کیا ائر کنڈیشنر کا موجد جنت میں جائے گا؟ مکمل کالم


”دیوسائی سے اگر آپ بھارتی سرحد کی طرف جانا شروع کریں تو راستے میں ایک وادی آتی ہے جس کا نام وادی گُلتری ہے، اب تو خیر وہاں تک پہنچنے کے لیے کچی پکی سڑک موجود ہے مگر جس وقت کی بات میں بتا رہا ہوں تب یہاں صرف پیدل ہی پہنچا جا سکتا تھا۔ پہلے آپ سکردو سے چِلم تک جاتے تھے جو ضلع استور کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور پھر وہاں سے تقریباً بارہ دن پیدل سفر کر کے وادی گُلتری پہنچتے تھے۔ اِس بارہ دن کے سفر میں ہم لوگ فوج کی عارضی طور پر بنائی گئی آرام گاہوں میں قیام کرتے تھے۔ انہیں آرام گاہ تو میں نے یونہی کہہ دیا ہے، اصل میں تو یہ ایک کمرہ سا ہوتا تھا جس میں تیس چالیس آدمی رات گزارتے اور اگلے دن اپنا سامان اٹھا کر چل پڑتے تھے۔

بارہ دن تک مسلسل پیدل چلنے کے بعد جب میں پہلی مرتبہ اُس وادی میں پہنچا تو مجھے یوں لگا جیسے یہ کوئی اور ہی دنیا ہے۔ چاروں طرف بلند و بالا پہاڑ تھے اور درمیان میں چھوٹا سا گاؤں۔ یہاں سال کے آٹھ مہینے برف پڑتی تھی اور باقی چار ماہ تھوڑی بہت برف پگھلتی تھی، اِس کی وجہ وادی کا حدود اربع تھا، یہ وادی مستطیل شکل میں تھی جہاں سورج کی روشنی بمشکل ہی پہنچ پاتی تھی۔ چونکہ میری یہاں تعیناتی ہوئی تھی اِس لیے مجھے مقامی لوگوں سے ملنے ملانے کا موقع ملا، انہی میں ایک ستّر اسّی سال کا بابا بھی شامل تھا۔ یہ بابا جی کبھی وادی گُلتری سے باہر نہیں گئے تھے سو انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اِس وادی کے باہر کی دنیا کیسی ہے۔

میں نے بابا جی سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ مسلمان ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں، میں نے اُن سے کلمہ بھی سنا جو انہوں نے اپنے مقامی لہجے میں سنایا۔ مگر جس بات کو سنانے کے لیے میں نے یہ قصہ شروع کیا ہے وہ بہت دلچسپ ہے اور وہ میں اب بتانے لگا ہوں۔ میں نے بابا جی سے پوچھا کہ مرنے کے بعد اگر آپ جنت میں گئے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ جنت کیسی ہوگی؟ اِس پر بابا جی نے جواب دیا کہ جنت میں آگ جل رہی ہوگی، میں اُس آگ کے پاس بیٹھ کر ہاتھ تاپ رہا ہوں گا اور جب میرا جی آگ سے اکتا جائے گا تو میں سورج کی گرمی لینے باہر آ جاؤں گا اور پھر وہاں بیٹھ کر دھوپ سینکوں گا۔ اِس پر میں نے بابا جی سے پوچھا کہ پھر دوزخ کیسی ہوگی، بابا جی نے جواب دیا کہ دوزخ میں تو چاروں طرف برف ہی برف ہوگی، لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں گے اور خدا سے آگ کی بھیک مانگ رہے ہوں گے۔“ یہ واقعہ مجھے شاعر اور ادیب میجر شہزاد نیر نے سنایا تھا۔ میجر صاحب کا بیان یہاں ختم ہوا۔

گزشتہ کئی دنوں سے ملک میں گرمی کی جو لہر ہے اُس نے ہر بندے کو ہلکان کر دیا ہے، رہی سہی کسر لوڈ شیڈنگ نے پوری کر دی ہے، ایسے میں ایک دل جلے نے ’پوسٹ‘ بھیجی ہے کہ ”اللہ تعالیٰ ائر کنڈیشنر کے موجد وِلس کیریر کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔“ ساتھ میں ولس کیریر کی تصویر ہے۔ میں نے یہ پوسٹ اپنے ایک کٹر قسم کے مذہبی دوست کو ’فارورڈ‘ کر دی، جواب میں اُس نے مجھے لال بھبوکے چہرے والی ’ایموجی‘ بھیجی جس کے نیچے لاحول ولا قوة لکھا تھا۔ اِس کے بعد وہی ہوا جو ایسے معاملات میں ہوتا ہے، ہماری بحث شروع ہو گئی، اُس کا موقف تھا کہ کوئی بھی غیر مسلم چاہے کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو جہنم میں جائے گا اور مسلمان چاہے کتنا ہی بد کیوں نہ ہو بالآخر جنت میں جائے گا۔ اپنے موقف کی تائید میں اُس نے قرآن و حدیث کے کچھ حوالے دیے جن کا لب لباب، اُس کے مطابق، یہی تھا کہ کافر ہمیشہ دوزخ کی آگ میں جلے گا جبکہ مسلمان اپنے گناہوں کی سزا پا کر جنت میں جائے گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ بات اتنی سادہ نہیں۔

صنعتی انقلاب کے بعد کا انسان پرانے زمانے کے انسان سے بالکل مختلف ہے، اسے مذہب کی قدیم تعبیر سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا، سائنس کی چکا چوند نے اسے بے حد متاثر کیا ہے، اور یہ سائنس ائر کنڈیشنر سے بھی کہیں آگے نکل چکی ہے، اب یہ کلوننگ، کرسپر اور مصنوعی ذہانت کی دنیا میں داخل ہو چکی ہے، یہ وہ موضوعات ہیں جن کے بارے میں نہ صرف مذہب خاموش ہے بلکہ جدید فلسفی بھی الجھن کا شکار ہیں اور کوئی دو ٹوک اور واضح موقف اپنانے میں ناکام ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی مولانا صاحب ائر کنڈیشنڈ مسجد میں بیٹھ کر عید کا خطبہ دیتے ہیں اور کفار کو جہنم واصل کرنے کی نوید سناتے ہیں تو انہیں موقع پر تو کوئی نہیں ٹوکے گا مگر اُن کی منطق سے شاید ہی کوئی مطمئن ہو سکے!

اِس مرحلے پر کچھ لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ چاہے پوری دنیا ایک طرف ہو جائے ہمارے لیے وہی حرف آخر ہے جو خدا کی کتاب میں لکھا ہے۔ بے شک یہ بات درست ہے مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کی کتاب کی جو تشریح وہ کریں وہی حرف آخر ہوگی۔ سر سید احمد خان جیسے جید عالم نے قرآن کی تعبیر کا یہ سنہری اصول بیان کیا تھا کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا کی پوری اسکیم کو سمجھا جائے، اگر ہم ایک ایک آیت کی من مانی تشریح کرنے بیٹھ گئے تو آیات کی تطبیق نہیں کر پائیں گے۔ مثلاً جنت کے تصور کو ہی لے لیں، اگر ہم قرآن میں بیان کیے ہوئے تصور کو لے کر چلیں گے تو پھر وادی گُلتری کے بابے کے لیے وہ جنت اُلٹا جہنم بن جائے گی جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ یہ خدا کی اسکیم کے خلاف ہو گا، اُس بابے کو وہی جنت ملے گی جس کی اُس نے دنیا میں خواہش کی ہوگی۔

اسی طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تمام غیر مسلم بلا تخصیص جہنم میں جائیں گے کیونکہ اگر اُن میں کوئی ایسا شخص ہوا جس نے ائر کنڈیشنر ایجاد کر کے پوری انسانیت کا بھلا کیا ہو گایا پنسلین ایجاد کر کے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بچائی ہوں گی، تو ایسے نیک لوگ بھلا ہٹلر جیسے کروڑوں لوگوں کے قاتل کے ساتھ جہنم میں کیوں کر جلیں گے! دین کا ادنیٰ سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ کسی ایسے خدا کی یہ اسکیم ہر گز نہیں ہو سکتی جس نے انسانوں کے ساتھ عدل و انصاف اور رحم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔

اِن تعبیروں اور تشریحات سے قطع نظر، مسلمانوں کو اِس سوچ نے بے حد نقصان پہنچایا ہے کہ اللہ انہیں بالآخر معاف کر کے جنت میں بھیج دے گا۔ کیا وہ مسلمان جنہوں نے اپنے مسلمان بھائیوں، بہنوں اور بچوں کا ناحق خون بہایا، معاذ اللہ جنت میں اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن کے ساتھ اللہ قربت رکھتا ہے؟ ہماری عقل محدود ہے، ہم اللہ کی حکمت کو نہیں جان سکتے مگر جو علم اور سمجھ بوجھ اُس نے ہمیں دی ہے، اُس کی روشنی میں یہ فیصلہ ضرور کر سکتے ہیں کہ خدا کے گرینڈ ڈیزائن میں کون سی بات منطقی ہے اور کون سی غیر منطقی۔

دنیا کے تمام علمائے دین جب مذہب کی تشریح کرتے ہیں تو اسے منطق کے اصولوں کے مطابق ہی بیان کرتے ہیں، اسی لیے انہیں مدرسوں میں منطق کا مضمون باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے۔ اب منطق کا تقاضا تو یہی ہے کہ ائر کنڈیشنر کا موجد جنت میں جائے (بشرطیکہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہوا ہو) اور وادی گُلتری کے بابے کو جنت میں آگ ملے، مذہب کی روح بھی یہی ہے اور خدا کے عدل کا تقاضا بھی۔ باقی جو مزاجِ یار میں آئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 503 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments