ناگپور: جہاں آر ایس ایس نے جنم لیا


ناگپور: ہندو قوم پرستوں کا ہیڈ کوار ٹر۔ جہاں آر ایس ایس نے جنم لیا جو آج مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن ہے

1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

کھانے کے بعد سب لوگوں نے کچھ دیر آرام کیا اور پھر وہی کتاب، اخبار، رسالہ اور باتیں۔ ہماری ٹرین دو بجے کے قریب ناگپور پہنچ گئی۔ میں نے ناگپور سٹیشن سے متعلق پڑھا تھا کہ یہ ہندوستان کا وہ ریلوے سٹیشن ہے جہاں پر لوگ سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں کیونکہ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ مہاراشٹر اکا سب سے پرانا اور مصروف سٹیشن ہے۔ اس کی مصروفیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہاں سے روزانہ ایک سو بیس ٹرینیں گزرتی ہیں۔ یہ یہاں کا ایک بہت بڑا جنکشن ہے۔ پرانا ریلوے سٹیشن 1881 ء میں بنایا گیا تھا۔ موجودہ ریلوے سٹیشن کا افتتاح 1925 ء میں اس وقت کے انگریز گورنر نے کیا تھا۔

حسب ذوق میں اور وقاص صاحب کچھ دیر کے لیے پلیٹ فارم پر اترے۔ ناگ پور ریلوے سٹیشن دیکھ کر ہمیں یہ احساس ہوا کہ یہ واقعی ایک مصروف ریلوے سٹیشن ہیں۔ اس کی بناوٹ صفائی ستھرائی اور یہاں پر رکھی گئی بہت ساری چیزیں اپنے اندر اتنی کشش رکھتی ہیں کہ ہر سال لاکھوں لوگ ناگپور ریلوے سٹیشن کو دیکھنے آتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں دیپ صاحب کے ساتھ اپنی اگلی نشست میں ہونے والی باتوں کا تذکرہ کروں میں چاہوں گا کہ ناگپور کے بارے کچھ باتیں بتائی جائیں۔ اس شہر میں تین ہزار سال پرانی عمارتیں بھی پائی گئی ہیں جو اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ شہر تین ہزار سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔

بھارت میں ہر سال صحت و صفائی، شہری سہولیات، قدرتی حسن اور دیگر کئی عوامل کی بنیاد پر شہروں کی درجہ بندی کی جاتی۔ اس درجہ بندی کے مطابق ناگپور شہر پورے بھارت میں اول نمبر پر ہے۔ یہ صوبہ مہاراشٹر اکا سرمائی کیپیٹل بھی ہے۔ ناگپور آبادی کے لحاظ سے بھارت کا تیرہواں بڑا شہر ہے۔ اسی شہر سے ایک نئی تحریک نے بھی جنم لیا۔ اس تحریک کا مقصد بھارت میں رہنے والے نچلی ذات خاص طور پر دلت اور بدھ مت کے لوگوں کو معاشرے میں صحیح مقام دلوانا تھا۔ ناگپور میں ترشاوہ پھل بڑی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں اس لیے اسے اورنج سٹی بھی کہا جاتا ہے یعنی یہ بھارت کا سرگودھا ہے۔

بدھ مت کے لوگ اپنی عبادت گاہ کو سٹوپہ کہتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا سٹوپہ اسی شہر میں واقع ہے۔ ہندو قوم پرستوں کی تنظیم آر ایس ایس کا ہیڈ کوارٹر بھی یہاں ہی ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ بھارت کے مرکزی حصے میں سب سے زیادہ ہندو رہتے ہیں جبکہ سرحدی علاقوں میں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگوں کی بھی ایک خاصی تعداد آباد ہے۔

اس شہر کے نام سے متعلق دو مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق اس علاقے میں ایک خاص قسم کا سانپ پایا جاتا ہے جسے ناگ کہتے ہیں وہ ہندوؤں کے نزدیک خاصہ متبرک ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس شہر کا نام ناگپور رکھا گیا۔ یہاں سے ایک دریا بھی گزرتا ہے اور اس کا نام بھی ناگ ہے۔ اس لیے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دریا اور شہر کا نام اسی ایک خاص قسم کے سانپ کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ دوسری روایت کے مطابق یہاں پر ناگ نام کی ایک قوم آباد تھی جس کی وجہ سے اس کا نام ناگپور مشہور ہو گیا۔ پاکستان میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے نام کے ساتھ ناگی لکھتے ہیں۔ میں نے کچھ کتابوں کے مصنفین کے نام کے ساتھ بھی ناگ لکھا ہوا دیکھا ہے۔ اس بنیاد پر میرے خیال میں دوسری روایت زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس علاقے میں ناگ قوم کی موجودگی کی وجہ سے شہر کا نام ناگپور پڑ گیا۔

ناگپور میں مختلف مقامات پر کئی ایسے آثار قدیمہ دریافت ہوئے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس علاقہ میں تین ہزار سال قبل بھی لوگ رہتے تھے۔ اس علاقہ پر مختلف ہندو راجاؤں نے تیرہویں صدی کے آخر تک حکومت کی۔ علا الدین خلجی نے تیرہویں صدی میں اس علاقے پر حملہ کیا اور مقامی ہندو راجاؤں کو شکست دے کر اپنی حکومت قائم کرلی۔ اس کے بعد چودھویں صدی کے آخر میں تغلق خاندان نے اس علاقے میں اپنی باقاعدہ ریاست کا اعلان کر دیا۔ یہ علاقہ دہلی کے مختلف سلاطین کے ماتحت رہا۔ سترہویں صدی میں مغل حکمرانوں نے سلاطین دہلی کو شکست دے کر ان کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح اورنگ زیب کے زمانے میں یہ علاقہ بھی مغلیہ سلطنت کا حصہ بن گیا۔

اورنگ زیب نے اس علاقے کے انتظامی معاملات کے لیے مقامی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر انھیں تمام تر انتظامات کا ذمہ دار بنا دیا۔ مغلوں نے جس مقامی قبیلے کے لوگوں کو اس علاقے کا انتظام دیا تھا انھوں نے اسلام قبول کر لیا جن میں سب سے مشہور نام بخت بلند شاہ کا ہے۔ بخت بلند شاہ نے ناگپور شہر کی ترقی میں بے حد اہم کردار ادا کیا اور اس علاقے میں اسلام کی سربلندی کے لیے کئی کام کیے۔ اس علاقے میں انھوں نے کئی مساجد بھی تعمیر کروائیں۔ مغلوں کی حکومت ختم ہوتے ہی مراٹھوں نے اس ریاست پر حملہ کیا اور یہاں پر اپنی حکمرانی قائم کرلی۔ یہ اس بات کا تسلسل تھا کہ جیسے ہی مرکز میں مغل کمزور ہوئے تو دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں نے ایک طرح سے آزادی کا اعلان کر دیا۔

اس دوران انگریز مختلف ریاستوں سے لڑائی کر کے ان پر قبضہ کرتے رہے۔ انگریزوں کے نزدیک ناگپور کا علاقہ بے حد اہم تھا۔ ناگپور کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے انگریزوں نے مراٹھوں کے ساتھ تین مشہور لڑائیاں لڑیں۔ تیسری لڑائی 1817 ء میں لڑی گئی جس میں مراٹھوں کو شکست ہوئی اور انگریزوں نے اس علاقے پر قبضہ کر کے اسے برٹش انڈیا کا حصہ بنا لیا۔

ناگپور اس لحاظ سے ایک منفرد شہر ہے کہ یہاں سے دو مختلف تحریکوں کا آغاز ہوتا ہے۔ پہلی تحریک کا نام ”راشٹریا سوامی سیوک سنگھ“ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1923 ء میں اس شہر میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ جن میں اقلیت ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا۔ ہندوؤں نے اس چیز کا فائدہ اٹھایا اور ہندو قوم پرستی کا نعرہ لگایا۔ اس کام کے لیے انھوں نے ایک تنظیم بنائی جسے ہم عمومی طور پر آر ایس ایس کا نام دیتے ہیں۔ اب یہ پورے ہندوستان میں پھیل چکی ہے اور ہندوستان میں ایک طرح سے ہندو قوم پرستی کی نمائندہ تنظیم ہے۔ بہت سارے سیاسی رہنما بھی اس سے وابستہ ہے۔

دوسری تحریک امبید کرنامی ایک شخص نے شروع کی۔ وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے بعد میں انھوں نے بدھ مت اختیار کیا اور اپنی ایک پارٹی بنائی جس کا مقصد نچلی ذات کے لوگوں کو ان کے حقوق دلوانا تھا۔ یہ صاحب کافی پڑھے لکھے تھے اور نہ صرف انگریزوں کے دور میں بڑے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ بلکہ بھارت کی ابتدائی حکومتوں میں بھی وزارت کے عہدہ پر فائز رہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بھارت کا واحد شہر ہے جہاں پر بدھ مت سولہ فیصد کے قریب ہیں۔ اس شہر میں مسلمان بارہ فیصد اور ہندو تقریباً ستر فیصد ہیں۔ میرے علم کے مطابق شاید ہی بھارت کا کوئی دوسرا شہر ہو جہاں بدھ مت کے لوگ اتنی بڑی تعداد میں رہتے ہوں۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ جب امبیدکر نے بدھ مت اختیار کیا اور وہ بہت مشہور ہو گئے تو لوگ ان کی خدمات کا اعتراف بھی کرنے لگے۔ ایسی صورت میں ان کے بہت سارے چاہنے والوں نے ہندومت چھوڑ کر بدھ مت اختیار کیا۔

ٹاٹا خاندان نے اس علاقہ میں پہلی ٹیکسٹائل مل لگائی۔ اس مل کے افتتاح کے لیے یکم جنوری 1877 ء کا دن مقرر کیا گیا۔ یہ دن مقرر کرنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس دن برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کو ہندوستان کی پرنسز کا خطاب دیا جانا تھا۔ لہذا دونوں کام ایک ہی دن ہوئے۔ بعد ازاں لوگ اس مل کو پرنسز مل ہی کہتے تھے۔ آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے اس سے اچھا اور کیا طریقہ ہو سکتا تھا؟

جب غلام، غلامی کو پسند کر لے تو پھر وہ اپنے آقا کی ہر بات کی نقل کرنا پسند کرتا ہے۔

بہرحال غلامی میں ایسا تو ہوتا ہے۔ جب غلام، غلامی میں خوش ہوں تو آقا کو انھیں آزاد کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

ناگپور کی مختصر روداد میں نے آپ کے سامنے پیش کی جو اس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ بھارت کے مختلف علاقوں میں بے شمار اہم شہر موجود ہیں جن کے بارے میں ہم پاکستانیوں کا علم بہت محدود ہے۔ اس کی وجہ ایسے شہروں کا پاکستان سے دور ہونا ہے۔ ابھیشیک چوہدری نے ناگپور کے بارے ایک طویل مضمون Nagpur as the heart of India کے نام سے لکھا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ناگپور بھارت کا دل ہے۔ یہ مضمون ٹائمز آف انڈیا نے چھاپا ہے 1۔ اسی اخبار میں انجایا انپارتھی کے Nagpur is now Orange City، officially کے نام سے ایک مضمون لکھا ہے یعنی ناگپور بھارت کا سرگودھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments