خبر کو خبر اور تبصرے کو تبصرہ سمجھئے


ھم نے اپنے استاذہ، والدین، بزرگوں اور ہر نیک خواہشات رکھنے والے سے سنا کہ اگر کچھ سیکھنا چاہتے ہو تو اخبارات پڑھا کرو، ان کے خصوصی شمارے، میگزین، اداریہ، اور کالموں کو پڑھا کرو۔ ریڈیو سنا کرو اور ٹی وی دیکھا کرو اس سے تمھیں خاطر خواہ معلومات ملیں گیں۔ بات غلط نہ تھی یہ ذرائع ابلاغ کے ان تمام ذرائع کی اہمیت سے انکار ممکن نہ تھا۔ یہ ادارے شائستگی، تمیز، لحاظ، حفظ مراتب سیکھنے کا بہترین ذریعہ تھے۔ البتہ کچھ شام کے اخبارات تھے جن میں ”آشناؤں“ ”دست درازی“ اور ”فرار“ ہونے کی خبریں یا سچی کہانیوں کے نام پر خود ساختہ قصے ذہین میں تلاطم خیزیاں پیدا کر دیتے تھے لیکن مجموعی صورتحال بہتر تھی۔

پھر صورت حال بدلنا شروع ہوئی کیبل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کے آنے سے کئی قدریں ختم ہوئیں تو کئی نئی روایات نے جنم لیا۔ پاکستان میں میڈیا آزاد ہوگیا یا جس قدر بھی آزاد ہوا، تو ایک نئی بحث نے جنم لیا، کہ کیا میڈیا عوامی توقعات پر پورا اتر رہا ہے؟ کیا معاشرتی روایات کا خیال کیا جا رہا ہے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا عوام ذرائع ابلاغ کو سمجھتے ہیں؟

عموماً لوگ یہ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ سیاسی ٹاک شوز، جو زیادہ تر چرب زبانی، الزامات، خود نمائی، کسی کو خوش کرنا، سے زیادہ نہیں ہیں۔ اور میڈیا وہ کردار ادا نہیں کر رہا جو اسے کرنا چاہیے۔ کیا کردار ادا کرنا چاہیے اس کا خاکہ ہر فرد کے ذہن میں مختلف ہے، کوئی ٹاک شوز سے بیزار ہے تو کوئی مارننگ شوز سے کوئی بریکنگ نیوز کو ذہنی تناؤ قرار دیتا ہے تو کوئی شیطان کی لمبی انت کی طرح ہیڈ لائنز کو۔ جو لوگ میڈیا کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں انہیں دلائل سے بات سمجھانا بھی چاہیے۔

اصل میں میڈیا کی ذمہ داری سے قبل اگر ہم میڈیا دیکھنے والوں کی ذمہ داری کی بات کریں تو کافی حد تک بات سمجھ میں آ جائے گی۔ ھماری یہاں ایک بڑی تعداد ناخونداہ ہے جو خواندہ ہیں ان میں سے ایک کم تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ہمیں میڈیا کس نظر سے دیکھنا چاہیے۔ ایک اچھے قاری، سامع یا ناظر کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ خبر کیا ہے؟ آیا یہ خبر ہے یا (جبر) رائے؟ یہ تجزیہ ہے یا تبصرہ؟ جب تک اس بات کو نہیں سمجھا جائے گا ہماری رائے میڈیا کے بارے میں منفی ہی رہے گی۔

جو لوگ خبر، تبصرہ، رائے تجزیہ، کو جانتے ہیں وہ فرق کر سکتے ہیں کہ آیا یہ مستند خبر ہے یا رائے؟ مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب ہم خبر کو رائے اور تبصرے کو خبر سمجھ لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments