عمران خان کے نام کھلا خط


عمران خان صاحب!

اس ملک نے آپ کو بہت عزت دی ہے۔ آپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ 2018 کے انتخابات میں آپ سادہ اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ اپوزیشن کی طرف سے 2018 کے انتخابات کے متعلق پولٹیکل انجینئرنگ اور دھاندلی کے تمام تر الزامات کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے ان انتخابات کو بالکل شفاف تسلیم کر لیا جائے تو بھی پاکستانی عوام نے آپ کی جماعت کو اکیلے حکومت بنانے کا مینڈیٹ کبھی دیا ہی نہیں تھا۔ اس کے باوجود آپ آدھی درجن دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ نہ صرف حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے بلکہ تقریباً آدھی درجن دیگر جماعتوں کے اتحاد سے بننے والی اس حکومت کو ساڑھے تین سال تک قائم رکھنے میں بھی کامیاب رہے۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ایسی مثالیں دنیا میں کم ملتی ہیں۔ یہ سب آئین پاکستان کی وجہ سے ممکن ہوا۔ یہی اس آئینی عمل کی خوبصورتی ہے۔ آپ چاہتے تو آپ اس اتحادی حکومت کو اتنے عرصہ تک چلانے کی بجائے کسی بھی وقت دوبارہ الیکشن میں جاکر مطلوبہ اکثریت حاصل کرنے کی کوشش بھی کر سکتے تھے۔ جیسا کہ انڈیا کی عام آدمی پارٹی نے دہلی میں اپنی پہلی حکومت قائم ہونے پر کیا اور پھر واضح اکثریت حاصل کر کے دوبارہ حکومت میں آئے، اپنے وعدوں کے مطابق ڈیلیور کیا اور اب انڈین پنجاب میں بھی بھاری اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ لیکن آپ نے سیاسی طور پر اپنے لیے جو بہتر سمجھا وہی کیا جس کا آپ کو اور آپ کی جماعت کو پورا حق حاصل ہے۔ اسی طرح ہر سیاسی جماعت اپنے لیے جو بہتر سمجھتی ہے اسے وہ فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔

پارلیمنٹ میں موجود دیگر سیاسی جماعتیں آپ کی جماعت کی دشمن تو نہیں لیکن سیاسی حریف ضرور ہیں۔ ہر سیاسی جماعت دوسری جماعت کی مد مقابل ہے۔ ہر جماعت کا اپنا اپنا مینڈیٹ ہے۔ آپ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ کی حریف سیاسی جماعتوں کو ووٹ حکومت سازی میں آپ کی مدد کرنے کے لیے نہیں ملے، نہ ہی آپ کو ہر صورت وزیر اعظم برقرار رکھنے کے لیے ملے ہیں۔ بلکہ انہیں ووٹ ان کی اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کرنے کے لیے ملے ہیں۔ اگر حکومت قائم نہ کر سکتے ہوں تو انہیں ووٹ اپنی آواز کو قومی فیصلہ سازی میں زیادہ سے زیادہ با اثر بنانے کی کوشش کرنے کے لیے ملے ہیں۔ حکومت بنانے کی کوشش کرنا اور اپنی آواز کو قومی فیصلہ سازی میں زیادہ سے زیادہ با اثر بنانے کی کوشش کرنا ان کے فرائض میں شامل ہے۔ ان کے ووٹرز کی طرف سے انہیں یہی ذمہ داری دے کر اسمبلی میں بھیجا گیا ہے۔

اگر وہ حکومت بنانے کے قابل ہونے کے باوجود جان بوجھ کر حکومت بنانے یا فیصلہ سازی میں اپنا کردار بڑھانے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ اپنے ووٹرز کے ساتھ بددیانتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ووٹر ہی تمام سیاسی جماعتوں کا باس ہے۔ کسی جماعت کا ووٹر اس جماعت سے کیا چاہتا ہے یہ آپ کو یا کسی اور کو بتانے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر جماعت خود اچھی طرح جانتی ہے۔ جانے بغیر گزارا بھی نہیں۔ نہیں جانے گی تو اگلے الیکشن میں ریجیکٹ ہو کر خود ہی سزا پا لے گی۔ آپ کو یا کسی اور کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔

پانچ سال کی مدت اسمبلی کی ہوتی ہے جہاں ارکان پانچ سال کے لیے عوام کی نمائندگی کا حق لے کر آتے ہیں۔ حکومت کی کوئی مدت نہیں ہوتی۔ جب تک اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد حاصل رہے حکومت قائم رہتی ہے۔ جب آپ اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو دیں اس کا سادہ الفاظ میں یہی مطلب ہوتا ہے کہ آپ نے حکمرانی کے لیے عوام کی اکثریت کا اعتماد کھو دیا ہے۔ جسے بھی یہ اعتماد حاصل ہو اسے عوام کی اکثریت کا فیصلہ سمجھ کر کھلے دل سے قبول کرنا چاہیے۔ عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرنے والوں کو غدار قرار دینا عوام کی اکثریت کو غدار قرار دینا ہے۔ عوام کی اکثریت کی رائے کو قبول کرنے کا نام ہی جمہوریت ہے۔ آج یہ کسی اور کے پاس ہے، کل آپ کے پاس ہوگی۔ یہ ہرگز زندگی موت کا مسئلہ نہیں، جیسا کہ بادشاہت کے زمانوں میں ہوا کرتا تھا۔

آپ کا خیر اندیش
شاہد بھٹی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments