عمران ریاض خان کی گمشدگی


پاکستان دنیا میں ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں نہ صرف صحافیوں کو کام کے دوران کئی قسم کے مشکلات کا سامنا ہے بلکہ ان کے خلاف ہر سال تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

تین مئی کو ہر سال آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر جب عالمی صحافی اداروں کی طرف سے اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں تو ان رپورٹوں میں پاکستان کا کسی نہ کسی شکل میں تذکرہ ضرور ہوتا ہے۔

آزادی صحافت اور صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم فریڈم نیٹ ورک نے اپنے ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اس وقت اسلام آباد پاکستان میں صحافیوں کے لیے سب سے خطرناک شہر ہے۔

پاکستان میں یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، کبھی اخبار نویسوں کو خفیہ اداروں کی طرف ہراساں یا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی سیاسی جماعتیں انہیں آزادانہ طور پر کام کرنے نہیں دیتی۔

آج کل اس کی ایک زندہ مثال نامور اینکر پرسن اور صحافی عمران ریاض خان ہیں۔ عمران ریاض کی گمشدگی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ ان کو لاپتہ کیے گئے ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا ہے لیکن ابھی تک ان کو تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ہے۔ پولیس مختلف بہانوں سے عدالت کا قیمتی وقت ضائع کر کے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔

میں عمران ریاض کو ایک عرصے سے جانتا ہوں۔ وہ وکالت سے صحافت کی طرف آئے، لیکن اپنے محنت کے بل بوتے پر وہ ایک اچھے رپورٹر اینکر اور متحرک یوٹیوبر ثابت ہوئے، آج کل عمران ریاض پر طرح طرح کے بے بنیاد الزامات لگائے جا رہے ہیں، کبھی انہیں غدار کہا جاتا ہے تو کبھی ملک دشمن۔

ایک محب وطن پاکستانی کیسا ملک دشمن ہو سکتا ہے انہوں نے ہمیشہ پاکستان کے لیے مختلف محاذوں پر میڈیا کے ذریعے سے جنگ لڑی، چا ہے وہ پاکستان اور انڈیا کے حوالے سے اینکروں کی سطح پر موثر جواب دینا ہو یا ان کو خاموش کرانا ہو، یا کارگل کے محاذ پر ہزاروں فٹ بلندی پر پاک فوج کے ساتھ شانہ بشانہ رپورٹنگ کرتے ہوئے، یا سوات کشیدگی میں ان مقامات تک جانا ہو جہاں عام لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے، سوات میں دوران کشیدگی ان خطرناک علاقوں سے رپورٹنگ کی اور دنیا کو پاکستان کا بہترین چہرہ دکھایا جس کا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔

عمران ریاض خان ہمیشہ سچ دکھاتا اور سچ بولتا تھا ان کا یہ ماننا تھا کہ جو غلط ہو رہا ہے اس کو غلط ہی دکھایا جائے اور جو ٹھیک ہو رہا ہے اس کو ٹھیک ہی دکھایا جائے۔

گزشتہ سال 2022 میں پاکستان میں قیامت خیز سیلاب آیا جس سے سوات سے لے کر سندھ کے ضلع دادو تک لوگ متاثر ہوئے۔ اس موقع پر عمران ریاض میدان میں آئے اور لوگوں نے بڑھ چڑھ کراس پراعتماد کیا اور کروڑوں روپے کے حساب سے فنڈز اکٹھے کیے اور متاثرین تک پہنچایا۔ سندھ ہو بلوچستان یا خیبر پختونخوا انھوں نے سیلاب متاثرین کی خوب مدد کی۔ ہزاروں کی تعداد میں انہوں نے مکانات تعمیر کرائے، راشن تقسیم کیے کپڑے جوتے یہاں تک کہ پینے کا صاف پانی بھی متاثرین تک پہنچایا۔ میں خود سندھ ضلع دادو میں ان کے ساتھ تھا اور سیلاب متاثرین کے بحالی کی کاموں میں حصہ لیا۔ اسی طرح پنجاب کے ضلع راجن پور میں بھی کئی مکانات متاثرین کے لیے تعمیر کرائے لوگوں کی مدد کی اور یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہا عمران ریاض ان علاقوں میں جاتے اور امدادی سرگرمیوں میں خود حصہ بھی لیتے اور نگرانی بھی کرتے۔

فنڈ ریزنگ کے لیے عمران ریاض خان خود اسلام آباد، پشاور، لاہور اور پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود رہتے، بچے بڑے سب ہی ان کو نقد رقم، کپڑے ادویات اور دیگر چیزیں دے کر لوگوں تک پہنچاتے رہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی انھوں نے سینکڑوں کی تعداد میں مکانات تعمیر کرانے کے ساتھ وہاں کے متاثرین کو اشیاء خورد و نوش ادویات فراہم کی اور وہ خود وہاں جاتے اور امدادی کاموں میں حصہ لیتے رہے۔

گزشتہ دنوں ایک شخص نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ہم اپنے سیلاب متاثرہ علاقے گبرال سوات واپس آئے ہیں لیکن ہماری مکانات تباہ ہوئے ہیں ہمارے پاس اس کو تعمیر کرنے کے لیے پیسے نہیں تو اس سلسلے میں آپ ہماری مدد کریں، تو میں نے ان کو کہا کہ مدد کرنے والے عمران ریاض خان تھے جو نامعلوم جرم کی وجہ سے گرفتار بلکہ لاپتہ ہیں۔ تو وہ شخص بہت پریشان ہوئے۔

عمران ریاض خان کے ساتھ تقریباً اٹھارہ انیس برس سے تعلق ہونے کے ناتے میں نے ان کی صحافتی اور سماجی کوششوں کا خود مشاہدہ کیا ہے۔ ہمارا سفر اکٹھے ایکسپریس نیوز سے شروع ہوا، اور ہمارا یہ سفر ایک مضبوط دوستی سے بڑھ کر بھائی جیسے رشتے میں بدل گیا۔

عمران ریاض خان ایک توانا آواز ہے اس کو بند کرنے سے پاکستان کا ہی نقصان ہو گا ان کے بولنے سے کسی کو اعتراض ہے تو اس کو دور کیا جا سکتا ہے اس کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔ رائے کا اختلاف فطری ہے، لیکن انہیں کبھی بھی ذاتی زندگیوں پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے یا اس کے نتیجے میں دوستوں اور ان کے خاندان کو ذہنی اذیت جیسے صورتحال سے دوچار نہیں کرنا چاہیے

آج نہیں تو کل تعلقات دوسری موڑ پر ہوں گے، آج ان کا بیانیہ پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتا ہے، تو پی ٹی آئی والے حمایت اور مخالف پارٹیوں والے مخالفت کرتے ہیں۔ کل وہ اسٹبلشمنٹ کے بہت قریب تھا وہ آج دور ہے تو سیاست اور صحافت میں حرف آخر نہیں ہے اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ان کے ساتھ اسی طرح رویہ رکھنا، ان کو کسی بھی طرح ٹارچر کرنا، ان کی فیملی کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا مناسب نہیں ہے اختلاف ضرور ہونی چاہیے لیکن یہ اختلاف ذاتی زندگی کی اوپر حاوی نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر درج ہونی چاہیے اور اگر جرم ثابت ہو تو سزا بھی ہونی چاہیے لیکن اگر کوئی جرم نہیں ہے تو ان کو رہا کر دیا جائے ان کی فیملی کو بہت زیادہ تکلیف ہے۔ ہم صحافیوں کو اور ان کے دوستوں کو اور پاکستان کے بہت سارے ماؤں بہنوں کو بھی بہت تکلیف ہے۔

گزشتہ حکومتوں میں اگر صحافیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی تو وہ بھی غلط تھا اور اگر آج صحافیوں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو یہ بھی غلط ہے اس کے لئے سب کو اکٹھے ہو کر آواز اٹھانا چاہیے کل آپ کی آج ان کی تو کل پھر تمہاری باری ہے، عمران ریاض اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی آواز ہے ان کے لاکھوں کے حساب سے فالوورز ہیں، عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اتنی سزا کافی تھی، مزید کسی کو دیوار سے نہیں لگانا چاہیے اس میں ہم سب کا بھلا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments