مقتول وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو کا چیف جسٹس آف پاکستان کے نام خط


آج سے 45 سال قبل 7 مئی کو پاکستان کے پہلے عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والے وزیر اعظم اور 1973 کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو نے موت کی کال کوٹھری سے اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کو جو سازش اور دھاندلی کر کے اس عہدے تک پہنچا تھا درج ذیل خط لکھا تھا۔ عدالتی قتل کا شکار ہونے والے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم کا یہ تاریخی خط، آج کی صورت حال پر بھی مکمل طور پر صادق آتا ہے جس میں پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے حوالے سے کم و بیش وہی اعتراضات اٹھائے ہیں جو عدالتی مقتول وزیر اعظم نے اٹھائے تھے :

مسٹر جسٹس انوار الحق
چیف جسٹس آف پاکستان
راولپنڈی
جناب!

لاہور ہائی کورٹ نے مجھے جو سزائے موت اور سزائے قید دی ہے، اس کے خلاف میری اپیل سپریم کورٹ آف پاکستان میں، جس کے آپ چیف جسٹس ہیں، زیر غور ہے۔ میں یہ درخواست کوٹ لکھپت جیل لاہور کی موت کی کال کوٹھری سے لکھ رہا ہوں۔ میں یہ درخواست بہت سوچ بچار کے بعد لکھ رہا ہوں۔ درخواست بہت سادہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ 20 مئی 1978 ء کو جب میری اپیل سماعت کے لیے سپریم کورٹ میں آئے تو آپ سپریم کورٹ کی صدارت نہ کریں۔ میری اس درخواست کی وجوہ درج ذیل ہیں :

آپ نے آئین میں چھٹی ترمیم پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا جسے پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا۔ اسی ترمیم کے مطابق آپ کے پیشرو کے عہدہ کی میعاد میں توسیع ہوئی تھی جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے پر آپ کی ترقی میں تاخیر ہوئی۔ جی ہاں! آئین میں دیے گئے طریقہ کار کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے آئین میں یہ ترمیم کی گئی اور قائد ایوان کی حیثیت سے میں اس ترمیم کا ذمہ دار تھا۔ آپ اب بھی آئین کو اس سرزمین کا اعلیٰ ترین قانون قرار دیتے ہیں تاہم آپ اپنے اس بیان کی تردید اپنے اس فیصلے میں کر دیتے ہیں کہ ایک فرد واحد جسے عوام کی طرف سے کوئی اختیار نہ ہو، اپنی مرضی کے مطابق آئین میں ترمیم کر سکتا ہے۔

آپ نے اسے (جنرل ضیا کو) یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ آئین کی شکل مکمل طور پر تبدیل کر دے بلکہ اسے کھرچ ڈالے، اسے ختم کر دے۔ یہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اسے انتہائی آمرانہ طور پر غیر معینہ عرصہ کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہوئے بغیر ملک پر حکمرانی کرنے کی سند دی ہے۔ آپ نے اس شخص کو اس لیے یہ اختیار دینا ضروری سمجھا تا کہ وہ آئین کی چھٹی ترمیم کو اگلے روز منسوخ کر دے جب آپ کے پیشرو  نے سپریم کورٹ کی صدارت کرتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کو چیلنج کرنے کی بیگم نصرت بھٹو کی پٹیشن کو سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔

اس آئینی ترمیم کی منسوخی نے اسے یہ اختیار دیا کہ وہ انتہائی مکروہ طریقے سے آپ کے پیشرو مسٹر جسٹس محمد یعقوب علی کو چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے سے ہٹا دے اور ان کی جگہ آپ کا تقرر کر دے۔ ایک چیف جسٹس اپنے ہی زیر صدارت بنچ پر کس قدر اثر انداز ہو سکتا ہے اس بات سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ آپ نے بنچ کی صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد اس بنچ کے اس فیصلے کو منسوخ کر دیا جو چار روز قبل اس بینچ نے مسٹر جسٹس یعقوب علی کی صدارت میں دیا تھا کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو ملک کی مختلف جیلوں سے نکال کر پٹیشن کی سماعت کے لیے راولپنڈی لایا جائے۔

آپ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے، سپریم کورٹ کے ججوں نے، مجھے یقین ہے، نیا حلف اٹھانے سے انکار کر دیا تھا جو آئین کو معطل کر دینے والے نے تیار کیا تھا۔ لیکن آپ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد سپریم کورٹ کے تمام ججوں نے نیا حلف اٹھانے پر رضامندی ظاہر کر دی جس کا حکم جنرل ضیاء الحق نے دیا تھا۔ آپ کی تقرری پر جو ریفرنس منعقد کیا گیا اس میں آپ نے میرے دور حکومت میں ہونے والی آئینی ترامیم پر میری انتظامیہ کو ہدف تنقید بنانا ضروری سمجھا۔

اس سے میرے خلاف آپ کی شدید ناراضگی عیاں ہو جاتی ہے۔ آپ نے ضیاء الحق کے لیے اپنی شکر گزاری کا اظہار کیا کہ اس نے جسٹس یعقوب علی کو ہٹا کر آپ کو چیف جسٹس مقرر کیا۔ بیگم نصرت بھٹو کی پیٹیشن پر آپ نے فیصلہ دے کر جنرل ضیاء کی طرف سے اپنی تقرری پر سپاس گزاری کا کھل کر اظہار کیا ہے اور یہ فیصلہ درحقیقت وہ معاوضہ ہے جو آپ نے جنرل ضیاء کو دیا۔ اس فیصلے کی رو سے جنرل ضیاء کو قوم کا محافظ، اس کے مارشل لا اور فوجی بغاوت کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا گیا اور اس کے اس اختیار کی تصدیق کر دی گئی ہے کہ وہ ایک شخصی پارلیمنٹ کے طور پر آئین میں ترمیم کر سکتا ہے۔ آپ اس کو آئین میں ترمیم کرنے سے باز نہیں رکھ سکتے تھے اس لیے کہ اس اختیار کے بغیر وہ چھٹی آئینی ترمیم کو ختم یا منسوخ نہیں کر سکتا تھا۔ اس ترمیم کی منسوخی ہی نے چیف جسٹس کے عہدے پر آپ کی تعیناتی کو اور مسٹر جسٹس یعقوب علی کی برخاستگی کو ممکن بنایا ہے۔

ایک بار پھر، چوتھی جیورسٹس کانفرنس کے موقع پر جس کا افتتاح جنرل ضیاء الحق نے کیا تھا، آپ نے اپنے صدارتی خطبہ میں میری حکومت پر نکتہ چینی کرنا مناسب سمجھا۔

اسی سال 23 اور 24 جنوری کو کراچی میں بار ایسوسی ایشنوں سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے سرعام اور انتہائی سخت الفاظ میں میری حکومت اور میری پارٹی پر تنقید کی۔ آپ وکیلوں کو ہدایت کرنے میں اس حد تک آگے چلے گئے کہ آپ نے ان سے کہا کہ وہ لوگوں کو تعلیم دیں تا کہ آئندہ وہ میرے اور میرے ساتھیوں جیسے افراد کو اقتدار میں نہ لائیں۔

آپ اور لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس مشتاق حسین بہت برسوں سے ایک دوسرے کے بے حد قریب ہیں اور آپ دونوں ہی بڑھ چڑھ کر مارشل لاء حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں۔

آپ نے اس وقت جبکہ میری اپیل سپریم کورٹ میں زیر غور ہے، جنرل ضیاء کی اس پیش کش کو قبول کرنے میں ذرہ برابر تردد نہیں کیا کہ وہ آپ کو پاکستان کا قائم مقام صدر مقرر کر دے گا۔ کیا اس سے بھی نظریہ ضرورت کے تحت گریز نہیں کیا جا سکتا تھا؟ ایسے نازک وقت میں جب پورے ملک پر مارشل لاء کی تاریکی چھائی ہوئی ہے، آپ کا صدر مملکت بن جانا اور انتظامیہ کے ساتھ پوری طرح اپنی شناخت کرانا میری اپیل کے زیر غور ہونے کے دوران اپنے آپ کو انتظامیہ کا مکمل حصہ بنانا صدر کے عہدے اور چیف جسٹس کے عہدے کو ایک دوسرے میں آئینی طور پر ملانا نہیں تو اور کیا ہے ریاست کے دونوں اداروں کو ایک دوسرے میں مدغم کر کے، چاہے یہ عارضی ہی کیوں نہ ہو، آپ نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

ہائی کورٹ نے مجھ پر جس طرح مقدمہ چلایا ہے، جنرل ضیاء الحق نے اسے منصفانہ اور جائز قرار دیا ہے حالانکہ میں نے اپنی اپیل میں اس کی مزاحمت کی ہے، اس کی صداقت پر اعتراض کیا ہے اور سپریم کورٹ کو ابھی ان سوالات کا جائزہ لینا ہے۔ اس نے اس وقت مجھے قاتل کہا تھا جب میرا مقدمہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔ اب تاخیر کے بعد وہ دنیا کے لیڈروں سے کہتا ہے کہ وہ اسے میری سزائے موت کو ختم کرنے کے انتظامی اختیارات کو استعمال کرنے سے روکنے کی اپیلیں نہ کریں اس لیے کہ ابھی معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

اگر چہ اس انتظامی اختیار کا سپریم کورٹ میں زیر غور اپیل سے کوئی تعلق نہیں ہے اس کے باوجود اسے بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ میرے خلاف جھوٹے مقدمے کے بارے میں تعصب نہ برتے اور اس کا پہلے ہی فیصلہ نہ سنائے جبکہ ابھی یہ اعلیٰ عدالت میں زیر غور تھا۔ اس لیے میری اپیل کی سماعت کرنے والے بینچ میں نہ بیٹھ کر آپ پاکستان، عدلیہ اور خود اپنی خدمت کریں گے۔ آپ ججوں کا انتخاب نہ کر کے بلکہ فل کورٹ کو ایڈ ہاک ججوں سمیت اپیل کی سماعت کی اجازت دے کر ملک اور عدلیہ کی خدمت کریں گے۔

میں نے یہ سمجھا تھا کہ شاید آپ خود ہی میری اپیل کی سماعت کرنے والے بنچ کی صدارت کرنے سے او پر دیے گئے غیر متنازعہ اور جانے پہچانے حقائق کے پیش نظر احتراز کریں گے۔ میں آپ کو یہ خط لکھنے پر اس لیے مجبور ہوا ہوں کہ ابھی تک ایک بھی ایسی علامت سامنے نہیں آئی جس سے معلوم ہو کہ آپ میرے مقدمے سے متعلق اپیل کی سماعت سے خود کو علیحدہ رکھیں گے۔

7 مئی 1978ء
(ذوالفقار علی بھٹو)
اپیل کنندہ ڈیتھ سیل۔ ڈسٹرکٹ جیل کوٹ لکھپت۔ لاہور


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments