کیا آپ محمڈن ہیں؟


محمڈن۔ کیا آپ محمڈن ہیں؟
یہ جملہ آج سے برسوں پہلے میں نے بھارت کی راج دھانی میں ایک ہندو رائٹر سے سنا تھا۔ مگر یہ فقط جملہ نہ تھا ایسی کیفیت تھی جس سے اس سے قبل میں آشنا نہ تھی۔
محمڈن۔ میں کبھی اسے بٹ بٹ دیکھتی تھی۔ اور کبھی اپنے میلے، غلیظ و جود کو، جسے اتنی بڑی فضیلت کھڑے کھڑے مل گئی تھی۔
مگر کیا میں واقعی اس قابل تھی کہ محمڈن کہلا سکوں؟
محمڈن۔ جیسے میرے شرمسار وجود کے ریزے ریزے نے تعظیم سے سر جھکا لیا آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کیا میرا منہ ہے میں خود کو محمڈن کہہ سکوں؟ اللہ اللہ۔ اتنی بڑی شا ن اتنا بڑا مرتبہ اتنا بڑا مقام۔ اتنی بڑی سعادت؟ کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا ء گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں۔

وہ میری طرف بٹر بٹر دیکھ رہی تھی اور میں اس مقام کی طرف جس پر اس ہندو رائٹر نے انجانے میں مجھے فائز کر دیا تھا۔ وہ ادراک کی گھڑی تھی۔ یا پھر ندامت شرمساری اور آگہی کی۔ مگر تھی کوئی انمول گھڑی۔
اسی کیفیت میں خیال آیا تو دور تک چلا گیا۔ وجہ تلاش کرنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا۔ میرا شمار کرۂ ارض کے جن انسانوں میں ہوتا ہے انہیں مذہب، ملک، آزادی اور درست عقیدہ اپنی محنت سے نہیں بلکہ کسی عظیم خو ش قسمتی کے تحت پیدا ہوتے ہی مل گیا تھا۔ اسی لئے نہ تو انہوں نے اپنے مذہب کی قدر کی نہ آزادی کی۔ نہ ملک کی اور نہ والدین کی جن کی بدولت اسے مندرجہ بالا خوش قسمتیاں حاصل ہوئیں۔ والدین ڈیم کیئر۔ وطن ڈیم کیئر۔ آزادی کوئی بڑی بات نہیں۔ اور مذہب؟

میں بھی اسی ڈیم کیئر نسل کی نمائندہ تھی۔ نمازیں پڑھتی تھی روزے رکھتی تھی حج کرتی تھی اور اللہ اور اس کے نبی کے نام پر انگلیاں بھی چوم کر آنکھوں سے لگا لیتی تھی ، حسب ضرورت اسلام بھی میری زندگی میں شامل تھا۔

مگر روح محمدؑ؟ اس سے میرے حسب ضرورت اسلام کا وجود بالکل خالی تھا۔ عین مین اس مٹی کے کورے گھڑے کی طرح جس میں پانی بھرے بغیر اسے گھڑونچی پر سجا دیا جاتا ہے اور جب کوئی پیاسا اس کے پاس آتا ہے تو اسے پانی کے بجائے خالی گھڑا ملتا ہے۔

یہ لمحہ عجب انکشاف کا تھا، جس میں مجھے کھڑے کھڑے محمد۔ صلی اللہ و علیہ وصلعم سے محبت محسوس ہو نے لگی۔ ایسی محبت جس کے مفہوم سے میں اس سے قبل واقف نہ تھی۔
آپ ؑ کی حیات طیبہ جسے میں سیرت النبیؑ۔ کی تعریف سے جانتی تھی (مگر اس ضمن میں اس لگن، تڑپ اور بے قراری سے محروم تھی جو اس کا جوہر ہے ) کی تانگھ لگ گئی۔ آپ ؑ کے ارشادات جنہیں آنکھوں سے لگا کر چومنے کی عادت بچپن سے تھی ان کی کھوج لگ گئی۔
دکھ کی گھڑیوں میں میرے نبی ؑ کا طرز عمل کیا تھا؟ جنگوں میں امن میں، ہجرت میں، فتح میں، پسپائی میں، یہ تمام کیفیتیں میرے نبی ؑ پر کیسے اتریں؟ آپ ؑ نے کیا محسوس کیا؟ ان موقعوں پر آپ ؑ نے کیا فرمایا، آپ ؑکا مشعل راہ اسوہ اس ضمن میں ایک امتی کی کیسے کیسے رہنمائی کرتا ہے؟ یہ جاننے کی لگن لگ گئی تھی مجھے۔ کہ میں محمڈن تھی، کائنات کی سب سے ا فضل ہستی کی امتی۔ اس دنیا کے سب سے بڑے اور محترم پیغام بر کی امتی جن کی بدولت مجھے خدا ئے واحد کو جاننے کا شعور نصیب ہوا۔ جنہوں نے اللہ کا تعارف مجھ سے کروایا۔ سبحان اللہ۔
وہ اشعار جو مدحت نبویﷺ میں شعراء نے کہے ان کے مطالب کھلنے لگے۔ مثلاً
دل بکوئے تو، یا رسول اللہ رو بسوئے تو یا رسول اللہ
بر لب ذوالجلال و الاکرام گفتگوئے تو یا رسول اللہ
اور
خلاق جہاں محرم اسرار محمدﷺ
قرآن مبیں مظہر انوار محمدﷺ
خصوصاً اقبال ؒ کا یہ شعر جو زبان زد عام تھا اس کا مطلب اک نئے معانی لے کر آیا۔
کی محمد ؑسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہان چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

اس کے بعد میں اس معاملے میں بے حد حساس ہوگئی۔ مجھے اک محمڈ ن کی اہمیت اور ذمہ داری کا احساس ہونے لگا۔

اب میں چیزوں کو الگ انداز سے دیکھنے لگی۔ جیسے میرے اندر ایک حساس آلہ فٹ ہو گیا ہو جو صحیح اور غلط کی جانب میری رہنمائی کرتا رہتا ہو۔ مگرصحیح اور غلط کا یہ پیمانہ میرے اللہ اور میرے رسول کاؑ مقرر کردہ تھا۔ اب ا س میں میری پسند ناپسند کا کچھ زیادہ دخل نہ رہا تھا۔ میری مرضی اب اس میں شامل نہ ہو سکتی تھی۔

اب میں نے غور سے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا لبرل ازم، روشن خیالی، سیکولر ازم اور ہیومن سوورنٹی کے جو معانی مجھے اس سے قبل معلوم تھے وہ بھی کچھ زیادہ درست نہ تھے۔ ترقی اور انسانی حقو ق کے نام پر جس ہیومن سوورنٹی کو سب سے مقدم رکھنے کے نعرے لگائے جاتے تھے
مذہب کو سٹیٹ سے الگ کرنے کے نعرے۔ جمہوریت کے نعرے، انسانیت کے نعرے۔
ان کا مطلب کھلنے لگا۔ اور اس کے پردے میں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے، یہ معلوم ہونے لگا۔

اس دوران دنیا محمڈ نز کے سب سے حساس حصے کو نشانہ بناتی رہی، کبھی سلمان رشدی کبھی تسلیمہ نسرین، کبھی گستاخانہ خاکے۔

یاد آیا یہ سب کچھ نیا تو نہ تھا۔

گلوب کو تو چھوڑیئے غیر منقسم ہندوستان کے عہد پر آشوب پر ہی نگا ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے، غیر ملکی فاتحین اپنی ذہانت سے یہ جان چکے تھے کہ ایک مسلمان اگر جسد ہے تواس کی روح محمدﷺ ہیں اسے ناکارہ کرنا ہے تو یہ روح اس کے اندر سے کھینچ کر نکال دیں پھر چاہے اسے میر جعفر بنا لیں یا میر صادق۔ مرزا غلام احمد، سلمان رشدی یا پھرمولوی عماد الدین (ایک ممتاز عالم دین جو ملحد ہوگیا اور 29 اپریل 866اء کو پادری کلارک کے ہاتھوں بپتسمہ لے کر چرچ میں اہم عہدے پر مقرر ہوگیا۔ اس نے پچاس سے زیادہ کتابیں لکھیں اور ان کے بدلے آرچ بشپ آف کنٹر بری سے ڈی، ڈی کی اعزازی ڈگری کا انعام سمیٹا۔) جس سے متاثر ہو کر دنیا طلبی کی چاہ میں کئی بدبخت اس طرف آگئے اور انگریزوں کے منظور نظر ٹھہرے۔ کہ وہ ہمیشہ ایسے بدبختوں کی تلاش میں رہے ہیں۔ پہلے انہیں یہ کام محنت سے کرنا پڑتا تھا آج سوشل میڈ یا کے ذریعے یہ معاملات ان کی ایک کلک پر آن ٹھہرے ہیں۔

انہیں ہماری صفوں سے ملعون ا ور بدبخت چاہئیں۔ جنہییں پیش کر کے وہ ثابت کر سکیں کہ ایک مسلمان بھی اپنے مذہب سے پھر سکتا ہے۔ جنہیں ایک لبرل فاشسٹ طبقہ پیر و استاد مان سکتا ہے۔ اور انسانی حقوق، آزادی ء اظہار اور لبرل ازم کے نام پر مسلمانوں کے عقیدے کے سب سے حساس حصے سے کھیل سکتا ہے۔ اور ایک مخصوص طبقہ ان کی حمایت میں سر سے کفن باندھ کر خود مسلمانوں کی صفوں سے بھی نکل سکتاہے۔
یہی ہیں وہ نام نہاد لبرل جو ماں کی گالی کھا کر بھی بدمزہ نہیں ہوتے۔ جنہیں ان کے ملک کو دی جانے والی گالی بھی بری نہیں لگتی۔ اور جو محمدؑ رسول اللہ کی شان میں گستاخی بھی ہنس کر برداشت کر سکتے ہیں کہ وہ اسے آزادی، اظہار کے کھاتے میں ڈ ال کر روح محمد سے دستبردار ہو چکے ہوتے ہیں۔

یہی وجہ جب بھی دنیا میں سیکولر ازم کا نعرہ اور ہیومن سوورنٹی کا چرچا عام ہوتا ہے تو خواندہ، ناخواندہ، جاہل، پسماندہ، نو ع نوع کی آفات کا شکار تھرلڈ ورلڈ اقوام کے کچے پکے اذہان محض ایک کلک کے چمتکار سے گلوبلائزیشن کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ پھرالیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اک حشر اٹھا دیا جاتا ہے۔ آزادی اظہار کا نعرہ، شخصی آزادی کا نعرہ، فنڈامنٹل رائٹس کا نعرہ۔ مگر یہ نعرے نہیں، کچے پکے ذہنوں میں برپا انتشار ہوتا ہے۔ جو اپنا اخراج چاہتا ہے۔
پھر اس اخراج کے لئے الیکٹرانک میڈیا اپنی بانہیں کھول دیتا ہے اور اس پر ناپختہ اینکر ز کے ہاتھوں میں فکر کی باگ تھما کر انسانی حقوق کے مباحثوں کے پردے میں مذہب کو لتاڑنا شروع کر دیا جاتا ہے۔
مقدس ہستیوں پر ڈھکی چھپی تنقید۔ دین محمدیؑ پر رجعت پسندی کے حملے۔ دین کی نئی تفہیم کے تقاضے، علمی اور فکری مباحث کے نام پر نت نئے مغالطے۔ جن سے ایک عام آدمی متاثر ہو نے لگتا ہے کہ اس کے لئے وہ باتیں نئی ہیں۔ اس دوران وہ جو جاننے والے ہوتے ہیں، جن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اظہار کے نئے ذرائع پر نگاہ رکھیں، وہ غفلت کی نیند سوئے رہتے ہیں۔
سوال یہ ہے کیا یہ لوگ محض اظہار، فکر اور قلم کی آزادی ہی چاہتے ہیں؟
کیا ان کا مقصدانسانی حقوق کا حصول ہی ہے؟
منہ سے سوشل میڈیا کا بھونپو لگا کر ناپختہ اذہان کو گمراہ کرنے والے یہ آزادی ء اظہار کے طلبگار، میں بھی کافر تو بھی کافر کا نعرہ لگا کر در پردہ جس سیکولر ازم کا پرچار کر تے ہیں۔ اس کا مقصد کیا ہے؟

کہیں یہ تو نہیں کہ مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے کر ریاست کو اس سے الگ کر دو۔

ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے جیسے مغرب نے مذہب کو چرچ اور انسان کے داخل تک محدود کر رکھا ہے۔ تم بھی کر کے مذہبی جبریت (ان کے خیال میں) سے آزاد ہو جاؤ۔

اور ہیومن سوورینٹی کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔ اس شورا شوری میں کسی نے کبھی یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی ک یہ سیکولر ازم ہے کیا؟
بات آگے بڑھانے سے پہلے اس کی سادہ تعریف پیش کرنا چاہتی ہوں۔

جس کے مطابق سیکولر ازم تقاضا کرتا ہے کہ سیاست، ریاست، حکومت اور معاشرے سے خدا کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ہیومن سوورینٹی اور پاپولر سوورینٹی کی بنیاد پر جمہوریت ہوگی۔ سیکولر ازم ہوگا۔ مذہب کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ وہ رہے گا چرچوں، مندروں اور مسجدوں میں، اور ہم جائیں گے پولیٹیکو سوشیو اکنامک سسٹم کی جنت کی جانب جو کسی مذہب کو نہیں مانتا۔ جبکہ مذہب کے رد سے اٹھا ہوا یہ نظریہ ایک وقت آتا ہے خو د مذ ہب کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔

اسے بنانے والے خود سوورین ہو جاتے ہیں۔ یہ سورینٹی خدا اور اس کے بنائے ہوئے قاعدوں اور قوانین کے خلاف ہوتی ہے۔ جو کہتی ہے۔ خدا صاحب آپ نہ ہماری پارلیمنٹ میں تشریف لا ئیے، نہ ہماری کورٹ میں داخل ہوئیے۔ ہمارے بازار میں آئیے، نہ ہمارے بینک میں تشریف لایئے۔ براہ کرم آپ ہمارے گھریلو نظام میں آنے کی بھی کوشش نہ کیجیئے۔ ہمارے سکولوں کا لجوں میں بھی آپ داخل نہیں ہو سکتے۔ آپ رہئے مسجدوں میں، جب جب دل چاہا ہم رکوع و سجود کے لئے آتے رہیں گے وہاں۔ کہ اب ہم اپنے معا ملات میں سو ورین ہو چکے ہیں جو چاہے قانوں بنائیں، جو چاہے آئین بنائیں۔ ہماری مرضی۔
اقبال یاد آتے ہیں جنہوں نے کبھی کہا تھا
یہ بتان عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ، نہ تراش آزرانہ
سر سید ا حمد خان جنہیں اس دور کے علماء دین تضحیک سے نیچری اور وہابی جیسے القابات سے پکارتے تھے، انہوں نے ولیم میور کی گستاخیوں کے جواب میں خطبات احمدیہ لکھ کر یہ ثابت کیا تھا کہ کوئی مسلمان
چاہے وہ کتنا ہی ترقی پسند کیوں نہ ہو، اپنے نبی ﷺ کی شان میں کسی بد باطن کی گستاخی بر داشت نہیں کر سکتا۔ دین کے جسد سے روح محمد نکالنے کی یہ مذموم کوششیں، یہود و ہنود اور نصاریٰ کا ازلی ایجنڈا ہے۔ کہ ان کے عالی اذہان صدیوں کی عرق ریزی کے بعد اسی نتیجے پر پہنچے تھے کہ ایک مسلمان کے اندر محمد ؑ سے وفاداری اور محبت جب تک لہو بن کر دوڑتی ہے، وہ ان کے ایجنڈے کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا رہے گا۔ اس کے اندر سے روح محمد ؑ نکال دو اس کے بعد اس علامتی مسلمان کو جیسے چاہے استعمال کر لو۔ تاریخ ایسے علامتی مسلمانوں سے بھری پڑی ہے جنہیں دشمنان اسلام مختلف ادوار میں دین اسلام اور اسلامی ریاستوں کے خلاف استعمال کر کے ہمارے اندرون کو کمزور کرتے رہے۔

یہ وقت ٹیکنالوجی کے خطرناک دور کا ہے۔ خطرناک اس لحاظ سے کہ اس ٹیکنالوجی کے جن کا اگر درست استعمال کیا جائے تو اسے انسان اور انسانیت کے فلاح کے لئے سب سے موثر ذریعہ بنایا جا سکتا ہے اور اگر اس کا غلط استعمال ہو تو یہ زہر قاتل ہے جو نہ صرف انسان بلکہ انسانیت کا بھی بد ترین دشمن ثابت ہو سکتا ہے۔

یہ دن عالمی وبا کے ہیں۔ خدا کو نہ ماننے والے اور اسے پارلیمنٹ، گھروں، بینکوں، سکولوں، کالجوں اور تمام مقتدر اداروں سے بے دخل کرنے والوں کو سنا ہے ان دنوں بھولا ہوا خدا اچھا خاصا یاد آ رہا ہے۔ جیسے جیسے کرونا کے ہاتھوں انسان کی درگت بن رہی ہے اسے پیغمبروں کے بھولے ہو ئے اسباق کی ضرورت بھی محسوس ہو رہی ہے۔
یہی وقت ہے کمزور ایمانوں اور عقیدوں کی چھان بین اور درستگی کا۔
محمڈن کی فضیلت اور روح محمدؑ پر غور و فکر کا۔
اور خدا صاحب کی سو و رینٹی تسلیم کرنے کا۔
اور انہیں نکالی جانے والی جگہوں پر واپس لانے کا۔
اگر اب بھی ہم نے اپنی اندرونی سمتیں درست نہ کیں تو ہو سکتا ہے
اس کے بعد ہمیں انہیں درست کرنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments