے کوئی قصیدہ لکھنا نہیں ہے۔ مقصد بالکل سادہ سا ہے۔ ایک دن پہلے لندن برج پر تین دہشت گردوں نے اپنی ویگن سے متعدد لوگ کچل ڈالے۔ پل سے اُتر کرعام لوگوں پر چاقوؤں سے حملہ کر دیا۔ چھ بندے بے موت مارے گئے۔ ٹھیک آٹھ منٹ میں پولیس نے ان تینوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا۔ جس وقت میں کالم ضبط تحریر کر رہا ہوں، لندن پولیس نے اعلان نہیں کیا کہ تینوں دہشت گرد کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دعا ہے کہ ان کا تعلق کسی بھی طریقے سے ہمارے خطے سے نہ ہو۔ تمنا ہے کہ ان کا تعلق کسی بھی مسلمان ملک سے نہ ہو۔ مانچسٹرکی طرح یہ لیبیا نژاد نوجوان بھی نہ ہو۔

لندن میں انتہائی مختصرعرصے میں یہ ہولناک دہشت گردی کی دوسری واردات ہے۔ چند ہفتے قبل، مانچسٹرمیں ایک میوزک کنسرٹ کے دوران ایک دھماکا ہوا۔ درجنوں لوگ مارے گئے۔ سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ اوراب لندن برج پریہ حادثہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے فرانس، ہالینڈ اور کئی یورپی ملکوں میں دہشت گردی کے متعدد واقعات ہو چکے ہیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ان میں مسلمان نوجوان ملوث نکلے۔ یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے اوراب شدت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ۔ ایک کالم میں موضوع کو سمیٹنا ناممکن ہے مگرچند سنجیدہ نکات پیش کیے جا سکتے ہیں۔

سائنس اورجدیدعلوم سے مسلمانوں کا گہرا ربط تھا۔ گیارہ سے بارہ صدیاں پہلے مسلمان معاشرے وہ سماج تھے جہاں نئی چیز سوچنے پرکسی قسم کی پابندی نہیں تھی۔ سائنسدان، محقق، تاریخ دان، علماء اورہرموضوع پراہل فکراور اہل نظرصرف اور صرف ہم لوگوں میں ہی تھے۔ وجہ وہ فکری آزادی تھی جو صرف اور صرف مسلمان ریاستوں میں میسر تھی۔ یہ صورتحال سات سوقبل تک جاری وساری رہی۔ اہم ترین بات یہ بھی ہے کہ دنیا کے دیگرممالک اس زمانے میں ذہنی آزادی کے مکمل طور پر خلاف تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب وہاں پوپ کے حکم سے بادشاہ بنتے تھے۔

پادری کے حکم سے نیلی آنکھوں والی خواتین کو جادوگرنی قرار دے کر زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ یعنی اس وقت مغرب میں کسی قسم کی کوئی مذہبی یا فکری آزادی کا تصور موجود نہیں تھا۔ یہ سلسلہ سات آٹھ سو سال پہلے ختم ہو گیا۔ مسلمان معاشروں میں تقلید، قدامت پسندی اورجدیدعلوم سے لاتعلقی کا رجحان پیدا ہوگیا۔ نتیجہ میں تمام مسلمان ریاستیں کسی نہ کسی طرح مغلوب ہوگئیں۔ وہی جہالت جو مغرب کا طرہِ امتیازتھی، تیزی سے مسلم معاشروں میں سرایت کر گئی۔ جدیدعلوم سے کافی حد تک کنارہ کشی آج بھی مسلمان معاشروں میں کسی نہ کسی صورت میں موجودہے۔

اس اثناء میں یورپ میںRenaissanceشروع ہوگئی۔ اس فکری انقلاب نے صنعتی انقلاب کوجنم دیا۔ یورپ ایجادات، رویوں اورعلمی تحقیق میں اسی ڈگر پر چل پڑا، جس راستے پر مسلم معاشرے چل رہے تھے۔ فکری، علمی اور سائنسی بالادستی نے مغرب کو پوری دنیا کی حکومت عطا کر دی۔ یعنی وہ حیثیت جو پہلے مسلمانوں کو حاصل تھی، بعینہ وہی کلیدی حیثیت یورپ کو حاصل ہو گئی۔ مسلم ریاستیں اس بالادستی کو ذہنی طور پر قبول نہ کر پائیں۔ غلام یا نیم غلام مسلم معاشروں میں مغرب سے نفرت کی ذہنی جہت آگے بڑھنے لگی۔ اس کو مہمیز ہمارے اس دینی طبقہ نے دی جو مسلمانوں کے عروج میں اس اہمیت کا مالک نہیں تھا، جواسے مغلوب ریاستوں میں ایک دم حاصل ہو گیا۔

یہ معاملہ آج تک جاری ہے۔ برصغیرمیں اسی ذہنی جمودنے مسلمانوں کومکمل طورپرتباہ کردیا۔ بادشاہت توخیرچلی ہی گئی۔ مگرمستقبل میں کیا کرنا چاہیے اس پر جدید رائے دینے والا کوئی نہ تھا۔ سر سید وہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے جمود کو توڑنے کی علمی جدوجہدکی۔ برصغیرمیں وہ ایک علمی انقلاب کے بانی بنے۔ انھیں ہمارے قدامت پسندحلقوں نے بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ مگرعلی گڑھ کالج اوریونیورسٹی وہ پہلی درسگاہ تھی جس میں برصغیرکے مسلمانوں لڑکے اورلڑکیوں کوجدید مغربی علوم سیکھنے کاموقعہ ملا۔ اس سے پہلے تعلیم بہت محدود نوعیت کی تھی اوراس پرایک خاص چھاپ موجودتھی۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی عارنہیں کہ اگرعلی گڑھ کاعظیم تعلیمی ادارہ نہ ہوتا، تو پاکستان جیساعظیم ملک وجودمیں نہیں آسکتا تھا۔ اس کا ایک اورفائدہ یہ ہوا، کہ برصغیرکے مسلمانوں میں جدید اور قدیم رائے والے لوگوں نے توازن کے ساتھ زندہ رہناسیکھ لیا۔ شروع کاپاکستان اسی توازن کی بہترین مثال تھا۔ لیکن تمام مسلم معاشرے ہمارے ماضی جیسے خوش قسمت نہیں تھے۔ جب دنیاکی مقتدرطاقتوں نے محسوس کیاکہ پاکستان عالم اسلام کے لیے جدیدفکری رہنمائی کرسکتاہے توایک خاص طریقے سے ملک کوخانہ جنگی، افغان جہاداورفکری زوال میں مبتلاکردیاگیا۔ یہ معاملہ آج تک جاری ہے۔

بھول جائیے کہ ہمارے معاشرے کوکس نے برباد کیا۔ مگرحقیقت تواپنی جگہ قائم ہے کہ ہم اپنی مرضی سے بربادی اورتقلیدکے اس راستے پرگامزن ہوگئے جس میں نئی بات کہنے کوجرم قراردیدیاگیا۔ ہمارے خطے میں مجاہدین، جہادی، طالبان اورالقائدہ کے بیج بوئے گئے جوآج پوری دنیامیں پھیل چکے ہیں۔ کسی حدتک ملایشیا، متحدہ عرب امارات، مراکش اورگنتی کے چندمسلم ممالک میں جہاں دین اوردنیامیں توازن پیداکرنے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔

اکثریت مسلم ریاستیں سنجیدگی سے مسئلہ کاادراک ہی نہ کر پائیں۔ ان کے نوجوان طبقے میں ناانصافی، بیروزگاری، جہالت اورغربت کی وجہ سے آج دہشت گردی کی فصل پوری دنیامیں پھل پھول رہی ہے۔ مغرب ابھی تک معاملہ کی تہہ تک نہیں پہنچ پایا۔ یاشائدچندمجبوریوں کی بدولت وہاں کی حکومتیں کھل کربات نہیں کررہیں ۔ مگرایک نیامغربی استدلال جنم لے رہاہے۔ یہ استدلال انتہائی سادہ سا لگتا ہے۔

مغربی اہل فکرسوال پوچھ رہے ہیں کہ اگراسلام کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے، توتمام دہشت گرد صرف مسلمان ہی کیوں ہیں۔ نتیجہ یہ کہ مغربی ممالک میں سخت گیرقوم پرست تحریکیں جنم لے رہی ہیں۔ ابھی تک تمام مسلمان دنیا اس بات کاادراک ہی نہیں کہ فرانس، برطانیہ، ہالینڈ، ڈنمارک اوراس جیسے کئی ممالک میں قومی حالات کس قدرسخت گیر ہوچکے ہیں۔ وہاں رہنے والے مسلمان اندرونی خوف کاشکارہیں۔ جیسے ہی دہشت گردی کی کوئی نئی واردات ہوتی ہے، ان کا خوف مزید جڑپکڑ جاتاہے۔

اب صورتحال مزیدمشکل ہوتی جارہی ہے۔ مسلمان دنیاکے نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کومغربی ممالک کے ویزے ملنے مشکل ہوچکے ہیں۔ تکلیف دہ اَمر یہ ہے کہ مغربی ممالک میں مسلمان کسی طریقے سے بھی مقامی معاشروں میں توازن سے ضم نہیں ہوپائے۔ پچاس برس پہلے امریکا، لندن، آسٹریلیااورمغربی ممالک میں جانے والے لوگ کسی اورسوچ کے حامل تھے۔ مگروہاں آج کی نوجوان نسل ایک شدیدذہنی تشنج کاشکارہوچکی ہے۔ گھرآتے ہیں تومعاملات اور ہیں۔ باہرجاتے ہیں توسماجی رویے بالکل متضاد ہیں۔ اس ذہنی کشمکش کاشکارنوجوان تعلیم سے بھی دورہوتے جا رہے ہیں اوربڑی آسانی سے شدت پسندوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جوانھیں دہشتگردی کی طرف مائل کرلیتے ہیں۔

لندن اورمانچسٹرکے حالیہ واقعات کے بعد صورت حال تیزی سے تبدیل ہوگی۔ مسلمان مخالف جذبات شدت سے ابھریںگے۔ وہ تمام ملک جن میں ترقی کرنے کے برابرمواقع موجودہیں، آہستہ آہستہ مسلمان نوجوان لڑکے اورلڑکیوں کے لیے دروازے بند کرتے چلے جائینگے۔ امریکا اوربرطانیہ میں ہمارے مزدورگئے تھے۔ محنت، مشقت بلکہ ریاضت سے انھوں نے اپنی آنے والی نسلوں کوترقی کے راستے دکھائے۔ جواب دیجیے، کیالندن کامیئرصادق خان، ہمارے جیسے ملکوں میں کوئی بااثرعہدہ حاصل کر سکتا ہے۔ کیا بیرنس سیدہ وارثی اپنی محنت سے پاکستان میں اتنی ترقی کرسکتی تھی۔ دلیل پرجواب نفی میں ہے۔ ہمارے جیسے ممالک میں توغریب یامتوسط طبقے کاکوئی انسان مثالی ترقی کرہی نہیں سکتا۔ مغرب میں مسلمانوں کے لیے ترقی کے دروازے بندہوتے نظر آرہے ہیں۔ اس کے ذمے دارکون لوگ ہیں، اسکاجواب ہمیں اپنے اندرتلاش کرناچاہیے۔ شائدہم سچ تک پہنچ پائیں؟

بشکریہ ڈیلی ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).