حکایت ِ جنوں


اس کائنات کے اندر جتنی بھی انواع و اقسام کی مخلوقات بستی ہیں، ان میں انسان کو یک گونہ فضیلت اور شرف حاصل ہے کہ جس کے سبب وہ اشرف ا لمخلوقات کہلوائے جانے کے قابل ٹھہرا۔ یہ رتبہ جس صفت کی بدولت حاصل ہواس کی بناء دو چیزیں ہیں اعنی عقل جو پیدائشی ودیعت کی گئی اور دوسرا حصول ِ علم۔ ہم بنظر ِ غائر عقل اور علم کو باہم ایسے مربوط دیکھتے ہیں، کہ ان کے درمیان تمیز کرنا ممکن نہیں رہتا۔ مگر یہاں جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ ان دونوں کے تعلق مابین کا ہے، کہ آیا واقعی ان کے درمیان بالکلیہ ربط اور ملازمت کا علاقہ پایا جا تا ہے یا نہیں؟

عقل جہاں فطرت ِ انسانی کی تکمیل کا ایک اہم ذریعہ ہے، وہیں حصول علم میں ممد ومعاون بھی ہے۔ لیکن یہ عقل انسان کو کس قسم کے حصول علم کی راہ پہ لگاتی ہے یہ سوال محل نظر ہے۔ اگر ہم سادہ الفاظ میں بس اتنا کہہ دیں کہ جو بھی عقل سے بہرہ ور اور فیضیاب ہے، وہ صاحب ِ علم بھی ہے تو ایک لحاظ سے ہم غلط سوچ رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ہمارے آج کے دور میں موجود بڑے بڑے اور اہم مسائل کا ہونا ہے، جن میں ام المسائل مفلسی اور طبقاتی تقسیم ہے۔

اس بات کے ماننے میں کوئی تامل ہر گز نہیں ہے کہ یہ مسائل ہر دور کے اندر رہے ہیں، تاہم ہماری ہی نظر میں وہ وقت جہالت اور اندھی تقلید کا تھا لہذا ان تمام مسائل کی جڑ انہی کو گردانا جاتا تھا۔ تاہم جائے غور ہے کہ آج جس دور کے اندر جہاں ہم رہ رہے ہیں، اس کو جدیدیت اور روشن خیالی کا نام جبکہ دیا جاتا ہے تو پھر ان مسائل کا موجود ہونا ہمارے ہی اوپر ایک سوالیہ نشان ہے کہ آخر اتنے جدید، ترقی یافتہ اور علمی دور کے اندر وہ مسائل جو ماضی قریب تک اس قدر بھیانک صورت میں موجود نہ تھے، آج اژدھا کی مانند اس قدر خوفناک صورت کیوں اختیار کر چکے ہیں کہ جہاں ان کا حل قرین قریب ناممکن نہ سہی مگر مشکل ضرور نظر آتا ہے۔ اس پہ مستزاد معاشرے میں موجود ایک طبقہ ان کا حل صرف ظہور مہدی و عیسی کی شکل میں ہی مانتا ہے کہ یہ دو ہستیاں ہی ہمیں ان مسائل سے چھٹکارا دلائیں تو دلائیں ورنہ اور کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

آخر کیا وجہ ہے کہ جس دور کو ہم دور ِ جہالت کے نام سے تعبیر کرتے ہیں، اس دور کا انسان ہمیں آج کے دور کے انسان سے قدرے بہتر زندگی گزارتے نظر آتا ہے۔ دور نہ جائیے برصغیر کے اندر مغلیہ سلطنت کو ہم جو مرضی کہہ لیں، مگر کیا یہ بات کم ہے کہ پورے مغلیہ دور کے اندر ہمیں نہ تو قحط کا کوئی ذکر ملتا ہے، نہ اتنی بڑی جہالت کا کہ جہاں عوام سرے سے پڑھنے اور لکھنے سے ہی نا آشنا ہوں۔ اس کے برعکس سلطنت ِ برطانیہ کی حکومت یہاں قائم ہوئی تو محض نوے برس کے اندر دو مرتبہ قحط پڑا اور اس شدت کے ساتھ، کہ وہ برصغیر جو دنیا کے اندر اپنی زراعت، چار موسموں اور زرخیزی کے باعث مشہور تھا، وہاں اتنی بڑی تعداد میں عوام محض بھوک کی وجہ سے اذیت ناک موت مر گئے، اور وہ سرکار برطانیہ جس کے نظم کا شہرہ چار عالم میں مقبول تھا وہ کچھ نہ کر سکی۔

