ایسا ہوگا تو یہ تو ہوگا


اس میں کوئی شک نہیں کہ تصور ہمیں وہ وہ مناظر دکھا سکتا ہے جو ہم نے خواب و خیال میں بھی نہ دیکھے ہوں اور خیال میں اتنا نفیس، خوشبوؤں سے بھرا، لذیذ اور ذائقہ دار پلاؤ پکایا جاسکتا ہے جس کو حقیقی دنیا میں تیار کرنا بھی سوچ سے باہر کی بات ہو لیکن مناظر ہوں یا خیالی پلاؤ، دونوں ایسی چیزیں ہیں جو طبعیت میں وقتی طور پر تو روانی و تنوع ضرور پیدا کر سکتی ہیں لیکن نہ تو کسی جنت کی نظیر ثابت ہو سکتی ہیں نہ پیٹ بھرنے کے اسباب مہیا کیے جا سکتے ہیں۔

اگر سردیاں شدت اختیار کر لیں تو کمبل کمبل یا لحاف لحاف کہنے سے جسم کو گرمائی نہیں بخشی جا سکتی اور نہ ہی بھوک کی صورت میں روٹی، دال اور پلاؤ کا تصور پیٹ کی آگ بجھا سکتا ہے۔ ہر دو معاملات میں ہر چیز کا حقیقی ہونا لازم و ملزوم ہے ورنہ سردی لہو جما سکتی ہے اور بھوک زندگی چھین سکتی ہے۔

کیا کسی علاقے کی کشیدہ صورت حال میں کر فیو کا اعلان کر دینے سے لوگ اپنے تئیں یہ خیال کر کے گھر سے باہر نکلنا بند کر سکتے ہیں کہ گھر کا دروازہ کھلتے ہی گلی کے موڑ پر کھڑا جوان اس پر فائر کھول دے گااور وہ دنیا سے رخت سفر باندھ کر دوسری دنیا کی سیر کے لئے روانہ کر دیا جائے گا یا دفع 144 میں چار افراد سے زیادہ جمع ہوتے ہی قریب کھڑے سیکورٹی اہلکار گرفتا کر کے سرکاری مہمان خانے کے خصوصی ڈرائنگ روم میں بٹھا کر خاطر مدارات کریں گے۔ کرفیو ہو یا پھر دفع 144 کا نفاذ، اعلان کافی نہیں ہوا کرتا بلکہ عملی طور پر جوانوں کو تعینات کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر قوم قابو میں آیا کرتی ہے۔

ملک کو کورونا کی وجہ سے جس صورت حال کا سامنا ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کا یہ خیال کرلینا کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کرنے کے بعد لوگ از خود اتنے مہذب، متحمل مزج اور منظم ہو جائیں گے کہ جو جو پابندیاں بر قرار رکھنے کی ہدایات حکومت کی جانب سے جاری کی گئیں ہیں ان پر ٹھیک اسی انداز میں عمل کرنے لگیں گے جس طرح قانون کی کتاب میں لکھ دیا گیا ہے تو اسے کسی مجذوب کی بڑ تو کہا جا سکتا ہے، ہوشمندانہ خیال تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

شاید کسی زمانے میں ایسا ہوتا ہو کہ دعوت میں مہمانوں کو زیادہ مدعو کیا جاتا ہو مگر ان کے لئے کھانے کا اہتمام شرکا کی تعداد سے کم کیا جاتا ہو لیکن فی زمانہ یہ بات بہت اچھی طرح دیکھی جا سکتی ہے کہ دعوت بڑی سے بڑی کیوں نہ ہو، میزبان اتنے زیادہ مقدار میں پکوان تیار کرواتے ہیں کہ کسی وقت بھی کھانے میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آتی بلکہ سب لوگوں کے حلق تک کھانا بھر جانے کے باوجود بوفوں میں سجی ساری ڈشیں لبالب بھری نظر آ رہی ہوتی ہیں۔

اس پر بھی یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ کھانا شروع ہوتے ہی جو ہڑبونگ مچتی ہے اور لوگ کھانے پر بھک مروں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں اور بھوک سے کہیں زیادہ اپنی مظروف بھر لیا کرتے ہیں وہ اس بات کی جانب کھلا اشارہ ہے کہ محفلیں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ہوں یا جہلا کی، سب کے اندر کی جہالت ایک ہی جیسی ہوا کرتی ہے اور بظاہر تہذیب یافتہ افراد بھی بہت سارے معاملات میں جاہلوں کی طرح ہی جاہل ہوا کرتے ہیں۔

جس معاشرے میں تہذیب، تنظیم اور تحمل آنے میں اب بھی صدیاں در کار ہوں وہاں حکومتوں کا یہ سمجھ لینا کہ کہ اگر ملک میں لاک ڈاؤن میں نرمی کر دی جائے گی، محدود یا لا محدود پیمانے پر کاروبار کھولنے کی اجازت دیدی جائے گی، انٹر سٹی یا بین الصوبائی ٹرانسپورٹ بحال کردی جائے گی تو لوگ بنا کسی نگرانی ان تمام ہدایات پر عمل پیرا رہیں گے جو حکومت کی جانب سے جاری کر دی جائیں گی، نہایت غیر سنجیدہ بات لگتی ہے۔

یہ قیاس اس لئے بھی ما فوق العقل ہے کہ جس ملک میں چوک چوراہوں پر لگے سگنلز اور ان کی جلتی بجھتی لال، ہری اور پیلی بتیوں کے باوجود ان اشاروں کا پابند بنانے کے لئے ٹریفک پولیس بھی کھڑی کرنا لازمی ہو وہاں کیسے یہ سمجھ لیا گیا کہ لوگ ان تمام شرائط کو پورا کریں گے جو لاک ڈاؤن نرم کیے جانے کی صورت میں خود ان کی اپنی زندگی کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

دوہی دنوں میں پورے پاکستان نے بہت اچھی طرح دیکھ لیا کہ ہدایات کی کس کس طرح دھجیاں بکھیری گئیں ہیں اگر اس کے باوجود بھی حکومت عوام کی جانب سے خوشگمان ہے تو اس سے بڑھ کر نادانی ہوگی بھی تو کیا ہوگی۔

کار و بار کھلے گا تو ایسا ہی سب کچھ ہوگا جو گزشتہ دو دنوں سے دیکھنے میں آرہا ہے اس لئے یا تو یہ سب برداشت کرنا پڑے گا یا پھر سختیوں میں اضافہ کرنا پڑے گا۔ صورت کوئی بھی ہو، دونوں شکل میں ہر ذمہ داری حکومت ہی کی ہے اس کو عوام کے سر کسی بھی صورت نہیں ڈالا جاسکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments