جمہوری اقدار: مڈل کلاس اور مغرب زدہ لبرلز


جنرل ضیاء الحق کے نوے دن ’مثبت نتائج‘ کے انتظار میں برسوں پر محیط ہو گئے۔ فوجی حکمرانوں کا عام انتخابات سے انکار تو قابلِ فہم ہے۔ جمہوری حکومتیں مگر چاہے کس قدر بھی بُری ہوں، عوام کے پاس جانے سے کنی کتراتے ہوئے اچھی نہیں لگتیں۔ پچھتر سالہ ملکی تاریخ میں کسی جمہوری حکومت کی طرف سے مختلف حیلوں بہانوں کی آڑ میں انتخابات سے فرار ایک ایسی تہمت ہے جو صرف موجودہ حکومتی اتحاد کے سر آئی ہے۔ ایک ایسا اتحاد کہ جس کے نام میں بھی ’جمہوری‘ آتا ہے۔ دوسری طرف اندیشہ ہائے دور دراز اگر لاحق نہ ہوں تو از کارِ رفتہ سپاہی اقرار کرے کہ جبر کا جو موسم وطنِ عزیز پر اب گزر رہا ہے، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے ابتدائی چند برسوں کے بعد کم ازکم کسی سویلین دور میں ہم نے نہیں دیکھا۔

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء کے دوران ہم نوجوان افسر تھے۔ سیاسی معاملات سے کوسوں دور رہتے، مگر خفیہ ایجنسیوں کی ارد گرد نادیدہ موجودگی کا احساس ہمیں رہتا۔ کئی اوہام اور اندیشے دلوں میں کلبلاتے۔ ایسا محسوس ہوتا جیسا ٹیلی فون پر گفتگو محفوظ نہیں۔ ایسا ہی کچھ احساس آج بھی ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے ہمارا واہمہ ہی ہو۔ ناچیز کہ مگر کوتاہ ہمت ہے۔ بوڑھے جرنیل سے عمر میں بیس بائیس برس کم ہے۔ دل اور جگر کی مضبوطی میں مگر کہیں کم ہے۔ سلام ان پر جو میرے اور آپ کے بچوں کے مستقبل کے لئے سختیاں جھیلتے ہیں۔ میں اور آپ جنہیں گھر بیٹھے ٹی وی کی سکرینوں پر لاٹھیاں کھاتے، عدالتوں میں غداری، بغاوت اور دہشت گردی جیسے الزامات کا طوق گلے میں پہنے دھکے کھاتے دیکھتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس کا تاثر کسی زمانے میں ہم جیسوں کے ذہنوں میں صوبائی پولیس فورسز کی نسبت ایک ’سویلائزڈ‘ ادارے کا تھا۔ کچھ مہینوں سے اب نیلی وردی سے زیادہ خوف آنے لگا ہے۔

مڈل کلاس پاکستانیوں کو موجودہ نظام مخالف تحریک کی ریڑھ کی ہڈی کہا جا سکتا ہے۔ عام سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں لائے جانے والوں کے برعکس اس نسبتاً پڑھے لکھے طبقے سے وابستہ لوگ کرائے کی بسوں اور ویگنوں پر لاد کر نہیں لائے جاتے۔ اپنی کاروں اور موٹر سائیکلوں پر ٹولیوں کی شکل میں جلسہ گاہ پہنچتے ہیں۔ تاہم جلسہ گاہ پہنچنا، جلسہ سننا اور گھروں کو پرامن طور پر لوٹ جانا ایک مختلف بات ہے۔ لانگ مارچ کی کال پر پولیس کے خلاف مزاحمت مگر ایک الگ معاملہ ہے۔ آنسو گیس کے گولوں کی برسات کے اندر پولیس کی نگرانی میں جب لٹھ بردار افراد گاڑیوں کو ڈنڈوں سے توڑتے ہیں تو صورتِ حال بالکل ہی بدل جاتی ہے۔

نظام کی تبدیلی کے لئے نکلنے والے پرجوش خواتین و حضرات کو اس بات کا اندازہ پہلی بار اس وقت ہوا جب 25 مئی والے دن اپنی آنکھوں کے سامنے انہوں نے عمر بھر کی کمائی سے خریدی گئی اپنی گاڑیوں کو لٹھ بردار جتھوں میں گھرے ہوئے پایا تھا۔ ایک خیال ہے کہ خان صاحب اپنے حامیوں کو ان کی افتاد طبع سے ہٹ کر آزمائش میں ڈالتے ہیں۔ جیل بھرو تحریک کو بھی ایسی ہی ایک ناقابلِ عمل کال کہا جا سکتا ہے۔ جنرل امجد شعیب نے یہی تو سمجھایا تھا۔ اُن کی گرفتاری کا سبب مگر سول ملازمین کو کام چھوڑنے کی ترغیب دیے جانے کا مشورہ بتایا جاتا ہے۔

پولیس، کچہری اور جیل سے مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے لوگ عموماً گھبراتے ہیں۔ مٹھی بھر گورے پولیس افسروں کے زیرِ کمان مقامی پولیس فورس کے بل بوتے پر انگریز مجسٹریٹوں نے برصغیر پر تاج برطانیہ کی حکمرانی ایک صدی تک برقرار رکھی تھی۔ خوف، خوشامد اور اطاعت کی نفسیات ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ جنرل امجد شعیب کی مختصر عرصے پر محیط گرفتاری نے بہت سوں کے لئے عبرت کا سامان پیدا کیا ہے۔ شاید مطلوب بھی یہی تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑے اَسّی سالہ شخص کی تصویر لیڈی میکیبتھ کو خواب میں اپنی ہتھیلی پر نظر آنے والے داغ کی طرح ایک عرصہ نظر آتی رہے گی۔ رگڑ رگڑ کر بھی جو مٹائی نہ جا سکے گی۔

انگریزوں سے آزادی کے بعد وطن عزیز وجود میں آیا تو ابتدائی برسوں کے دوران مذہبی قوتوں، جاگیردارانہ تسلط اور سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے سامنے بائیں بازو کی سیاست طبقاتی نظام کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن کر ابھری۔ اَسّی کی دہائی میں سوشل ازم نے پسپائی شروع کی تو ہمارے خطے میں بھی پرانے اتحادی حریفوں اور حریف اتحادیوں میں بدلنے لگے۔ اکیسویں صدی کا ظہور ہوا تو کل کے ’سُرخے‘ راتوں رات ’لبرل‘ بن گئے۔ آج انہی ’سرخوں‘ میں سے اکثر ’مغرب زدہ لبرلز‘ کے ہراول دستوں میں شامل ہیں۔

گزشتہ ڈیڑھ دو عشروں سے زندگی کے ہر شعبے میں موجود یہی مغرب زدہ لبرلز ایک ’نیٹ ورک‘ کی شکل میں جمہوریت، سویلین بالا دستی، شخصی آزادیوں سمیت انسانی حقوق کی سر بلندی کے لئے ’جد و جہد‘ میں مصروف رہے ہیں۔ انگریزی لکھنے اور کالی کافی پینے والے ہم جیسوں کو حقارت سے دیکھتے۔ بس ایک دوسرے کی پیٹھ کھجلاتے۔ مغربی دارالحکومتوں میں سیمنار منعقد ہوتے۔ انہی ممالک کے نشریاتی اداروں کی اردو نشریات میں پاکستان کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا۔ انہی ممالک کے ترجمان علی الصبح میڈیا نمائندوں کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں جمہوری اور انسانی حقوق اور شخصی آزادیوں پر اپنی اپنی تشویش سے آگاہ کرتے۔

آج جب کہ سیاسی شطرنج پر مہروں کا رُخ بدل چکا ہے تو زندگی کے ہر شعبے میں موجود خاندانی بادشاہت کے پیرو کاروں اور الیکٹرانک میڈیا کی پیداوار نیم خواندہ ’میڈیا سٹارز‘ کا بدلا ہوا رویہ یقیناً قابلِ فہم ہے۔ حیرانی ہوتی ہے تو جمہوری روّیوں کے علمبردار ’مغرب زدہ لبرلز‘ کے طرزِ عمل پر کہ جن میں سے اکثر پڑے آج کل دائیں بائیں کی ہانکتے ہیں۔ والٹیئر نے اپنے فکری حریف کو مخاطب کیا، ’مجھے تیری رائے سے اختلاف ہے، مگر میں تیرے حقِ اختلاف کے تحفظ کے لئے اپنی جان دے دوں گا‘ ۔ والٹیئر جیسوں کو ہمارے لبرلز پیرو مرشد مانتے ہیں۔ جیسے میں اور آپ مذہب کو مانتے ہیں۔

جبر کے اس موسم میں خاموشی اختیار کیے جانے کے پیچھے یقیناً ’مہذب مغربی ممالک‘ کے ترجمانوں کے پاس بھی ضرور کچھ نہ کچھ دلائل تو موجود ہوں گے۔ ضرور کچھ حکمت ہی کار فرما ہو گی۔ آخر ’جمہوری قوموں‘ کے بھی کچھ قومی اہداف ہوتے ہیں کہ جن کا حصول ہمہ وقت اُن کے ہاں کی حکومتوں کے پیشِ نظر رہتا ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ کیا اب ہمارے اپنے جمہوریت پسند لبرلز، انسانی حقوق کی تنظیموں اور آئے روز چوک چوراہے میں کھڑی سول سوسائٹی کو بھی سب ہرا نظر آتا ہے؟ کیا عوام کے بنیادی معاشی اور معاشرتی حقوق کی صورتحال پہلے سے بہتر ہے؟ عوام کو ان کا حقِ رائے دہی لوٹائے جانے میں اگر کوئی حکومت لیت و لعل سے کام لیتے ہوئے دکھائی دے تو کیا اس رویے کو جمہوری کہا جا سکتا ہے؟ سوال تو یہ بھی ہے کہ انتخابات میں ’مثبت نتائج‘ کا انتظار اگر خدا نخواستہ کسی حادثے کا سبب بن جائے تو یہی جمہوریت پسند لبرلز کس منہ سے ہم جیسوں کو جمہوریت اور جمہوری اقدار پر درس دیا کریں گے؟ یا کہ پھر بھی دیا کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments