مفت آٹا اور کافر مینار


سال رواں 2023 سیاسی، معاشی، سماجی اور عدالتی بحران کے حوالے سے تاریخ پاکستان میں ایک بدترین سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اسی سال پاکستان کے آئین کی گولڈن جوبلی بھی منائی گئی لیکن اس کی خوشی عدلیہ پارلیمنٹ کے درمیان جاری گھمسان کی جنگ کی نذر ہو گئی۔ کسی بھی ملک کی سپریم کورٹ سب سے بڑی ملکی عدالت اور پارلیمنٹ سب سے بڑا جمہوری ادارہ ہوتا ہے اور ملک کا مستقبل انہی دو سے وابستہ ہوتا ہے۔ لیکن سال رواں میں ہمارے ہاں اب تک جو کچھ ہوا ہے اس کے باعث یہ ماننا چنداں مشکل نہیں رہا کہ ایک طرف عدل نہیں رہا تو دوسری طرف جمہوریت بالکل ہی نہیں رہی۔ دونوں فریقین ماضی کے ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ معتبر ترین اداروں کی اس قسم کی ذلت اور رسوائی کسی بھی گئے گزرے ملک میں نہ دیکھی گئی نہ سنی گئی۔ ابھی کچھ پتہ نہیں کہ آگے مزید کیا ہونے جا رہا ہے؟

داناؤں کے مطابق جب انسان عدل کرنا چھوڑ دیتا ہے تو پھر ”وقت“ انصاف کرتا ہے۔ اور یہ انصاف پھر دنیا دیکھتی ہے۔ ایسے انصاف کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی اب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ ایک مخصوص نظریاتی گروہ نے پاکستان پر قبضہ کر رکھا ہے اور غیر حقیقت پسندانہ نظریات ملک پر مسلط کر رکھے ہیں جن کی سزا بھگتی جا رہی ہے۔

بدقسمتی سے ملکی تاریخ میں کوئی ایسی ایک بات موجود نہیں جس کو ”فخریہ“ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے یا نئی نسل کے سامنے رکھا جا سکے۔ ایک ایٹمی دھماکوں کی کہانی ہے جس کو سیاسی جماعت ایک نعرے کے طور پر استعمال کرتی ہے دوسری طرف سوہنی دھرتی کا جو حال آج ہو چکا ہے اس کے تناظر میں یہی دھماکے ایک طعنہ بن کے چمٹ گئے ہیں۔ ہماری اب تک کی کارکردگی یہی ہے کہ 1971 میں مشرقی پاکستان سے ہاتھ دھوئے اور 5 اگست 2019 کو کشمیر ہاتھ سے نکال دیا۔

75سال کی عمر میں ہمارے پاس مکمل ”میچورٹی“ ہونی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہے۔ انکشاف یہ ہوا ہے کہ ہم تو باعزت طریقے سے ”مفت آٹا“ تقسیم کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب میں فاقہ کشوں اور ناداروں میں مفت آٹا تقسیم کرنے کی سیاسی منصوبہ بندی کا نتیجہ حد سے زیادہ برا ہی نہیں بلکہ شرمناک بھی نکلا۔ ایسا کسی کے گمان میں نہ تھا کہ چار دیواری کے اندر اس قدر بھوک اور ننگ چھپی بیٹھی ہے۔

اب تک کی خبروں کے مطابق دو درجن سے زائد ”ضرورت مند پاکستانی“ مفت آٹا لینے کی کوششوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ان میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ آٹے کے ٹرکوں کے پیچھے بھیڑ بکریوں کی طرح دھکم پیل میں سینکڑوں زخمی بھی ہوئے۔ صورتحال اس قدر خوفناک نکلی کی اس نے عالمی میڈیا کو بھی متوجہ کر لیا۔ ہر پاکستانی دیکھ دیکھ کر توبہ توبہ کر رہا ہے۔

سماجی معاشی اور سیاسی مسائل پر کیا اور کیونکر لکھا جائے؟ شرم آتی ہے لکھتے ہوئے کیونکہ ایسا مثبت کچھ نہیں ہے جسے سپرد قلم کر کے اطمینان و مسرت محسوس کی جائے۔ شاید وہ گھڑی آ پہنچی ہے کہ اب سنجیدگی اور فکر کے ساتھ اس خطے کے مسلمانوں کا ڈی این اے چیک کرایا جائے۔ کیونکہ ان میں منفی رجحانات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ نیک نامی کمانے کی طرف کوئی رجحان ہی نہیں دکھائی دیتا۔ ماہ رمضان کے مہینے کے احترام اور اس کی فضیلت مسلمان سے سے زیادہ کون جان سکتا ہے لیکن یہاں بھی پاکستانی مسلمان ناکام دکھائی دیتے ہیں اور وہ کام بھی کر دیتے ہیں جو عام دنوں میں بھی ممنوع قرار دیے ہوئے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی مسلمان اسلامی تعلیمات کی بجائے ملائیت کے اثر میں زیادہ ہیں۔ باقاعدگی سے مذہب کارڈ کے استعمال بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔ اسی ملائیت کے اثرات پارلیمنٹ سمیت تمام دیگر بڑے قومی اداروں تک سرایت کر چکے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام ادارے ہی بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں اور ملائیت کا وحشیانہ ناچ پورے ملک میں جاری ہے۔ اس سے وابستہ کوئی نہ کوئی واقعہ منظر عام پر آتا رہتا ہے۔ یہ دوسروں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کو اپنی عبادت سمجھتے ہیں جب کہ اسلامی تعلیمات میں ممنوع ہے۔

باوجود اس کے کہ ”دین میں کوئی جبر نہیں“ پھر بھی جبر کے ساتھ مذہب کی تبدیلی اور شادی بھی روز کا معمول ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق سال رواں کے پہلے چار مہینوں میں اب تک پانچ احمدی عبادت گاہوں کے میناروں کو کافر جان کر زمین بوس کیا جا چکا ہے۔ ان میں کراچی میں دو اور میر پور خاص میں ایک عبادت گاہ کے کافر میناروں کو ہجوم کی طرف سے توڑ پھینکا گیا۔ وزیر آباد میں پولیس نے یہ سعادت حاصل کی جب کہ آج ہی سرگودھا کے ایک نواحی علاقے میں ایک احمدی عبادت گاہ کے مینار کو کافر جان کر زمین بوس کر دیا گیا۔

سال ہا سال سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ دیدہ دلیری اتنی ہو گئی کہ ماہ رمضان کا تقدس و احترام کا بھی پاس نہیں رہا۔ عام فہم بات ہے کہ مینار عبادت گاہ کی نشانی ہوتے ہیں۔ مندر ہو یا گوردوارہ ہو، یا چرچ ہو یا کسی بدھ مت کی عبادت گاہ ہو۔ وہاں کے مینار سبھی خدا کی عبادت کی علامت ہوتے ہیں۔ یہ مینار دشمنی حقیقت میں ان زمینی خداؤں کا تحفہ ہے جن کے پلے کچھ نہیں۔ نہ علم نہ دین۔ چند دن پہلے پارلیمنٹ میں بولا گیا ایک جملہ بہت وائرل ہوا تھا کہ نیا پاکستان اور پرانے پاکستان کی بجائے ہمارا پاکستان بولا جانا چاہیے جب کہ میری رائے میں ”سب کا پاکستان“ قومی نعرہ بننا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments