پرچی پڑھ لیں ازطرف سگمنڈ فرائیڈ


وزیراعظم کی تقریب حلف برداری سے آج تک کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب وزیراعظم کی زبان نہ پھسلی ہو۔ وزیراعظم کی زبان پھسلتی ہے، ان کی کابینہ کے ارکان کی زبان پھسلتی ہے، ان کے صوبائی وزرا کی زبان پھسلتی ہے اور ان کے ووٹرز، سپورٹرز کے منہ سے ان کے دفاع میں مغلظات کا طوفان ابلتا ہے۔

زبان کا پھسلنا، مشہور نفسیات دان سگمنڈ فرائیڈ کے نزدیک اتفاق نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ غلطی ہوتی ہے۔ انسان کا تحت الشعور جان بوجھ کر زبان سے ایسے جملے ادا کرا دیتا ہے جو اس کے اعصاب پر طاری بوجھ کو ہلکا بھی کرتے ہیں اور اس کے لاشعور میں چھپے، خوف، جھوٹ یا خواہش کو بے نقاب بھی کرتے ہیں۔

دوسری طرف گالیاں دینے اور گندے الفاظ استعمال کرنے والوں کو بھی نفسیات دان ایک خاص اصطلاح ’اے ٹائپ 2‘ سے یاد کرتے ہیں یعنی ایسے لوگ بھی دماغی طور پر صحت مند نہیں ہوتے۔

چند روز پہلے ہی محترمہ یاسمین راشد نے لاہور کے عوام کو آن دی ریکارڈ ’جاہل‘ کہا تو مجھے ایوب خان یاد آ گئے جو جاتے جاتے ہمارے منہ پر جوتا مار کے گئے تھے کہ ’یہ قوم نہیں ہجوم ہے۔‘

ڈاکٹر صاحبہ کا یہ بیان بھی ’فرائیڈین سلپ آف ٹنگ‘ ہی تھا۔ ان کا لاشعور ان سے یہ جملے کہلوا گیا اور ان کے شعور کو اس کا ادراک تب ہوا جب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

اسی دوران محترم فیاض الحسن چوہان جو الفاظ کے استعمال سے ’ٹائپ اے 2‘ لگتے ہیں، فواد چودھری صاحب کے بارے میں کچھ فحش اشارے دے گئے اور ساتھ ہی ایک عظیم شاعر نے ایک سیاستدان کے بارے میں ایسی باتیں لکھیں کہ شاعری سے اپنی نسبت پر شرم آنے لگی۔

حماقتوں اور مزید حماقتوں کے درمیان وزیر ماحولیات، جو ماحولیات کے علاوہ ہر شے پر بات کرتی ہیں، نے کووڈ 19 کی وہ تشریح کی کہ لطائف اور میمز کا طوفان آ گیا۔

لطائف کے بارے میں بھی نفسیات دان بہت کچھ کہتے ہیں اور یہ بھی انسانی ذہن کی خاص کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

گویا اس وقت ملک کی تقریبا ساری آبادی ایک اجتماعی ہسٹیریا میں مبتلا ہے۔ بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی ذہنی کیفیت درست ہے اور نہ ہی عوام کسی قابل رشک ذہنی حالت میں ہیں۔

انھی حالات میں جب وزیراعظم نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کے لیے پہلے ہلاک اور پھر شہید کا لفظ استعمال کیا تو ہمارے تو سناٹے بیت گئے لیکن عالم بالا میں فرائیڈ نے اپنے ناقدین پر کیسی فاتحانہ نظر ڈالی ہو گی اور مسکرا کے کہا ہو گا ’این ادر فرائیڈین سلپ آف ٹنگ۔‘

معاشی بدحالی جو دروازے پر دستک دیے بغیر دندناتی ہوئی گھس آئی ہے، اس سے بچنے کے لیے دیگر سہاروں کے ساتھ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا بھی بہت ضروری ہے لیکن ایک ضد نے یہ امکانات بھی مدھم کر دیے اور یہ ضد ہے فی البدیہہ تقریر کی۔

عمران خان صاحب، ہم ہی میں سے اٹھے اور پچھلے بیس بائیس برس میں اکثر اور اب تو اکثر و بیشتر ان کی تقریر سننے کا اتفاق ہوتا ہے۔ صاف اور سچی بات یہ ہے کہ نہ وہ کبھی ایک اچھے مقرر تھے اور نہ آئندہ یہ معجزہ رونما ہو سکتا ہے۔

ضد بھی ایک نفسیاتی بیماری ہے اور روحانیت پر یقین رکھنے والے اسے توکل کا متضاد سمجھتے ہیں۔

ضروری نہیں کہ ہر شخص میں ہر خوبی ہو۔ وزیراعظم صاحب ہینڈسم ہیں، چور نہیں ہیں، بانوے کا ورلڈ کپ جیت کر لائے تھے، اٹھارہ برس کی عمر میں انگلینڈ چلے گئے تھے، شوکت خانم ہسپتال بنا چکے ہیں اور ان کے کروڑوں چاہنے والے بھی ہیں لیکن یہ سب باتیں بھی مل کر انھیں ایک اچھا مقرر نہیں بنا سکتیں۔

وزیراعظم کا رتبہ ایک بہت بڑا رتبہ ہے۔ اس رتبے پر فائز شخص کی کرسی چاہے کتنی مضبوط کیوں نہ ہو اور چاہے وہ عوام کو پرکاہ کی حیثیت بھی نہ دیتا ہو تب بھی، برسوں کی تپسیا سے حاصل ہونے والی کرسی کی عزت کرنی چاہیے۔

صرف کرسی ہی کی عزت نہیں بلکہ اپنے کروڑوں چاہنے والوں، ووٹروں، دیگر خیر خواہوں اور پاکستان کے عوام کو مزید شرمندگی سے بچانے کے لیے نہ صرف وزیراعظم بلکہ ان کے باقی رفقا کو بھی بولنے سے پہلے اپنی تقاریر لکھوا لینی چاہیے اور جس موضوع پر وہ بات کرنے جا رہے ہوں اس پر واجبی ہی سہی مگر کچھ نہ کچھ تحقیق ضرور کر لینی چاہیے۔

دو سوا دو برس میں سرزد ہونے والی، ان گنت ’سلپس آف ٹنگ‘ پر اب نہ تو ہنسی آتی ہے اور نہ ہی مذاق اڑانے کو جی چاہتا ہے۔ الٹا جی چاہتا ہے کہ بین کر کر کے رویا جائے کہ کیا ہم اس قابل تھے کہ ہمیں ایسے لیڈر ملتے؟

فرائیڈ زندہ ہوتا تو اس ذہنی کیفیت کا بھی ضرور کچھ تجزیہ کرتا لیکن اس وقت تو مجھے لگ رہا ہے کہ وہ بھی عالم بالا میں بیٹھا وزیراعظم صاحب کے نام ایک خط لکھ رہا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).