پنجاب کی تباہی میں خالصہ فوج کا کردار (دوسرا حصہ)


سندھاوالیوں کا ارادہ ہیرا سنگھ اور سچیت سنگھ کو بھی مارنے کا تھا۔ وہ دونوں اس وقت فوجی چھاؤنی میں تھے۔ لہنا سنگھ نے ’بدھو کے آوے‘ مصر لال سنگھ کو لکھا کہ وہ سچیت سنگھ اور ہیرا سنگھ کو قلعے میں لے آئے۔

مصر لال سنگھ نے دونوں ڈوگروں سے کہا کہ راجا دھیان سنگھ نے آپ دونوں کو ایک خاص مشورے کے لیے قلعے میں بلایا ہے۔

پنڈت جلّے نے جواب دیا کہ راجا دھیان سنگھ کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی چٹھی جب تک نہیں آ جاتی وہ نہیں جائیں گے۔ اس طرح سندھاوالیوں کی یہ سکیم مکمل نہ ہو سکی۔

ادھر قلعے میں دلیپ سنگھ کے مہاراجا اور لہنا سنگھ کے وزیر ہونے کا اعلان کر دیا گیا۔ گیانی گرمکھ سنگھ نے لہنا سنگھ سے کہا کہ مہاراجا دلیپ سنگھ کو ہاتھی پہ بٹھا کر چھاؤنی میں فوج کے پاس لے چلنا چاہیے اور انعام دے کر خالصہ فوج کو اپنے بس میں کر لینا چاہیے۔

لیکن لہنا سنگھ نے کہا کہ ہم نے یہ مہم فوج کے بغیر ہی سر کر لی ہے۔ وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

جب ہیرا سنگھ کو یہ معلوم ہوا تو اس نے فوجی چھاؤنی ’بدھو کے آوے‘ میں فوج کے سامنے تقریر کی اور کہا کہ پنجاب کی آزادی اور خالصتانی شان بچانے کے لیے میرا ساتھ دو، میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ سندھاوالیوں کو مارنے کے بدلے انعام دیا جائے گا اور تنخواھ میں اضافہ بھی ہو گا۔

خالصہ فوج تیار ہو گئی اور ہیرا سنگھ نے 40 ہزار سے زائد فوج اور 100 توپوں کی مدد سے لاہور قلعے پر حملہ کیا۔ ساری رات توپیں قلعے پر آگ برساتی رہیں۔ لہنا سنگھ اور اجیت سنگھ اس لڑائی میں مارے گئے۔

اگلے دن سندھاوالیوں کا خاتمہ کر کے ہیرا سنگھ قلعے میں داخل ہوا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے سب سے چھوٹے بیٹے دلیپ سنگھ کو چھے سال کی عمر میں 17 ستمبر 1843 کو تخت پر بٹھایا، دلیپ سنگھ کی ماں مہارانی جِند کور کو ’ریجنٹ‘ بنایا اور خود وزیر بن گیا۔ اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے فوج کو انعام دیا اور تنخواہ میں اضافہ کیا۔

مہاراجا رنجیت سنگھ کے دیگر دو بیٹے، کنور کشمیرا سنگھ اور کنور پشورا سنگھ کو سیالکوٹ میں ایک لاکھ سالانہ کی جاگیر ملی ہوئی تھی۔ انھوں نے وہاں بلوا کر دیا۔ جس پر گلاب سنگھ نے قابو پا لیا۔

اب مہارانی جند کور کا بھائی جواہر سنگھ، ہیرا سنگھ کے دل میں کانٹے کی طرح چھبنے لگا۔

جواہر سنگھ کو بھی پسند نہیں تھا کہ اس کی خواہش کے علی الرغم ہیرا سنگھ وزیر بن جائے۔

ہیرا سنگھ نے وہی پرانا ہتھیار، یعنی مخالف کو بدنام کرو، استعمال کیا۔ اس نے فوجوں میں یہ بات پھیلائی کہ جواہر سنگھ، مہاراجا دلیپ سنگھ کو انگریزوں کے حوالے کر کے بیچنا چاہتا ہے۔

دوسری طرف جواہر سنگھ نے فوجی پنچوں کے وسیلے سے طاقت حاصل کرنا چاہی۔ لیکن یہ چال الٹی پڑ گئی۔

ایک دن وہ مہاراجا دلیپ سنگھ کو ساتھ لے کر فوج کے پاس گیا اور کہا: ”راجا ہیرا سنگھ، مہارانی جند کور اور مہاراجا دلیپ سنگھ کو روز بروز ستانے لگا ہے۔ اگر آپ نے اس کے خلاف ہماری مدد نہ کی تو میں اپنے بھانجے (مہاراجا دلیپ سنگھ) کو ساتھ لے کر انگریزی علاقے میں چلا جاؤں گا۔ “

اس کے منہ سے انگریزوں کا نام سن کر خالصہ فوج غصے سے بھڑک اٹھی اور جواہر سنگھ کو گرفتار کر کے ہیرا سنگھ کے حوالے کر دیا۔

سارے پنجاب کی سکھ فوجوں میں اس وقت انگریزوں کے خلاف خوب جوش پھیل رہا تھا۔ چرچا یہ تھی کہ انگریز اب کسی نہ کسی دن پنجاب پر حملہ کر دیں گے۔ اس وجہ سے سکھ اور انگریز ایک دوسرے سے دور ہونے لگے۔ جس پر بھی انگریزوں کا یار ہونے کا شک پڑتا وہ خالصہ فوج کے غصے کا شکار ہو جاتا۔ ڈوگرے جس کسی کو برباد کرنا چاہتے اس پر ’انگریزوں کے ساتھ ملے ہونے ”کی کہانی گھڑتے اور یوں اپنے راستے کا کاٹنا بآسانی دور کر لیتے۔

راجا ’سچیت سنگھ‘ ڈوگرا دھیان سنگھ کا چھوٹا بھائی تھا۔ ہیرا سنگھ نے اس پر سے بھی اپنا ہاتھ نہ روکا۔ اس کی دونوں ڈوگرا پلٹنوں سے ہتھیار چھین کر اس سمیت قلعے سے نکال دیا۔ یہ دیکھ کر سچیت سنگھ ہیرا سنگھ سے مقابلہ کرنے کی تیاری کرنے لگا۔ لیکن گلاب سنگھ اسے سمجھا بجھا کر اپنے ساتھ جموں لے گیا۔

کنور کشمیرا سنگھ اور کنور پشورا سنگھ نے اپنے علاقے میں ایک بار پھر بلوا کر دیا۔

ہیرا سنگھ کے حکم سے راجا گلاب سنگھ نے دونوں کو سیالکوٹ میں گھیر لیا۔ جب کشمیرا سنگھ اور پشورا سنگھ نے صلح کے لیے درخواست کی تو گلاب سنگھ نے 50 لاکھ روپے جرمانے کے طور پر مانگے۔ اس ساری بات کا لاہور میں خالصہ فوج کو پتا چلا۔ فوج نے یہ سمجھ کر کہ ڈوگرے شیرِ پنجاب (مہاراجا رنجیت سنگھ) کے دونوں بیٹوں کو مارنا چاہتے ہیں، ہیرا سنگھ کے گھر کو گھیر لیا۔ آخر ہیرا سنگھ نے یہ شرائط طے کر کے صلح کی کہ:

• کنور کشمیرا سنگھ اور کنور پشورا سنگھ کو کوئی دکھ نہیں پہنچایا جائے گا۔

• یہ کہ جواہر سنگھ کو رہا کر دیا جائے گا۔

• یہ کہ جلّا پنڈت راج کے کاموں میں دخل اندازی نہیں کرے گا۔

ہیرا سنگھ کے حکم پہنچنے پر گلاب سنگھ کو سیالکوٹ کا محاصرہ اٹھانا پڑا اور شہزادوں سے بیس ہزار روپے لے کر صلح کر لی۔

راجا سچیت سنگھ اور ہیرا سنگھ کی دشمنی بڑھنے لگی۔

دھیان سنگھ اور گلاب سنگھ کا تیسرا بھائی ’سچیت سنگھ ڈوگرا‘ مہارانی جند کور اور جواہر سنگھ کے رسوخ کی مدد سے فوج میں اپنا میل جول بڑھانے لگا۔ کچھ ’فوجی پنچ‘ اس پر آمادہ ہونے لگے کہ اگر خود مہارانی جند کور سچیت سنگھ کو وزیر بنانے پر راضی ہو تو وہ اس کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

چنانچہ سچیت سنگھ اپنے دو وکیلوں اور 40 سواروں کو ساتھ لے کر جموں سے شاہدرہ پہنچا۔

جب وزیر ہیرا سنگھ کو یہ معلوم ہوا تو وہ ’بدھو کا آوا‘ چھاؤنی خالصہ فوج کے پاس پہنچا اور پلٹنوں کے سرداروں بلا کر کہنے لگا: ”خالصہ جی! آپ نے ہی مجھے وزیر بنایا اور آپ ہی مجھے مروانا چاہتے ہیں؟ جس سچیت سنگھ کے ہاتھوں چڑھ کر آپ میرے دشمن ہو گئے ہیں، وہ انگریزوں کا پکا دوست ہے۔ اس بات کا ثبوت وہ 18 لاکھ روپے ہیں جو فیروز پور انگریزی بینک میں رکھے ہوئے ہیں۔ میری اور اس کی دشمنی اسی بات پر ہے کہ میں اسے گرو پنتھ سے غداری کرنے سے روکتا ہوں۔ سو خالصہ جی! اگر آپ مجھے مارنا ہی چاہتے ہیں تو یہ میری تلوار حاضر ہے۔ اپنے ہاتھ سے میرا سر قلم کر دیجیئے“۔

اس تقریر کا فوج پر گہرا اثر پڑا۔ اگلے دن 27 مارچ 1844 کو ہیرا سنگھ 15 ہزار فوج لے کر شاہدرہ پہنچا۔ سچیت سنگھ اس لڑائی میں مارا گیا۔

اس مہم سے فارغ ہو کر ہیرا سنگھ نے دل کھول کر انعام دیے۔

جلد ہی ہیرا سنگھ اور اس کا صلاح کار ’جلّا پنڈت‘ ایک بار پھر اپنی من مانیاں کرنے لگے۔

ہیرا سنگھ کی سازشیں بڑھنے لگیں۔ اس نے ’سپاہی‘ سے ’سنت‘ بنے ’بابا بیر سنگھ دے‘ خلاف بھی کارروائیاں شروع کر دیں۔

بابا بیر سنگھ نے اپنا ڈیرہ امرتسر شہر کے جھمیلوں سے دور ایک گاؤں نورنگ آباد میں لگایا ہوا تھا۔ وہ رنجیت سنگھ کے راج کے سچے خیرخواہ تھے۔ درباریوں کی آپسی دشمنی سے بہت دکھی تھے۔ ان کے نجی (نجی فوج) اثرورسوخ نے ہیرا سنگھ کو بہت پریشان کیا ہوا تھا۔ جہاں کنور کشمیرا سنگھ، کنور کشمیرا سنگھ اور عطر سنگھ سندھاوالیا نے پناہ بھی لی رکھی تھی۔ نورنگ آباد میں موجود قلعے پر حملہ کرنے کے لیے ہیرا سنگھ نے فوجیں بھیجں۔ ’بابا بیر سنگھ‘ ، کنور کشمیرا سنگھ اور عطر سنگھ سندھاوالیا ڈوگرا فوج کے ہاتھوں اس لڑائی میں مارے گئے۔

کنور کشمیرا سنگھ کے قتل ہونے کا غصہ ابھی خالصہ فوج کے دل سے نہیں گیا کہ ہیرا سنگھ کے چہیتے ’پنڈت جلّا‘ نے مہارانی جند کور کو زہر دینے کی کوشش، جو کامیاب نہ ہو سکی۔

خالصہ فوج میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ ہیرا سنگھ کو پیغام بھیجا کہ وہ جلّے پنڈت کو نکال دے اور مہاراجا دلیپ سنگھ اور مہارانی جند کور کے نجی خرچے کے لیے الگ جاگیر مختص کرے۔ ورنہ لڑائی کے لیے تیار ہو جائے۔

وزیر ہیرا سنگھ ڈر گیا۔ چنانچہ راتوں رات اپنے قریبی ساتھیوں اور چار ہزار وفادار سپاہیوں کو ساتھ لیا۔ خزانے سے کئی گڈے سونے اور چاندی کے بھی بھر کے ساتھ رکھ لیے۔ لاہور چھوڑ کر جموں کی طرف بھاگ نکلا۔

اگلے دن فوج کو خبر ہوئی۔ جواہر سنگھ، ’عطر سنگھ کالیاوالا‘ اور ’شام سنگھ اٹاری والا‘ فوجیں لے کر اس کے پیچھے لپکے۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2