حالانکہ ہمارے ہی دانشوران کے نزدیک مغل جاہل، قابض اور خون کی ہولی کھیلنے کے عادی تھے، مگر تاج ِ برطانیہ کے سول سرونٹ تو ان تمام برائیوں سے پاک تھے، آکسفورڈ اور کیمبرج جیسی اعلی درسگاہوں کے فارغ التحصیل تھے لہذا ان کی آمد کا بجائے ہندوستان پہ مثبت اثر پڑتا، اس کے برعکس ہندوستان کی حالت اس قدر بری ہوگئی کہ یہاں کی عوام درجہ انسانیت سے ہی گر گئی۔ تاج ِ برطانیہ کے آنے سے پہلے ہمیں ہندوستان کے اندر لسانی اور مذہبی تفرقے کا کہیں قابل ِ ذکر نام نہیں ملتا کہ جہاں ایک ہی شہر کے باسیوں نے ایک دوسرے پہ تلواریں سونتی ہوں، مگر جب پانسہ پلٹتا ہے اور اپنے زعم میں دنیا کے سب سے اعلی درجہ کے منتظم حکمران یہاں کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں، تو امن و محبت والا یہ خطہ خون کی ندیوں میں ڈوب جاتا ہے اور کوئی اس کے آگے بند باندھنے کی جرات تک نہیں کر سکتا۔

مغلیہ دور کے زوال تک کوئی یہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ کبھی یہاں انصاف بھی پیسوں کے عوض خریدا گیا ہو یا مظلوم محض پیسے نہ ہونے کے سبب انصاف ملنے سے محروم رہ گیا ہو۔ سرکار کی نظر میں رعایا کے ساتھ منصفانہ سلوک ان کا امتیاز رہا ہے اور اس باب میں کوئی متعصب سے متعصب شخص بھی ان کے اوپر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ مگر جب نام نہاد دور جدید کا انقلاب آتا ہے تو اس کے عدالتی نظام اور اس سے جڑے نظام انصاف کے اثرات آج ستر برس کے بعد تک ہم دیکھتے آرہے ہیں، کہ جہاں مظلوم کو آواز اٹھانے کے سبب پابند ِ سلاسل رکھا جاتا ہے اور ہماری اعلی عدلیہ کو اس وقت کی خبر ہوتی ہے کہ جب وہ اپنی بے گناہی کی قید کاٹ کر مالک ِ حقیقی سے جا ملتا ہے۔ کیا ہم کسی بھی حوالے سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ دور واقعی جدت پسندی کا ہے، کہ جہاں مظلوم انصاف کے لئے دربدر بھیک مانگے مگر انصاف نہ ملے اور وہ جو تجوریوں کے منہ کھول دے وہ معزز، شریف اور بے گناہ گردانا جائے۔

تاہم تاریخ کو سمجھنے، پرکھنے اور اس کی روشنی میں نتائج اخذ کرنے کے واسطے جن علوم کی ضرورت ہے، وہ کب سے متبذل سمجھ کر ہم طاق ِ نسیاں میں ڈال چکے۔ وہ علوم کہ جو عقل و شعور کو جلا بخشیں اور جو انسانی سوچ کی درست سمت میں آبیاری کے واسطے ممد و معاون تھے، ان کا آج ہماری درسگاہوں میں نام و نشان تک مٹ چکا۔ کیونکہ یہ بات سچ ہے کہ ہم جذباتی قوم ہونے کے کارن کسی بھی واقعے کی صحت اور اس کے اصل نتائج تک نہیں پہنچ پاتے، بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ہم تاریخ کو اپنے نقطہ نظر اور زاویے سے پڑھتے اور پھر اس سے نتائج اخذ کرتے ہیں۔

اور ظاہر ہے ایسی صورت میں سچ بھلا کہاں نکھر کر سامنے آسکتا ہے؟ لہذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم صحیح عقلی اور علمی بنیادوں پر اپنی تاریخ کا از سر نو جائزہ لیں، کیونکہ یہی وہ صفات ہیں جو انسان کو درجہ حیوانیت سے ممتاز کر کے اسے آدمیت کی صف میں لا کھڑا کرتی ہیں۔ آج ہمارے پاس معلومات کا سمندر ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے تمام دنیا کے انسانوں کے ساتھ رابطے ہیں، تبادلہ خیالات کے انتہائی وسیع مواقع ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہم آج تک اپنی اس جذباتی روش کے ساتھ سوچنے کے عمل سے باہر نہ نکل سکے، اور اس کا نتیجہ غلطی در غلطی کی صورت میں نکل رہا ہے۔ اور غور و غوص اور تدبر کے ساتھ اپنی خود احتسابی کا عمل شروع کریں، کہ ہم سے کہاں کہاں اور کیا کیا وہ غلطیاں سرزد ہوئیں کہ جس کے سبب آج ہم اس موڑ پہ آن کھڑے ہوئے کہ جہاں درست سمت کی جانب راہنمائی کا ملنا دشوار ہوچکا۔

ہم آج بھی تاریخ کا مطالعہ تعصب کی عینک اتار کر اور عقلی پیمانے کے ساتھ کریں، تو ہمیں یہ بات ماننی پڑے گی کہ آج کا دور انسانیت پہ جس قدر مشکل ہے ویسا پہلے کبھی نہ تھا۔ زمانہ قدیم کی ایک رسم غلامی جو اس دور ِ جدید میں نہایت بری سمجھی جاتی ہے وہ موجود تو تھی مگر کیا آج کا انسان آزاد ہے؟ آج کے انسان کو ذہنی اور جسمانی سکون میسر ہے؟ دور جدید میں جو طبقاتی نظام جس کی جڑیں اس قدر گہری ہوچکیں، کیا اس کی حالت ماضی قریب تک ایسے ہی تھی؟

کیا آج کا دور خود غرضی اور نفسا نفسی کا نہیں ہے؟ کیا آج کے دور میں جتنا معاشی استحصال کیا جارہا ہے، اس کی کوئی مثال ماضی میں موجود ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ آج کے دور کا انسان خواندہ ہونے کے باوجود ناخواندہ اور عقل و شعور سے بے بہرہ ہے؟ کسی اور کو جانے دیجئے ہم میں سے کتنے ہیں کہ جن کو برصغیر کی اصل تاریخ اور اپنے قومی ہیروز کا پتہ ہے؟ یہاں جو سرکار کی بارگاہ میں شرف َ حاضری سے بازیاب ہوا اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے گئے اور وہ تعریف و تحسین کے قابل ٹھہرا۔

چنانچہ آج کے دور کو ہم اس لحاظ سے جدید قرار دیں کہ معلومات تک رسائی آسان ہے تو فبہا ورنہ اہل عقل و دانش میری بات پہ حرف صاد کہیں گے کہ یہ دور علمی اور عقلی ہر لحاظ سے تنزلی کا دور ہے۔ اگر یہاں علم و عقل کا دور دورہ ہوتا تو یہ بات بدیہی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانیت کے دکھ اور مصائب میں کمی آتی مگر ایسا کچھ نہیں ہے، اور آج معاشرے کا ایک بڑا طبقہ مایوسی کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں جا چکا کہ ان مسائل کا حل ہماری زندگی میں تو ناممکن ہے، شاید ہمارے آنے والی نسلیں کچھ سکھ کا سانس لیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ آنے والی نسلوں کو ہم کن کے ہاتھوں میں سپرد کر کے جا رہے ہیں۔ وہ جو صریح جھوٹ بولتے ہوئے عراق پہ بمباری کریں، وہ جو القاعد ہ اور داعش جیسی جماعتوں کی سرپرستی فرمائیں، وہ جو ویت نام کی شکست کا بدلہ افغانستان میں لینے کی خاطر پورے ملک کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر دیں۔ وہ کہ جو جمہوریت کا آلاپ راگتے ہوئے آمریت کو تقویت دیں اور ان کے پشت پناہ ثابت ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).