نکاح میں عورت کی گواہی


پچھلے دنوں ہمارے بھتیجے کی شادی تھی۔ دلہن چونکہ بہاولپور سے ہے اس لئے بارات لے کر ہم بہاولپور پہنچے۔ جب نکاح کا وقت آیا تو گواہان نے بھی دستخط کرنا تھے۔ میں نے ساتھ بیٹھے پیٹر جیکب سے کہا، میں گواہ کے طور پر دستخط کرنے کے لئے جانا تو چاہتی ہوں لیکن مجھے چرچ آف پاکستان کے یہ پادری صاحب کافی روایتی لگ رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے خطبہ کے دوران ساری باتیں پدر سری نظام کو سپورٹ کرنے والی کی ہیں۔ انھوں نے جواب دیا کوشش کر لیں اگر نہیں کرنے دیں گے تو واپس آجانا۔ دل میں خدشات لئے میں الطار کی طرف روانہ ہوئی۔ پیٹر بھی میرے پیچھے پیچھے اخلاقی مدد کے لئے چل پڑے۔

دلہن کی طرف سے ایک مرد گواہ نے دستخط کر دیے تو پادری صاحب کی نظروں نے دلہا کی طرف سے بھی مرد گواہ کی تلاش شروع کر دی۔ میں نے آہستہ سے کہا، جی میں دستخط کروں گی۔ انھوں نے بہت سپاٹ لہجے میں کہا دستخط تو مرد کرے گا۔ میں نے کہا عورت کے دستخط پر کوئی پابندی تو نہیں۔ دلہن کی طرف سے پاس کھڑے ایک نوجوان مرد نے کہا، پھر دو عورتوں کو دستخط کرنے پڑیں گے۔ میں نے کہا بیٹا ایک تو یہ عورت کی آدھی گواہی والا قانون اب ملک میں رائج نہیں ہے۔ دوسرے اگر یہ ملک میں رائج ہو بھی تو مذہبی اقلیتوں کے اپنے عائلی قوانین (Personal Laws) ہوتے ہیں۔ مسیحیت میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بہرحال پادری صاحب نہیں مانے اور ہماری طرف سے بھی ایک نوجوان مرد نے دستخط کیے جو عمر میں بھی مجھ سے چھوٹے ہیں اور تجربہ و دانش میں بھی مجھے بزرگ سمجھتے ہیں۔

نکاح کی رسم ختم ہوئی تو ہماری نوجوان نسل نے مجھے کہا کہ آپ کو کہنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ ان پادری صاحب کے خطبہ سے پتہ چل رہا تھا کہ یہ کیسا ذہن رکھتے ہیں۔ میں نے انھیں سمجھایا کہ ایسی سخت دیواروں میں دراڑ ڈالنے کے لئے زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ پادری صاحب یہ جان پائے کہ ایک عورت نکاح میں گواہ بننے کے لئے تقاضا کر سکتی ہے۔ وہاں موجود لوگوں نے جانا کہ اس موضوع پر بات چیت ہو سکتی ہے۔

کھانے کے دوران ہمارے ایک نوجوان جو خود بھی پروٹیسٹنٹ پادری ہے، نکاح خواں پادری صاحب کو میرے پاس لے آئے۔ نکاح خواں پادری صاحب نے کہا میں معذرت کرتا ہوں اگر آپ کو برا لگا تو مگر اس کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے انھیں بتایا کہ بتیس سال پہلے میرا نکاح فادر رحمت راجہ نے فادر آگسٹین طفیل اور فادر فلپ جوزف کی موجودگی میں کیتھولک چرچ سرگودھا میں پڑھا یا تھا اور نکاح کی ایک گواہ مس مریم فرانسس تھیں۔ نا تو موجود فادرز میں سے کسی نے اعتراض کیا اور نہ ہی حاضر جماعت میں سے۔ پھر ان بتیس سالوں میں میں نے متعدد بار اپنے سسرال اور میکے کی طرف کی شادیوں میں گواہ کے طور پر فریضہ سر انجام دیا۔ یہ میرا ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہے اور میں دوسری خواتین کو بھی اس کی ترغیب دیتی ہوں۔

میں نے مزید کہا کہ میں کوشش کروں گی اگر چرچ آف پاکستان کے بشپ صاحب سے میری ملاقات ہو تو میں ان سے اس بارے میں رہنمائی حاصل کر سکوں۔ ایک عورت اگر نکاح کا ساکرامنٹ حاصل کرنے کے لئے دستخط کر سکتی ہے تو نکاح میں گواہ کے طور پر کیوں نہیں۔ نکاح خواں پادری صاحب نے کہا جب ہم یونین کونسل میں نکاح رجسٹر کروانے جاتے ہیں تو پھر وہاں مختلف اعتراض لگائے جاتے ہیں اس لئے ہمیں رسم و رواج کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ میں نے عرض کی ہمارا نکاح بھی حکومتی سطح پر رجسٹر ہوا تھا۔ ہم بتیس سال سے رجسٹرڈ اپنے نکاح نامے کی بنیاد پر اکٹھے رہتے ہیں، ووٹ ڈالتے ہیں اور بیرون ملک سفر کرتے ہیں۔

ایک بالغ فرد ہوتے ہوئے اور تھوڑا سا علم حاصل کرنے کے بعد میں یہ تو مانتی ہوں کہ تمام مذاہب کسی نہ کسی طور مرد کی برتری کو فوقیت دیتے ہیں۔ لیکن انجیل مقدس میں بار ہا عورت کی گواہی کو معتبر بتایا گیا ہے۔ متی کی انجیل 28 : 7 مرقس کی انجیل 16 : 7 لوقا کی انجیل 24 : 11 کے مطابق خداوند کا فرشتہ عورتوں پر ظہور پذیر ہوتا ہے اور فرماتا ہے کہ وہ یسوع کے جی اٹھنے کے بارے میں شاگردوں کو گواہی دیں اور انھیں بتائیں کہ وہ مسیح کو گلیل میں دیکھیں گے۔ اس سے بڑی اور کیا گواہی ہو گی جسے دینے کے لئے عورت ہی کا انتخاب کیا گیا۔

یوحنا کی انجیل 4 : 28۔ 29 ; 39 کے مطابق سامری عورت اپنا برتن کنویں پر چھوڑتی ہے اور لوگوں کو آ کر بتاتی ہے کہ میں اس شخص سے ملی ہوں جو میرے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ کیا یہ مسیحا ہو سکتا ہے؟ عورت کی گواہی کو مانتے ہوئی بہت سے لوگ کنویں کی طرف چل پڑے اور مسیح پر ایمان لائے اور ان کے پیروکار بن گئے۔ ابتدائی کلیسیاء میں یہ واضح ہے کہ کئی خواتین مذہبی رہنما تھیں جنہوں نے مختلف گرجا گھروں میں خدمات سر انجام دی اور خوشخبری کی گواہی دی۔ سینٹ پال نے ان کی زبردست خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے رومیوں کو لکھے گئے خط کے 16 باب میں ان کی تعریف کی۔

مقدس بائبل کی پہلی کتاب، پیدائش 1 : 27 میں صنفی مساوات کی واضح بنیاد فراہم کی گئی ہے۔ مرد اور عورت خدا کی صورت پر یکساں طور پر بنائے گئے۔ دونوں کو برکت دی گئی۔ مختلف قائدانہ خصوصیات عطا کرتے ہوئے کچھ مقاصد کے ساتھ زمین کو مسخر کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ بائبل مقدس واضح طور پر انسانی وقار، صنفی مساوات اور آزادی کی حمایت کرتی اور اس کے بارے میں سکھاتی ہے۔ لیکن بات جب چرچ کے سٹاف اور مردوں کے غلبہ والے گرجا گھروں کی ہو تو وہ پدر سری نظام کو ترویج دیتے ہوئے صرف اپنی مردانہ برتری کو برقرار رکھنے اور خواتین پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے مذکورہ آیات کی بہت مختلف تشریح کرتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتی کہ مرد اور عورت میں ایسی تفریق خدا کی مرضی کے مطابق ہے۔

ہماری زندگی میں چھوٹے بڑے بہت سے معاملات ہیں جن میں مرد کو سماجی برتری دی جاتی ہے۔ شادی کے فیصلے میں ہی جو آزادی مرد کو حاصل ہے وہ عورت کو نہیں۔ شادی کے کارڈ پر چن چن کر وہ آیات لکھی جاتی ہیں جن سے مرد کی برتری اور عورت کی اطاعت مقصود ہو۔ حالانکہ کلام مقدس میں بہت سی آیات ایسی ہیں جو مرد اور عورت میں برابری بیان کرتی ہیں۔ عورت کو ہمیشہ سہاگن رہنے کی دعا دی جاتی ہے یعنی وہ اپنے شوہر سے پہلے مرے۔ بیوی فوت ہونے کی صورت میں مرد فوراً دوسری شادی کر لیتا ہے جبکہ بیوہ کی شادی ایک بہت بڑا ایشو ہے۔

بیٹے کی پیدائش کے لئے جینڈر بیسڈ ابارشن کروایا جاتا ہے۔ بیٹی کی تعلیم پر بیٹے کی تعلیم کو فوقیت دی جاتی ہے۔ بیٹی اور عورت کی تربیت کے لئے مار پیٹ کا رستہ اپنایا جاتا ہے۔ بالغ عورت کو گھر سے باہر کسی کام سے جانا ہو تو اس کی حفاظت کے لئے اس کا چھوٹا بھائی یا بیٹا ساتھ ہوتے ہیں کیونکہ معاشرہ اس کے لئے محفوظ نہیں ہے۔ جنسی ہراسانی اور بد سلوکی کے واقعات عام ہیں۔ اس سے عورت کے لئے مواقع محدود ہوتے ہیں اور اس کی آزادی سلب ہوتی ہے۔

ورلڈ اکنامک فورم کے گلوبل جینڈر انڈیکس 2023 کے مطابق صنفی مساوات کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے 146 ممالک میں سے 142 نمبر پر ہے۔ کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان (HRCP) کے مطابق کم رپورٹنگ کے باوجود 2021 میں وطن عزیز میں 5,279 ریپ اور 478 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات درج ہوئے۔ 2020 میں HRCPکی ایک اور تحقیق کے مطابق 90 فیصد پاکستانی خواتین نے اپنی زندگی میں کسی نا کسی طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا کیا ہے۔ ملک میں خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیم عورت فاونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق 2020 میں خواتین کے خلاف تشدد کے 11,000 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے۔ تشدد کی عام شکلیں گھریلو تشدد ( 4775 کیس) ریپ ( 2297 کیس) اور قتل ( 1030 کیس) تھیں۔ یہ اور اسی طرح کے بہت سے مزید اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان کے بیانیے میں صنفی بنیاد پر تشدد اور امتیاز کے خلاف مہم از حد ضروری ہے۔

اقوام متحدہ نے خواتین کے خلاف تشدد کی تعریف۔ جنسی بنیاد پر تشدد کے کسی بھی عمل کے طور پر کی ہے جس کے نتیجے یا ممکنہ نتیجے میں خواتین کو جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تکلیف یا نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے بشمول اس طرح کے اعمال کی دھمکیاں، جبر یا آزادی سے من مانی محرومی، چاہے وہ عوامی زندگی میں ہو یا نجی زندگی میں۔ جنسی بنیاد پر تشدد کے خلاف 16 دن کی سر گرمی ایک بین الاقوامی مہم ہے جو 1991 میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے شروع ہوئی۔

25 نومبر ”خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن“ سے شروع ہو کر ، 0 1 دسمبر ”انسانی حقوق کے عالمی دن“ تک، یہ مہم دنیا بھر کے افراد اور گروہوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کے خاتمے کے لئے کام کریں۔ اقوام متحدہ نے 2023 کی اس 16 روزہ مہم کے لئے ”خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لئے سرمایہ کاری کرنا“ کو تھیم مقرر کیا گیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت خواتین کی سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے 2030 تک خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے خاتمے کا ہدف طے کر رکھا ہے۔ اس مہم کے دوران خواتین کی مساوی مواقع تک رسائی، ان کے لئے باوقار معیار زندگی کے حصول او ر بنیادی انسانی حقوق کی ترویج کا عزم کرنا اور اس کے لئے بھر پور اقدامات کرنا انتہائی ضروری ہے چاہے اس کا آغاز ایک چھوٹے سے قدم سے ہی کیا جائے اور پھر جدوجہد جاری رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments