نریندر مودی کی والدہ کی 100ویں سالگرہ: انڈین وزیر اعظم کا کا پہلی بار والد کا ذکر، ماں آج بھی میرا منہ پونچھتی ہے


انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے سنیچر کا دن اپنی والدہ ہیرابین مودی کی 100 ویں سالگرہ پر گجرات کے دارالحکومت گاندھی نگر میں ان کے گھر جا کر گزارا۔

اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنی والدہ کی سالگرہ پر ایک بلاگ کے ذریعے جہاں اپنی والدہ کی کئی یادوں کا تذکرہ کیا وہیں انھوں نے پہلی بار اپنے والد کے بارے میں بھی بات کی ہے۔

یہ بلاگ انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔

انھوں نے لکھا ہے کہ ’ماں، یہ صرف ایک لفظ نہیں ہے، یہ زندگی کا احساس ہے جس میں پیار، صبر، اعتماد اور بہت کچھ ہے۔ آج میں اپنی خوشی، اپنی خوش قسمتی، آپ سب کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں۔ میری والدہ 18 جون کو اپنے سوویں سال میں داخل ہو رہی ہیں۔‘

پی ایم مودی نے شاید پہلی بار اپنے والد کا بھی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’میرے والد اگر آج ہوتے تو وہ بھی گذشتہ ہفتے 100 سال کے ہو چکے ہوتے۔‘

پی ایم مودی نے لکھا کہ ’اگرچہ ہمارے یہاں سالگرہ منانے کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن خاندان میں نئی نسل کے بچوں نے اس بار والد کی صد سالہ پیدائش کے موقع پر 100 درخت لگائے ہیں۔‘

پی ایم مودی نے اپنی زندگی کے لیے والدین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا کہ ’آج میری زندگی میں جو کچھ ہے، میری شخصیت میں جو بھی اچھا ہے، وہ ماں اور باپ کا دیا ہوا تحفہ ہے۔ آج جب میں دہلی میں بیٹھا ہوں تو کتنا کچھ پرانا یاد آ رہا ہے۔‘

پی ایم مودی نے والدہ کے بارے میں بہت سی ذاتی باتیں بتائیں

پی ایم مودی نے بتایا کہ ان کی والدہ کی پیدائش وڈنگر کے قریب ایک علاقے میں ہوئی۔ ہیرابین کی پیدائش کے چند دن بعد، ان کی والدہ، پی ایم کی نانی کا انتقال ہو گیا تھا۔ ایک صدی قبل ایک عالمی وبائی مرض میں ان کی موت ہو گئی تھی۔

پی ایم مودی لکھتے ہیں کہ ’میری ماں کا بچپن اپنی والدہ کے بغیر گزرا، وہ اپنی ماں سے ضد نہیں کر پائیں، ان کے آنچل میں سر نہیں چھپا پائیں، انھوں نے سکول کا دروازہ بھی نہیں دیکھا تھا۔ انھوں نے دیکھی تو صرف غریبی اور محرومی۔‘

پی ایم مودی لکھتے ہیں کہ ان کی والدہ اپنے خاندان میں سب سے بڑی تھیں اور ’شادی ہوئی تو بھی سب سے بڑی بہو بنیں۔‘

گھر میں نہ کھڑکیاں تھیں، نہ غسل خانہ

اپنے بچپن کے گھر کا ذکر کرتے ہوئے پی ایم مودی نے لکھا کہ ’وڈنگر کے جس گھر میں ہم لوگ رہتے تھے وہ بہت ہی چھوٹا تھا۔ اس گھر میں نہ کھڑکیاں تھیں، نہ غسل خانہ۔‘

’کل ملا کر مٹی کی دیواروں اور کھجور کی چھت سے بنا وہ ایک ڈیڑھ کمرے کا ڈھانچہ ہی ہمارا گھر تھا، اسی میں ماں پتا جی اور ہم سب بہن بھائی رہتے تھے۔‘

’اس چھوٹے سے گھر میں ماں کو کھانا بنانے میں مشکل پیش آتی تھی اسی لیے پتا جی نے گھر میں بانس کے پھٹوں اور لکڑی کے تختوں سے ایک مچان جیسی بنوا دی تھی، وہی مچان ہمارے گھر کا کچن تھا۔‘

’ماں اسی پر چڑھ کر کھانا پکاتی تھی اور ہم بھی اسی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی انڈیا کی سب سے مقبول جماعت کیسے بنی؟

امت شاہ: جنھوں نے مودی کو سپرسٹار بنایا

’یہ بہترین مباحثہ ہو گا اگر مودی بغیر ٹیلی پرامپٹر بولنا سیکھ لیں‘

اپوزیشن والے نریندر مودی حکومت والے مودی سے کتنے مختلف ثابت ہوئے؟

ماں دوسروں کے گھر جا کر برتن بھی مانجھا کرتی تھیں

اپنے والد کا ذکر کرتے ہوئے مودی لکھتے ہیں کہ ’والد صبح چار بجے گھر سے نکلتے تھے۔ ماں بھی وقت کی اتنی ہی پابند تھیں۔ ان کو بھی صبح چار بجے اٹھنے کی عادت تھی۔‘

اپنی والدہ کی جدوجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے مودی لکھتے ہیں کہ ’گھر چلانے کے لیے دو چار پیسے زیادہ مل جائیں، اس لیے ماں دوسروں کے گھر جا کر برتن بھی مانجھا کرتی تھیں۔‘

وقت نکال کر وہ چرخہ بھی کاٹتی تھی کیونکہ اس سے بھی کچھ پیسے اکٹھے ہو جاتے تھے۔ روئی نکالنا، روئی سے دھاگے بنانا، یہ سب کام ماں خود ہی کرتی تھیں۔ ان کو ڈر رہتا تھا کہ کبھی ہم بچوں کو کانٹے نہ چبھ جائیں۔‘

اپنی والدہ کے طرز زندگی کا تذکرہ کرتے ہوئے پی ایم مودی نے لکھا کہ ان کی والدہ ’صفائی کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ گھر کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے وہ خود گھر کی دیواروں کو لیپتی تھیں۔‘

اپنی ماں کا تذکرہ کرتے ہوئے پی ایم مودی لکھتے ہیں کہ آج بھی ان کی والدہ پرفیکشن پر دھیان دیتی ہیں۔

’ہر کام میں پرفیکشن کی ان کی عادت اب بھی ویسی کی ویسی ہے۔ اب جب کہ گاندھی نگر میں ایک بھائی کا خاندان رہتا ہے، میرے بھتیجے کا خاندان رہتا ہے، وہ اپنے تمام کام خود ہی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔‘

ماں کی کوئی جائیداد نہیں

پی ایم مودی نے لکھا ہے کہ ’جس طرح ایک ماں کھانا کھلانے کے بعد اپنے بچے کا منہ پونچھتی ہے، ان کی ماں اب بھی ان کے ساتھ ویسا ہی کرتی ہیں۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ’میں آج بھی جب ان سے ملنے جاتا ہوں، وہ مجھے اپنے ہاتھ سے مٹھائی ضرور کھلاتی ہیں۔ آج بھی مجھے کچھ کھلانے کے بعد، میری ماں رومال سے میرا منہ ضرور پونچھتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنی ساڑھی میں رومال رکھتی ہیں۔‘

ہیرابین وزیر اعظم کی ماں ہیں، تو وہ کیسا محسوس کرتی ہیں، کتنا فخر کرتی ہیں؟ اس پر ہیرابین کہتی ہیں ’جتنا آپ فخر کرتے ہیں، میں بھی اتنا ہی کرتی ہوں۔ ویسے بھی میرا کچھ نہیں ہے۔ وہ تو بھگوان کا ہے۔‘

پی ایم مودی نے لکھا ہے کہ ’آپ نے بھی دیکھا ہوگا، میری ماں کبھی بھی کسی سرکاری پروگرام میں میرے ساتھ نہیں جاتیں، اب تک ایسا صرف دو بار ہی ہوا ہے جب وہ کسی سرکاری تقریب میں میرے ساتھ آئی ہیں۔‘

ان دو مواقع کا ذکر کرتے ہوئے پی ایم مودی نے کہا کہ جب وہ ایکتا یاترا کے بعد پہلی بار سری نگر کے لال چوک پر جھنڈا لہرانے کے بعد واپس آئے تو احمد آباد میں منعقد ہونے والے پروگرام میں اسٹیج پر ان کی والدہ نے ان کا ٹیکہ کیا تھا۔

پی ایم مودی لکھتے ہیں کہ ’دوسری بار وہ میرے ساتھ اس وقت آئیں جب میں نے پہلی بار وزیر اعلیٰ کے طور پر حلف لیا تھا۔ 20 سال پہلے کی حلف برداری وہ آخری تقریب تھی جب والدہ میرے ساتھ کسی تقریب میں موجود تھیں۔ اس کے بعد وہ کبھی نہیں آئیں۔‘

پی ایم مودی نے بتایا کہ ان کی ماں کی کوئی جائیداد نہیں ہے۔ ’وہ کوئی سونا نہیں پہنتیں۔‘

پی ایم مودی نے لکھا ہے کہ ان کی والدہ ملک اور دنیا کی خبروں سے بہت باخبر ہیں۔ تاہم ٹی وی چینلز کے حوالے سے ان کی رائے مختلف ہے۔

پی ایم مودی لکھتے ہیں کہ ’حال ہی میں، میں نے ماں سے پوچھا کہ آپ ان دنوں کتنا ٹی وی دیکھتی ہیں؟ ماں نے کہا کہ ٹی وی پر تو ہر وقت سب آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں، ہاں، کچھ ہیں جو سکون سے سمجھاتے ہیں اور میں ان کو دیکھتی ہوں۔‘

پی ایم مودی نے کہا کہ پہلے ان کی والدہ ان کو تم کہہ کر پکارتی تھیں لیکن ’اب وہ مجھے آپ کہہ کر پکارتی ہیں۔‘

پی ایم مودی نے لکھا کہ ’جب تک میں گھر میں رہا، ماں صرف تو کہہ کر مجھ سے بات کرتی تھی، لیکن جب میں نے گھر چھوڑا، اور اپنی راہ بدلی، اس کے بعد ماں نے مجھ سے کبھی تم کہہ کر بات نہیں کی، وہ آج بھی مجھ سے آپ کہہ کر بات کرتی ہیں۔‘

پی ایم مودی نے لکھا: ’ماں اکثر پوچھتی ہیں، دہلی میں اچھا لگتا ہے؟ من لگتا ہے؟‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32840 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments