جینا ہے تو سدھرنا ہے


سکول سے میرے بچے واپس آئے تو گھر میں ماں نے بتایا کہ آج ان کی ٹیچر کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ اور وہ مر گئی ہے میں ان کے گھر جا رہی ہوں چھوٹی بچی نے ساتھ جانے کی ضد کی تو ماں اس کو بھی ساتھ لے گئی۔ بچی نے پہلی دفعہ ٹیچر کو چپ اور بے سدھ دیکھا تو پاس جا کر بولی ٹیچر آپ بیمار ہیں کیا؟ آپ اپنی ماما کو بولیں وہ آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ بچی کا یہ کہنا تھا کہ پاس بیٹھی ٹیچر کی ماں دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔

وہاں پر موجود سب آبدیدہ ہوگئے۔ واپسی پر بچی نے پھر وہی سوال کیا کہ ٹیچر کو کیا ہوا۔ ماں نے بتایا کہ وہ اللہ کے پاس چلی گئی ہیں اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گی۔ اب ذرہ ٹیچر کی پچھلی زندگی پر غور کرتے ہیں۔ ٹیچر جو کہ انتہائی اخلاق کی اچھی تھی اگر محلے میں بھی کوئی جھگڑا ہو جاتا تو وہ بہت خوش اسلوبی سے نمٹا دیتی اور سکول میں وہ اس قدر متحمل مزاجی سے کام کرتی کہ سارے اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہتے اس تعریف پر کبھی ٹیچر کو غرور کرتے کسی نے نہیں دیکھا۔ محلے کے بچوں کو فری ٹیوشن پڑھاتی تو بدلے میں ہر گھر سے کوئی نہ کوئی نئی کھانے کی ڈش بنی ہوئی آجاتی۔ جب ماں ٹیوشن فیس کا کہتی تو ہر نئی ڈش پر ماں کو کہتی کہ میرا مقصد اگر کچن چلانا ہی ہے تو یہ کھانا بھی اس کی تعبیر ہے۔

اس ٹیچر کو فوت ہوئے ایک سال گزر چکا ہے مگر اس کے محلے میں جاتے ہیں اس کی یاد تازہ ہو جاتی ہے سکول میں اس کی سیٹ پر نئی ٹیچر آچکی ہے مگر اس کرسی کو الگ سٹاف روم میں رکھا گیا ہے۔ ٹیچرز بتاتی ہیں کہ سٹاف روم میں داخل ہوتے ہی اس کا احساس ہوتا ہے۔

اب ذرا ہم اپنے ارد گرز نگا ہ ڈالتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ اور اس معاشرے کے حکمرانوں میں کوئی ایک خصلت بھی اس ٹیچر جتنی ہے۔ اگر ہوتی تو آج ہم شاندار قوم بننے کے لیے تیار ہو جاتے۔ اس معاشرہ میں اگر متحمل مزاجی آتی تو کبھی بھی شادی جیسے ایونٹ میں کوئی ایک دوسرے پر تھپڑوں کی بارش نہ کرتا۔ اور نہ ہی ہم غصے اور دشمنی کی آگ میں جلتے ہوئے ٹاک شوز کے اندر انسان دوسرے انسان کے جوتے دکھاتا۔ کبھی سڑکوں پر گھسیٹنے، چوکوں پر لٹکانے جیسے القابات سے نہ نوازا جاتا۔

کاش ہماری سوچ اس بچی جتنی ہو جائے جس کو اپنی مری ہوئی ٹیچر کو بھی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی فکر ہو۔ یا ان ٹیچرز جتنی جو کہ آج بھی اس کرسی کو دیکھ کر مہان ٹیچر کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔ میری حکمران سے درخواست ہے اپنے ہمساؤں کا خیا ل رکھے ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ انصاف کا دامن نہ چھوڑیں اور میرٹ پر فیصلے کرنے شروع کر دیں۔ مجھے یقین ہے اگر مخالف پارٹی کا بچہ بھی جاب کے لیے آئے اور اس کو یہ یقین پر ہو کہ مجھے جاب میری قابلیت پر اور میرٹ پر ملنی ہے تو معاشرہ میں بگاڑ نہ ہوگا۔

ویسے مرنے سے یا د آیا کیا ہم نے بھی کسی نہ کسی لمحے اس دنیا سے انتقال کرنا ہے اگر ہاں تو پھر سوچ لیا جائے کہ جتنا وقت ہے اپنے ارد گرد کو سنوارا جائے۔ اچھے فیصلے کیے جائیں جو یا د رکھے جا سکیں۔ آنے والی نسل ہمیں یا د رکھے۔ ہماری رکھی ہوئی بنیاد پر قوم تعمیر ی رخ اختیا ر کرنے والی ہے اس لیے ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ تھپڑوں، جوتوں اور گھسیٹنے جیسے کلچر سے نکلنا ہوگا۔ مہذب معاشرہ کی یہ پہچان یہی ہے کہ سب کو اپنے اپنے گھر سے شروعات کرنی ہوگی۔

بادشاہ وقت سے میرے التجا ہے کہ جناب مدینے کی ریاست بننی ہے تو دجلہ پر مرے ہوئے کتے کا بھی حساب آپ کو دینا ہوگا۔ اپنے اندر بھی تھوڑی نرمی لے کر آئیں عوام پر ترس کرنا شروع کر دیں اور مہنگائی کا رخ بدلے تاکہ غریب بدلے ورنہ روٹی اور مکان کے چکر میں بھوکا اپنے آپ کو بھی کاٹنے لگ جا تا ہے اس لیے اگر جینا ہے تو سدھرنا ہے۔

سید جعفر رضا
Latest posts by سید جعفر رضا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments