ایک کچھوے کی زندگی بھی کیا زندگی ہے


ایک کچھوے کی زندگی بھی کیا زندگی ہے! نہ کوئی فکر اور نہ کوئی فاقہ، نہ کوئی خواب اور نہ کوئی منزل، نہ کوئی دعوے اور نہ کوئی ڈر، نہ حاصل اور نہ لا حاصل۔ آنکھ کھولتے ہی خود کو افق سے جڑے ساحل سمندر پر سن باتھ کرتے ہوئے پاتے ہیں، پانی آواز دیتا ہے تو پانی میں اتر جاتے ہیں اور خشکی یاد آتی ہے تو ریت پر اوندھے منہ بے سدھ ہو کر لیٹے رہتے ہیں۔ کوئی ننھی مچھلی خود بخود منہ میں آ کر پھس جائے تو وہ کھا لی اور کبھی کوئی سبزہ مل گیا تو اس پر توکل کر کے رب کا شکر ادا کر لیا۔ اگر کوئی ڈنڈے والا آ جائے تو سر پر خول ڈال کر بیٹھ رہے اور جب سنگ باز چلے جائیں تو پھر سینہ چوڑا کر کے چل پڑے۔ ایسا درویش جانور کم از کم پچھلے ستر پچھتر سال کی تاریخ میں تو کوئی اور نہیں دیکھا۔

کچھوا ایسا شریف النسل جانور ہے کہ اسے ہم ولی سمجھتے اگر یہ اتنے زیادہ انڈے نہ دیتا۔ یہ بات تسلیم کہ دنیا میں قدرتی ماحولیات کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ کچھووں کی تعداد میں اضافہ ہو مگر یہ کیا کہ ایک وقت میں اسی نوے انڈے دے کر انہیں ریت میں چھپا کر بھاگ جایا جائے۔ میری ایک کچھوے سے بات ہوئی تو کہنے لگا کہ حضرت کہتے تو آپ سچ ہیں مگر ہر روز اتنی دور سے آ کر صرف ایک انڈا دینے میں بہت وقت لگتا ہے اور دوسری بات یہ کہ ہمارا کام انڈے دینا ہے، باقی کا کام حکومت کا ہے کہ حیوانات کی حیوانوں کی طرح دیکھ بھال کرے۔ میں نے عرض کی کیا یہ فطرت کے اصولوں کے منافی نہیں کہ آپ کی کمیونٹی انڈے دے کر بھاگ جاتی ہے اور مائیں باقی جانوروں کی طرح اپنے بچوں کو خود نہیں پالتیں۔ اس پر حضرت نے فرمایا کہ ان کی دانست میں مقصد زیست غم عشق میں مبتلا ہو کر صرف افزائش نسل ہے تاکہ کائنات پر غلبہ حاصل کیا جا سکے۔ روزی روٹی رازق کا کام ہے، وہ ان کو کہیں نہ کہیں سے مل ہی جاتی ہے۔ ان کے ذمہ بس ایک ہی کام ہے کہ وہ بڑے ہو کر مزید انڈے دیں۔

کچھوے کا دماغ خراب اس کہانی نے کیا ہے جس میں خرگوش کو آنکھ لگ جاتی ہے اور یہ دھیرے دھیرے منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ یہ کہانی خرگوش نے ہی لکھ کر چھپوائی ہے۔ جب سے یہ کہانی زبان زد عام ہوئی ہے، کچھوے کے چل چل کر گوڈے فیل ہو گئے ہیں اور خرگوش جب چاہتا ہے سو جاتا ہے اور جب چاہتا ہے گاجریں کھانا شروع کر دیتا ہے۔ منزل پر پہنچنے کا کام کچھوے کے ذمہ لگا کر خود خرگوش کبھی خراماں خراماں اور کبھی چھلانگاں، حق ہو کے نعرے مارتے ہوئے کبھی یاں کبھی واں۔ خرگوش کا کہانی کے باقی کرداروں سے بھی مسلسل رابطہ ہے ؛ اس بدھو سے بھی جو اسی ٹہنی کو کاٹے ہے جس پر وہ خود بیٹھا ہے اور اس اچکے سے بھی جو جنگل میں گزرتے مسافروں کو یقین دلاتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں پکڑی رسی سے جو بکری بندھی ہے، وہ بکری نہیں ایک کتا ہے۔ یہ رابطہ ربط میں رہے تو خرگوش کے کان کھڑے رہتے ہیں اور جب کبھی کچھوا مارے نیند کے رک جائے تو کسی نہ کسی کردار کو بھیج کر اس کے کان میں کہلوا دیتا ہے کہ شاباش کچھوے شاباش، چلتے رہو، منزل قریب ہے۔

کچھوا ایسا فقیر منش ہے کہ سمجھتا ہے کہ اس کے چلتے رہنے میں ہی دنیا کی عافیت ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اسے یہ بھی گمان ہے کہ اسے عمر دوام حاصل ہے۔ اسے یہ بھی خمار ہے کہ وہ نسلی نواب ہے یعنی ڈائنوسار کے خاندان کی آخری نشانی ہے۔ پھر اسے وہ منظر بھی نہیں بھولتا کہ جب اس نے ساحل سمندر پر انڈے کے خول سے سر نکالا تھا تو فلک پر چودھویں کا چاند چمک رہا تھا اور سمندر اچھل اچھل کر اسے دیکھ رہا تھا اور اسے دنیا میں خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ اسے ایک بوڑھے کچھوے کی بات بھی نہیں بھولتی جو اس نے اس دن کہی تھی جب وہ پندرہ بڑی مچھلیوں کے چنگل سے ایسے نکلا تھا جیسے کسی نے اسے ہاتھوں میں اٹھا کر کسی جزیرہ امان پر رکھ دیا ہو۔ اس دانا بزرگ کچھوے نے اس کی گدلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ قدرت نے تم سے یقیناً کوئی کام لینا ہے کہ اس طرح بچ گئے ہو ورنہ سمندر میں روزانہ لاکھوں کچھوے مد و جزر کی آغوش میں چھلانگ لگاتے ہیں اور پھر واپس نہیں آتے۔ یہ فقیر منش اس وقت سے اس آس پر زندہ ہے کہ کسی دن سمندر کے دن پھریں گے اور نیلے پانیوں پر اس کی حکومت قائم ہو گی۔

ایک دفعہ میں ساحل سمندر پر جاگزیں تھا یعنی جاگنگ کر رہا تھا کہ میں نے ایک سبز کچھوے کو غشی کے عالم میں گرا پڑا دیکھا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ سبز کچھوے بڑی نایاب نسل کے بڑے روشن خیال کچھوے ہوتے ہیں۔ میں نے ان کی عالمی خدمات کے اعتراف میں اس کو اٹھا کر گھر لے آیا۔ دو چار دن اس کی خاطر مدارت کی تو اس آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں نے اس کو یقین دلایا کہ وہ محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اس کو کھانے کو کچھ جڑی بوٹیاں دیں جو اس نے تھو کر کے اگل دیں۔ میں نے کہا کہ ابن ظالم! اتنی مہنگی سبزی لا کر کتر کر تمہارے آگے رکھی اور تمہیں پسند کیوں نہیں آئی۔ اس پر وہ گویا ہوا کہ ابن آدم! جس طرح تم انسان گندم کھا کر جنت سے نکالے گئے تھے، ہم کچھوے سبزہ کھانے کی پاداش میں سمندر سے نکالے جاتے ہیں۔ خشکی پر یہ ٹینڈے کریلے ہم پر حرام ہیں۔ میں نے گھبرا کے کہا کہ یہ تمہیں کس نے کہا ہے؟ وہ مرد درویش بولا کہ سمندر میں ہماری عاقبت کی نشانیاں ہمیں مگرمچھ بتاتا ہے اور اس نے ہماری نسل کو یہ بشارت دے رکھی ہے کہ جو کچھوا خشکی پر پہنچ کر سبزے سے پرہیز کرے تو وہ اگلے جنم میں بحیرہ عرب کے طلسماتی پانیوں میں سے اٹھایا جائے گا۔ میں گھبرا کر بولا کہ اگر تم کچھ نہیں کھاؤ گے تو مر جاؤ گے اور اگر مر گئے تو میں تمہارا کیا کروں گا۔ کہنے لگا کہ لکشمی لاہور میں جا کر دے آنا۔ وہ آج کل میری اچھی کڑاہی تیار کرتے ہیں۔ بے فکر ہو کر کھا لینا کہ من حلال شدی۔

مختار پارس
Latest posts by مختار پارس (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مختار پارس

مختار پارس انشائیہ اور مزاح لکھتے ہیں

mukhtar-paras has 7 posts and counting.See all posts by mukhtar-paras

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments