پشتون امن کے خواہاں ہیں (پہلا حصہ)


صنعتی انقلاب نے اگر ایک طرف دنیا کو جدید شکل دی ہیں تو دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک کو زیادہ سے زیادہ طاقتور بنے کی ہوس میں اس قدر بدمست ہاتھی بنا دیا کہ ان کے زیادہ سے زیادہ طاقتور بنے کی ہوس نے کہیں شہر اور کہیں ریاستوں کو اجاڑ کے رکھ دیا۔ جب پوری کی پوری ریاست کو میدان جنگ بنا دیا جائے تو کیا وہاں کے لوگ ان کی زبان تاریخ آداب ثقافت اور معیشت زندہ رہے پائے گی؟

دنیا کے کہی ممالک اسی وجہ سے بدحالی اور تباہی کا شکار ہیں کیونکہ یا تو ان ممالک کو سپر پاورز نے اپنی لڑائی لڑانے کے لیے میدان جنگ بنا دیا یا تو ان کے وسائل او معدنیات کو جاننے کے بعد ان پر بلاواسطہ طور پر قبضہ کر لیا۔

ان تمام ریاستوں کی طرح پشتون سرزمین بھی ان کا شکار رہی ہے

گندمک معاہدہ جب اٹھارہویں صدی میں ہوا تو پشتون سرزمین دو حصوں میں بٹ گے ایک حصہ برٹش نے سو سال معاہدے کے ساتھ برصغیر پاک و ہند میں شامل کر دیا۔

1919 میں جب غازی امان اللہ خان نے افغانستان کا تخت سنبھالا تو انہوں نے ملک کو ترقی دینے کے لیے جدید دور کے اصول اپنانے تعلیم معیشت اور ملک کے اندرونی اور بیرونی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے بہترین کام کرنا شروع کیا

برٹش نے جب ان کے اپنانے گئی ترقی پسند پالیسی دیکھی تو خوفزدہ ہو گئے اور ان کو واپس پسماندگی کی طرف دھکیلنے کے لیے افغانستان سمیت برصغیر میں شامل پشتون سرزمین میں ہزاروں جاسوس بھجوائے ( ان کی تفصیل برٹش جاسوس ڈیوڈ جونز کے ناول میں لکھی ہیں) جن کا مقصد پشتون افغان اقوام کو جدید دور سے اور ترقی سے دور رکھنا تھا

اسی طرح ہر اس ریاست کو پیچھے دھکیلتے گے جن کے پاس معدنیات سے مالامال سرزمین تھی تاکہ یہ ریاست ہمیشہ پسماندہ رہے اپنے وسائل سے بے خبر رہے اور سپر پاورز ان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے رہے

کس بھی قوم کی ترقی کے لیے سرزمین پر امن کا ہونا اولین ترجیح ہے ماہرین کہتے ہیں قوم کے زندہ رہنے سے مراد ان کی زبان ثقافت آداب تاریخ رسم رواج کا زندہ رہنا

جب امن ہو گا تو تعلیم کاروبار ہو پائے گا لوگ اپنے حق لینے کا طریقہ سیکھ پائے گے

پشتون سرزمین کی بات کی جائے تو پچھلے چالیس سال سے بدامنی کا شکار رہا ہیں اس کی وجہ یہ ہیں کہ پشتون سرزمین کو میدان جنگ کے طور پر استعمال کیا گیا اور ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ پشتون دہشت گرد نہیں دہشتگردی کا شکار رہے ہیں اور یہ باقاعدہ کے منصوبے کے تحت یہ کام سرانجام دیا گیا ہے

اس بدامنی نے پشتون قوم کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا
جس سے نہ صرف ہزاروں کی تعداد میں لوگ قتل ہوئے بلکہ ان کی زبان تاریخ ثقافت آداب سب کچھ ختم ہو گیا

اور ماہرین کہتے ہیں کے قوم کا وجود اس وقت مٹ جاتا ہیں جب ان کی زبان ادب ثقافت تاریخ مٹ جاتی ہیں۔ اور ہماری بدقسمتی یہ بھی ہیں کہ ہماری تاریخ تعلیمی نصاب تک میں شامل نہیں کی گئی

ان چالیس سال کی بدامنی نے پشتون سرزمین کو خون سے رنگ دیا یہاں ہر طبقہ دہشتگردی کا شکار رہا طالب علم اساتذہ سیاستدان جج تاجر پولیس امیر غریب کوہی ایسا طبقہ نہیں جو دہشتگردی کا شکار نہ رہا ہو

ہم نے اس دشت زدہ ماحول میں بہت سی دہشت زدہ واقع ہوتے بے گناہ لوگوں کے کی لاشیں سڑکوں پر لٹکی ہوئی دیکھی بچوں کی لاشیں خون سے لت پت بھی دیکھی لینڈز مائن اور بم دھماکے کی وجہ پشتون کی جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے بھی دیکھے اپنے قبائلی رہنماؤں کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل ہوتے ہوئے بھی دیکھا اپنے وکلا جیسے سرمائے کو ایک ساتھ قتل ہوتے ہوئے بھی دیکھا سیاسی ورکر اور ان کے لیڈرشپ کو قتل ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہزاروں لوگوں کو لاپتہ ہوتے ہوئے بھی دیکھا۔

بدامنی نے پشتون کو اس قدر مجبور کر دیا کہ وہ اپنے وسائل سے مالامال سرزمین کو چھوڑ کر مزدوری کے لیے بھی دوسرے شہر یا ملک جانا پڑھا اپنے گھر بار چھوڑنے پڑھے

بات اگر ہم قبائلی علاقوں کی کریں تو وہاں دہشتگردی کا خاتمہ کرنے کے لئے تین آپریشن کیے گے جس کو راہ نجات، ردالفساد، ضرب عضب کا نام دیا گیا ان آپریشن میں ہزاروں گھرانے بے گھر ہوئے آج بھی دو ہزار سے زائد گھرانے صرف بکاخیل کیمپ میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اس بدامنی نے پوری ایک نسل کو ہر لحاظ سے تباہ کر دیا۔ جب بھی پشتون سرزمین میں کوہی ترقیاتی اقدام کا صرف سوچا جاتا ہے تو دوسرے دن ہی دھماکہ ہو جاتا تھا اور ہو جاتا ہے

ان سب مشکلات سے گزرنے کے بعد پشتون قوم نے ایک نعرہ بلند کیا (موږ پہ خپلہ خاورہ امن غواړو) ہم اپنی سرزمین پر امن چاہتے ہیں یہ نعرہ ہر پشتون سرزمین کے ہر علاقے سے گونج اٹھا چاہے وہ قبائلی علاقے ہو پشاور ہو سوات ہو بلوچستان میں شامل پشتون علاقے ہو

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ہجوم کا یہ نعرہ لگانا بہت ہی ہمت کا کام ہیں کیونکہ یہاں ہر فرد کے مال و جاں کو خطرہ ہے جو اس ہجوم میں شامل ہو کیونکہ یہاں بات ترقی کی ہیں آگے بڑھنے کی ہیں امن ہو گا تو تعلیم ہو گا کاروبار ہو گا زبان ثقافت زندہ آداب زندہ رہے گا

اس نعرے کے بعد تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ ان کے اس نعرے کو سراہنا چاہیے تھا ملک کے میڈیا کو ان کو کوریج دینی چاہیے تھی ان کی آواز بین الاقوامی ممالک تک پہنچانی چاہیے تھی پنجاب کے سیاسی پارٹیوں اور سندھ کے سیاسی پارٹیوں کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا دفاعی ادارے کو ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔ پر ایسا نہیں ہوا نہ میڈیا نے کوریج دی نہ سیاسی اور دفاعی اداروں نے یکجہتی کا اظہار کیا۔

یہاں ایک واقع میں ضرور بیان کرنا چاہوں گی کہ حال ہی میں جب پشاور مسجد میں دھماکہ ہوا اور سو سے زاہد پولیس شہید ہوئے تو اس کے خلاف پولیس اہلکاروں نے مظاہرہ کیا اور امن کا مطالبہ کیا اور نعرہ لگایا کہ (یہ جو نامعلوم ہیں یہ ہمیں معلوم ہیں ) اس مظاہرے کے کچھ دن بعد پولیس کے ان اہلکار سے معافی منگوائی گی اور کچھ کو عہدے سے فارغ کیا گیا۔ ہمیں نہیں پتہ کے کیونکہ ایسا کیا گیا

پر پشتون اپنی سرزمین پر امن چاہتے ہیں زندگی چاہتے ہیں پشتون اگر امن کا نعرہ لگاتے ہیں تو صرف اس لیے کے وہ اپنے علاقے میں بہترین نظام تعلیم چاہتے ہیں روزگار کے بہترین مواقع چاہتے ہیں جو معدنیات ان کے سرزمین میں موجود ہیں ان کے کارخانے وہ اپنے علاقے میں چاہتے ہیں وہ مزدوری کے لیے دوسرے شہر صوبے اور ملک نہیں جانا چاہتے

اب سوال یہ ہے کہ امن مانگنا کیوں جرم ہے؟ یہ تو دنیا کا ہر مذہب ہر قانون انسان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائے اور اپنا بنیادی حق یعنی زندہ رہنے کا حق مانگے۔ بین الاقوامی دنیا اور حکمرانوں کے اس رویے نے پشتون قوم کو بہت مایوس کر دیا اور مجھے بھی۔ جس کی وجہ سے میں اپنی تحریر میں پشتو کا ایک شعر لکھنے پر مجبور ہوئی

(امن بہ راسی خدای بہ می وران وطن آباد کړی
نیکہ می پلار تہ پلار می مہ تہ مہ بچو تہ ویل)
ترجمہ:
امن آ جائے گا خدا ہماری ویران سرزمین کو آباد کردے گا
دادا نے بابا کو بابا نے مجھ کو اور میں نے بچوں کو کہا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments