صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا


جمال خاشقجی
ترکی میں قتل کیے گئے سعودی صحافی جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا ہے۔

منگل کے روز واشنگٹن ڈی سی میں دائر کیے گئے اس مقدمے میں ترک شہری خدیجے چنگیز نے جمال خاشقجی کی موت پر ذاتی چوٹ اور مالی نقصان کا دعویٰ کیا ہے۔

تاہم سعودی ولی عہد نے جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دینے کے الزامات کی تردید کی ہے۔

واضح رہے کہ سعودی حکومت کے ناقد خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر 2018 میں قتل کیا گیا تھا۔

مقدمے میں الزام لگایا گیا ہے کہ جمال خاشقجی کو ’محمد بن سلمان کی ہدایت کے مطابق‘ قتل کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

جمال خاشقجی کی منگیتر نے ان کے خاندان کی معافی کو رد کر دیا

جمال خاشقجی کے قتل کی خفیہ ٹیپس کیا بتاتی ہیں؟

خاشقجی قتل کیس میں 20 سعودی شہریوں پر فردِ جرم عائد

دائر مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’اس قتل کا مقصد واضح تھا۔۔۔ عرب دنیا میں جمہوری اصلاحات کے لیے جمال خاشقجی کی امریکہ میں کاوشوں کو روکنا۔‘

خاشقجی کے انسانی حقوق کے گروپ ڈیموکریسی فار عرب ورلڈ ناؤ (ڈان) کا کہنا ہے کہ ان کے کام میں رکاوٹ آئی ہے۔

خدیجے چنگیز

اخبار واشنگٹن پوسٹ کی خبروں کے مطابق منگل کے روز ایک ویڈیو کانفرنس میں خدیجے چنگیز اور ڈان کے وکلا نے کہا کہ اس مقدمے کا مقصد ایک امریکی عدالت کا ولی عہد شہزادے کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرانا اور ان دستاویزات کا حصول ہے جن سے حقیقت ظاہر ہو۔‘

خدیجے چنگیز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’جمال کا خیال تھا کہ امریکہ میں کچھ بھی ممکن ہے اور میں انصاف اور احتساب کے حصول کے لیے امریکہ کے نظام عدل پر اعتماد کرتی ہوں۔‘

جمال خاشقجی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

جمال خاشقجی دو ہزار سترہ میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر کے امریکہ چلے گئے تھے۔ انھیں دو اکتوبر 2018 کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کیا گیا تھا جہاں وہ اپنی منگیتر کے ساتھ اپنی دوسری شادی سے پہلے ضروری کاغذی کارروائی کے لیے گئے تھے۔

تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ جب خدیجے چنگیز سفارت خانے کے باہر انتظار کر رہی تھیں تو اندر جمال خاشقجی کا قتل کر کے ان کے جسم کے ٹکڑے کیے جا رہے تھے۔ خاشقجی کی باقیات کبھی نہیں ملیں۔

سعودی حکام نے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ وہ عمارت سے زندہ نکل گئے تھے اور ان کی گمشدگی کے بعد کئی بار یہ بیان بدلا۔

جمال خاشقجی اپنی موت سے قبل واشنگٹن پوسٹ اخبار کے لیے لکھتے تھے اور امریکہ میں رہائش پذیر تھے۔

سعودی ولی عہد

جمال خاشقجی کے لاپتہ ہونے کے بارے میں بدلتے بیانات پیش کرنے کے بعد، بالآخر سعودی حکام نے اعتراف کیا تھا کہ خاشقجی ایک ایسے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے تھے جس کا مقصد انھیں ملک میں واپس لانا تھا۔

دسمبر 2019 میں ایک عدالت نے پانچ نامعلوم افراد کو ریاض میں ایک خفیہ مقدمے کی سماعت کے بعد اس قتل میں ان کے کردار پر سزائے موت سنائی تھی۔

جمال خاشقجی کیس پر کام کرنے والی اقوامِ متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایگنس کیلامارڈ نے سعودی مقدمے کی سماعت کو ’انصاف کے منافی‘ قرار دیا اور آزادانہ تحقیقات کی اپیل کی تھی۔

انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اس قتل کے حوالے سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی تفتیش کی جائے۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اتنے شواہد موجود ہیں کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اعلیٰ عہدوں پر فائز دیگر سعودی افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔

سعودی ولی عہد نے اس واقعے سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا تھا تاہم انھوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے رہنما کی حیثیت سے وہ اس کی ’پوری ذمہ داری قبول‘ کرتے ہیں خاص طور پر اس لیے کیونکہ یہ جرم ایسے افراد سے مرتکب ہوا جو سعودی حکومت کے لیے کام کرتے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32740 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp