عقدۂ سائنس اور وقت – بمعنی عقیدۂ اسلام


سائنس اور وقت کے بارے میں انسان کو جو عقدہ، مخمصہ یا معمہ رہتا چلا آ رہا ہے، وہ یہ ہے کہ آیا سائنس اور وقت کسی خودکار عمل وقوع کا نتیجہ ہیں یا یہ کسی غیبی قوت کی سوچی سمجھی حکمت پر مبنی عملداری کے طے کردہ محاسن ہیں؟ اس بابت جواب کے حتمی معنی اب تک اس بنا پر معلوم نہیں کیے جا سکتے ہیں کہ عقدہ یا معمہ چونکہ ہمیشہ انسانی منطق یا عقلیت کو لاحق ہوتا ہے، جب کہ انسانی عقیدہ یا ایمان، خواہ وہ جیسا بھی ہو، اپنی جگہ معنوی قبولیت میں اٹل اور قطعی ہوتا ہے، اس لیے انسانی ایمان یا عقیدت کے ضمن میں کوئی عقدہ، معمہ، تذبذب، الجھاؤ یا کسی بے یقینی کا تامل باقی نہیں رہتا۔

ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ عقدہ چونکہ انسانی منطق یا اقلیت کی وجہ سے جگہ پاتا ہے، جس کی رسائی ایک حد پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ جبکہ ایمان یا عقیدت کا خاصہ یہ ہے کہ یہ شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے، جہاں منطق یا اقلیت کی رسائی کی حد ختم ہو جاتی ہے اور اس سے آگے صرف اور صرف غیب کی راز داری کا پیغام ہی ماننا یا نہ ماننا باقی رہ جاتا ہے۔ اس جانب عقیدہ اسلام میں جو پیغام مضمر ہے، اس کی رو سے یہ جانچنا درکار ہے کہ سائنس اور وقت کا جو عقدہ یہاں ابتدائی سطور میں سامنے لایا گیا ہے، اس کی گرہ کشائی کا سامان اسلام میں کس طرح سموکر متعارف کرایا گیا ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک دفعہ سائنس، وقت اور اسلام کی دی گی تینوں اصطلاحات کی فردا ”فردا“ تعریف دہرا لی جائے، تاکہ ان کے عام فہم معنی پیش نظر رکھے جاسکیں، اور مطلوبہ تجزیے میں ان معنوں کا انطباق و اطلاق کرنے میں کوئی دشواری حائل نہ ہو پائے۔

عام فہم معنوں میں سائنس انسانی منطق یا اقلیت کے لئے ایسا کثیر الجہت تقیقاتی و مطالعاتی مضمون ہے، جو نظام کائنات، اس کے طبعی و غیر طبعی مشاہدات اور اس کے بپا کردہ مظہرات، تغیرات و تحریکات میں کار فرما قوانین حرکات و سکنات کا واقعاتی علم واء کرتا ہے اور آگے اس علم کو عملاً آزمانے کی کلید بنا ہے۔ نظام کائنات میں قوانین کی یہ تقویم، تقسیم اور تنفیذ جس پیرایہ استدلال و استکمال پر استوار ہے، انسان کے نزدیک اسے سائنس کے نام سے گردانا اور جانا جاتا ہے، جو بہ لحاظ منظر بینی و قیاس آزمائی اپنی جگہ ایسی کی کائناتی تہذیب، اس کی ترویج اور تدریج کی حکمت بے گوئی ہے، جس کی ترویج ارتقا کا آخری درجہ تہذیب ارضی کی آکای میں حیات انسانی کی صورت میں یوں ڈھل کر قائم ہو گیا، گویا نظام کائنات کے قوانین کی تقویم، تقسیم اور تقیذ کے پس منظر میں مستور غریبی حکمت بے گو ہی کو حکمت گویائی کے انسانی وجدان کا پیرایہ مل گیا۔

انسانی وجدان کا یہی پیرایہ یہاں سائنس کے نام سے متعارف اور موسوم ہو گیا، جو انسان کی دریافت یا وجدان علمیت تو ہے لیکن اس کی تخلیق یا تقویم ہرگز نہیں۔ کسی قانون کی کوئی بھی نوعیت از خود طے ہو سکتی ہے، نہ اس کی تشکیل سازی ہو سکتی اور نہ ہی سکا نفاذ، تعطل، تبدل یا تعلق کسی عملداری کے زیر اثر ہوئے بغیر قرار پا سکتا ہے۔ اس لیے یا سائنس کی بابت بیان کردہ تمام معنوں اور لوازمات اس لیے ہے کہ نظام کائنات میں کارفرما سائنس ( حکمت بے گوئی ) کسی خود کار عمل کا نتیجہ ہرگز نہیں، بلکہ حکمت بیگویی بجائے خود ایک غیبی فرما نر وائی اور مطلق عملداری کے حساس لیکن مستور وجود کی پیغام رسائی ہے

سائنس کی طرح وقت یا ٹائم اپنے سیدھے سادے معنوں میں کسی بھی عدم یا وجود کی مداومت کی مدت ہوتا ہے۔ تشکیل کائنات کا عمل شروع ہونے سے پہلے ٹائم۔ سپیس کی دوگونہ وحدت کا بے حد و گنار ایکا موجود رہا تھا۔ اس لحاظ سے ٹائم یا وقت کا قیام بھی ازلی ہے اور سپیس کا علاقائی سراپا بھی ازلی ہے۔ وقت حتمی حرکت کا ٹھہرا ہوا عہد و پیمان ہے اور سپیس حتمی سکون کا طبعی میدان ہے۔ وقت کے عہد و پیمان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی حرکت کے آگے کوئی فاصلاتی مسافت حائل نہیں ہو سکتی، بلکہ اس کی رسائی کسی قرب یا بعد پر یکساں جنبش سے ثبت رہتی ہے۔

کائنات بننے کی ابتدا لگنے سے پہلے سپیس کے خالی رہنے کی حالت کسی نہ کسی ممکنہ مدت سے گزری ہو تو ایسی مدت لامحالہ وقت کے ہونے کی بنا پر ہی طے ہوئی ہوگی، جسے شمار میں لانے کی اکائی وقت کا یکساں اور مستقل عدد بروئے کار آتا ہے۔ اس صورت میں کہ جب وقت کی کلی اور ہمہ گیر ماہیت اپنی یکساں اور مستقل عددی اکائی سے سپیس کے پورے منظر پر یکبارگی سے طاری تھی، تو یقیناً وقت کی زمانہ جاتی تقسیم اس کے ماضی، حال یا مستقبل سے کی جانی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ دوسرے لفظوں میں وقت کا قیام نہ صرف ازلی ہے بلکہ ابدی بھی ہے۔ ماضی، حال یا مستقبل کی ساکنات پر واقعاتی تقسیم سپیس کی مختلف حالتوں سے طے ہوتی ہے کیونکہ تغیرات کے واقعات سپیس کی سکنات پر رونما ہوتے ہیں۔ بگ بینگ کا واقعہ رونما ہوا، تو سپیس کا حال لگنا بپا ہو گیا اور اس سے پہلے اس کی گزری ہوئی حالت سپیس کا ماضی ہو کے رہ گئی۔ سپیس کا ماضی اور حال اس کے مستقبل سے لازما ”مشروط ہیں، جو بالآخر رونما ہو گا، تو اس کی نوعیت کیا ہوگی؟ یہ سوال انسانی ایمان یا عقیدے کا ہے، اور جس کا جواب وقت ہی دے گا جو ازل سے ابد تک یکساں رسائی کا عہد و پیمان ٹھہرا ہوا ہے۔

سائنس اور وقت کا عقدہ جب انسانی منطق یا عقلیت کی رسائی سے آگے جاکر کھولنا درکار ہو، تو اس کے لیے انسانی ایمان یا عقیدہ ہی باقی رہنا دکھائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں عقیدہ اسلام کا انتخاب ہی برمحل ٹھہر تا ہے، جو دنیائے مذاہب اور سلسلہ نزول وحی کی آخری کتاب کے صحیفہ قرآن سے ماخوذ ہے، اور جو اپنی جگہ اس لیے ’مکمل ضابطہ حیات انسانی‘ ہے کہ اس کی تکمیل اس دور میں آ کر پوری ہوئی، جب انسانیت اپنے تولد، بچپن اور لڑکپن کے ادوار سے نکل کر اپنے دور بلوغت سے ہمکنار ہو گئی۔

قرآن میں سائنس اور وقت کی تفہیم کے بارے میں متعدد دیگر دی گئی آیات کی بجائے صرف ’الحی القیوم‘ کے ایک جملے کو ہی سامنے رکھا جائے تو ٹائم۔ سپیس کے دور ماضی سے لے کر نظام کائنات کے جاری دور حال اور پھر اس سے آگے آخرت کے دور مستقبل تک سائنس اور وقت کا سارا عقدہ پوری طرح کھل کر انسان کے سامنے آ جاتا ہے۔ الحی کا تعلق ٹائم یا وقت سے ہے اور القیوم کا تعلق سپیس سے جا جوڑتا ہے، کیونکہ الحی کا ترجمہ ’وہ ( اللہ) خود زندہ حقیقت ( زندگی) ہے‘ زندگی خود وقت یا عمر سے عبارت ہے، اللہ کا ہونا گویا وقت کا ہونا قرار پا گیا۔

القیوم کا ترجمہ ’دوسری چیزوں (سب) کو قائم رکھنے والا ہے۔ ‘ قائم ہونے کے لئے قیام کی جگہ، گھر یا مسکن ضروری ہے۔ کائنات اور اس کے ظاہری و غیبی اور طبعی و غیر طبعی موجودات از خود قیام نظیر نہیں ہوئے اور نہ یہ کسی خودکار عمل کا نتیجہ ہیں، بلکہ عقیدہ اسلام کی رو سے یہ اللہ کی غیبی قوت عملداری کی سوچی سمجھی سکیم کا نتیجہ ہیں، جسے اپنی اطاعت کو بر ہنہ حقیقت کے روپ میں منوانا گوار نہیں رہا تھا، تو اس کی تخلیق کا فیصلہ سب سے آخر میں لانا باقی رکھ چھوڑا رہا۔

محمد فاروق
مصنف: ”انسانی تہذیب اور خلافت کا نظام“ ،
”پاک۔ بھارت ونڈت میں ہند جڑت کی بولی“ ،
اور ”سیاسی نظری مغالطوں میں ہندو مسلم ایکا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments