ایک مچھر آدمی کو ہیجڑا (کیسے) بنا دیتا ہے


مچھر نے نمرود کو بمع اس کی فوج صرف اساطیر میں ہی تباہ نہیں کیا بلکہ انسانی تاریخ میں مچھروں نے جس قدر تباہی سے دوچار کیا ایسا کو ئی اور جاندار انسانوں کے ساتھ نہ کرسکا۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو تمام تر دانائی اور حکمت کے باوجود انسان بے بسی کے ساتھ آج تک اس زرہ برابر مخلوق کے سامنے تالی ہی بجا تا رہا ہے۔ شاید اس لئے نانا پاٹیکر کا فلمی مکالمہ ضرب المثل بن گیاکہ ”ایک مچھر آدمی کو ہیجڑا بنا دیتا ہے“ ۔

دن کو گرمی ستاتی ہے تو رات کو مچھر بے سکون کر دیتے ہیں۔ دن بھر غائب رہنے کے بعد شام کو گھر کے اندر ایسے گھس جاتے ہیں جیسے لڑکے بالے دن بھر کی آواراہ گردی کے بعد، مجال ہے ان کو کوئی روک پائے۔ دروازے کھڑکیاں بند، اسپرے مار کر جب تمام تدابیر کر ڈالی تو رات کے کسی پہر چادر سے باہر نکلے جسم کے حصے پر ایسا انجکشن لگ جاتا ہے کہ نیند تو گئی ایک طرف باقی رات زخم سہلاتے، کھجاتے، مچھر کو کوستے اور اپنی بے بسی پر ماتم کرتے انکھوں میں کٹ جاتی ہے۔

بہار کی آمد کے ساتھ ہی مچھر بھی کہیں سے نمودار ہوتے ہیں شروع شروع میں بڑے کمزور اور شریف شریف سے ویسے ہی گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں اورکبھی کبھار الٹی ہتھیلی پر بیٹھ بھی جاتے ہیں مگر کاٹا کاٹی نہیں کرتے۔ ایسے میں بندہ سوچتا ہے جب یہ کچھ نہیں کرتے تو ان کے ساتھ مارپیٹ کی کیا ضرورت۔ مگر جیسے ہی گرمی کی شدت، مچھر کی تعداد اور جسامت میں اضافہ ہوتا ہے یہ اپنا رنگ دکھانا شروع ہوجاتے ہیں۔ کسی نے بتایا کہ انسانی خون کی مادہ مچھرکو انڈے دیتے وقت بطور پروٹین ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو آدمی کو ہیجڑا بنانے والی مچھر دراصل مادہ ہے جس کو ہم اس کی صنفی تخصیص کے ساتھ نام بھی نہ دے پائے ہیں۔

ہم بھی مچھروں کا استقبال گرمی کے آغاز سے قبل ہی ہلکا ہلکا پنکھا چلا کر کرتے ہیں یا مچھر مار بھگاؤ بتیاں جلا کر۔ جب پنکھا چلنے لگتا ہے مچھر تو دور چلے جاتے ہیں مگر چادریا رضائی اور قریب آجاتی ہے۔ کبھی موسم زیادہ ٹھنڈا ہو یا ابر و باراں ہو تو نزلہ زکام کی سزا بھی مل جاتی ہے جو قسمت کا دیا سمجھ کر سہہ لیتے ہیں یا مچھروں سے نجات کی قیمت سمجھ کر خاموشی سے چکا لیتے ہیں۔ گرمی میں اضافے کے ساتھ ان کی تعداد اور جسامت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے تو بات ہلکے پنکھے پر نہیں ٹلتی۔ پورا موسم ان کے ساتھ مقابلے میں مچھر مار بتیاں جلاتے، زہر کا اسپرے کرتے اور تالیاں بجاتے گزرجاتا ہے۔

گرمی کی شدت میں اضافہ ہو تو پنکھے کی رفتار میں تیزی کے ساتھ مچھر بھی اپنی حکمت عملی بدل بدل کر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ جسم کے اس حصے تک پہنچ جاتے ہیں جو براہ راست پنکھے کی ہوا کی زد میں نہ ہو۔ میز کے نیچے ننگے پاؤں ان کی پسندیدہ جگہ ہوتی ہے یا کان کی لو جہاں وہ سکون سے اپنی واردات کر جاتے ہیں۔ مچھر اتنے ہوشیارہوتے ہیں کہ کبھی سیدھی ہتھیلی پر نہیں بیٹھتے جہاں ان کو تالی بجا کر مارا جا سکے۔ یہ ہمیشہ الٹی ہتھیلی پر بیٹھ جاتے ہیں جہاں رگیں ابھری ہوئی ہوتی ہیں۔

میں نے مچھر کی واردات کا دو دفعہ قریب سے دانستہ مشاہدہ کیا کہ یہ خون کیسے چوستے ہیں۔ ایک بار کوئٹہ میں جہاں کافی موٹے مچھر ہوتے ہیں ایک شام کو اپنے ہاتھ کے پشت پر بیٹھے خون چوستے دیکھتا رہا۔ خون چوستے وقت شروع شروع میں اتنا محسوس نہیں ہوتا مگر آہستہ آہستہ درد ناقابل برداشت ہوتا جاتا ہے، تبھی تو ہم گہری نیند سے جاگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ کافی دیر بعد جب درد ناقابل برداشت ہوا تو میں نے اس کو دوسرے ہاتھ کی انگلی سے ہٹانا چاہا مگرمچھر میرے خون ناحق سے سے اتنا بھر چکا تھا کہ اڑ نہ پایا اور وہی ڈھیر ہوگیا۔

ایک بار امریکہ میں ایک جگہ جنگل میں شام کے وقت بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک میرے بازو پر جلن کا احساس ہوا۔ جب دیکھا تو کافی بڑی جسامت کا ایک مچھر اپنی وردات میں مصروف تھا۔ تعجب کی بات مچھر کے کاٹنے کی نہیں تھی جس کے ہم پیدائش سے عادی ہیں مگر عجیب بات یہ تھی کہ میرے جیکٹ اور اس کے نیچے قمیص بھی پہن رکھنے کے باوجود امریکی مچھر میرے جسم سے منتقلی خون کا سامان کیے ہوئے تھا۔ جب میں نے اس تعجب کا اظہار ساتھ بیٹھے اپنے ایک امریکی دوست سے کیا تو وہ کہنے لگا کہ یورپ کے لوگوں نے امریکہ پر قبضہ کیا تو سب سے زیادہ ان کا مقابلہ مچھروں نے ہی کیا اور ہزاروں کی تعداد میں ان کو اپنے زہر کا نشانہ بنا یا تھا۔

یہی نہیں بلکہ امریکہ کی آزادی کی جنگ میں بھی مچھرکالے رنگ کے غلاموں کے شانہ بشانہ شریک رہے تھے۔ میرے دوست نے یہ بھی کہا کہ سفید فام امریکی مچھروں سے اتنا ڈرتے ہیں کہ گھر سے نکلنے سے پہلے اپنے جسم پر مچھر بھگاؤ دوا لگانا نہیں بھولتے اور یہ دوا ہر وقت ان کی جیب میں بھی رکھی ہوتی ہے۔ میں نے مذاقاً پوچھا ”مچھروں سے اتنا ڈرتے ہو“ تو وہ کہنے لگا کہ صرف مچھروں سے ہی نہیں کھٹملوں سے بھی ڈرتے ہیں جن کی وجہ سے ایک بار نیویارک میں ایمرجنسی کی کیفیت پیدا ہوئی تھی مگر وہ اتنے مہلک نہیں ہوتے جتنا مچھر۔

بات کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ مچھر بہت ہی عقلمند اور ماہر قسم کی مخلوق ہے۔ مچھر مکھیوں کی طرح ادھر ادھر منّہ نہیں مارتا سیدھے جسم کے اس حصے تک پہنچ جاتا ہے جہاں سے وہ بہ آسانی ترسیل خون کر سکے۔ جسم میں بھی وہ حصول خون کے لئے اپنی سیرنج نما سوئی صرف اسی جگہ داخل کر دیتے ہیں جہاں سے کوئی شریان گزر رہی ہو کیونکہ جسم کے ہر جگہ پر شریانیں اورخون موجود بھی نہیں ہوتا۔ بڑی بڑی رگوں یا شریانوں کو تلاش کرنے کے لئے ڈاکٹروں کو کافی محنت کرنی پڑتی ہے مچھر خون کی بو سونگھ کر چھوٹی چھوٹی شریانوں تک بلا تردد پہنچ جاتا ہے۔ مچھر کی یہ ایسی صلاحیت ہے جو اس کو پروٹین کے حصول میں مدد دیتی ہے۔

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ کسی انسان کے جسم کے اندر دوڑتے ہوئے خون کی بو سونگھنے کے علاوہ مچھر میں ایک اور دفاعی صلاحیت اس کے اپنے شکار کے جسم کی حرارت محسوس کرنے کی ہے۔ اگر مچھر جسم کے کسی حصے پر موجود ہو تو اس کو دیکھتے ہی رد عمل میں جسم کے اس حصے میں ایک حرارت سی پیدا ہوتی ہے جس کو مچھرفوراً محسوس کرتا ہے اور وہاں سے اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مچھر کو دیکھ کر بار بار تالیاں بجانے کے باوجود ہم اس کو کو مار نہیں پاتے اور خود ہیجڑا بن جاتے ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 279 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan