اسلام میں خدا کا تصور: الکندی


پلوٹینس نے روم میں فلسفے کا ایک اسکول اس وقت کھولا جب یونانی تہذیب اپنے آخری لمحات میں تھی، اس وقت رومن تہذیب اپنے عروج پر تھی، اور نو قائم شدہ عیسائیت ایک مظلوم مذہب کی صورت میں رومن دنیا میں موجود تھی۔ پلوٹینس کی موت کے 50 سال کے اندر، رومن شہنشاہ کانسٹنٹائن اور ان کی با اثر یونانی ماں، ہیلینا، نے عیسائیت کو اپنا مذہب بنا لیا اور پھرپوری رومی سلطنت بشمول مشرق وسطیٰ اور یورپ کا بیشتر حصہ عیسائی ہو گئی۔

یہ وہ وقت تھا جب عیسائیت، جو تثلیث کے ایک ناقابل فہم تصور پر قائم تھی، اپنی منزل تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ نیوپلاٹونزم نے نیسا کے گریگوری اور ہپپو کے آگسٹین کے کاموں کے ذریعے عیسائی مذہب کے لیے پہلا فلسفیانہ جواز فراہم کیا۔ اسلامی تہذیب کی آمد کے بعد نویں صدی میں یونانی فلسفے کے اثرات انسانی فکر پر بالعموم اور خدا کے وجود کے سوال پر خاص طور پر نمایاں ہوئے۔

اسلام کا آغاز عرب کے صحرا میں اس وقت ہوا جب 610 عیسوی میں، پیغمبر محمد ﷺ کو مکہ کے مضافات میں کوہ حرا پر الہی تجربہ ہوا۔ یہ وحی کی ابتدا تھی اور یہ سلسلہ اگلے 23 سالوں تک جاری رہا۔ وحی پر مبنی آیات کی تالیفات نے اسلامی مقدس کتاب قرآن کی تشکیل کی۔

اسلام کا سب سے زیادہ زور خدا کے وجود اور اس کی وحدانیت پر تھا جس نے کائنات اور اس میں موجود ہر چیز کو تخلیق کیا۔ خدا کی طرف منسوب حکمت، سخاوت اور طاقت جیسی صفات اسلام کا مرکز بنیں۔ خدا کی طرف سے پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والی وحی نے دین کی بنیاد رکھی۔

اسلام نے ایک ایسے معاشرے میں جنم لیا جہاں صدیوں سے بت پرستی کا رواج تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب فارس اور رومن سلطنتیں اپنے عروج پر تھیں مگر عرب معاشرہ تہذیب کے مراکز سے بہت دور تھا۔ تاہم، 632 عیسوی میں پیغمبر اسلام کی وفات کے فوراً بعد ، فارس اور بازنطینی سلطنتوں کی فتوحات نے مسلمانوں کو ایک بڑی سلطنت کا مالک بنا دیا۔ اس سلطنت نے ایک عظیم تہذیب کو جنم دیا جس نے سائنس اور فلسفے میں یونانی تہذیب کی روایات کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ ان فیلڈز میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔

اسلامی سنہری دور کا آغاز عباسی خلیفہ ہارون الرشید سے شروع ہوتا ہے جنہوں نے 786 عیسوی سے 809 عیسوی تک حکومت کی۔ ہارون الرشید کے بعد ان کے بیٹے مامون نے اقتدار سنبھالا۔ ہارون الرشید کے دور میں، نئے قائم کردہ دارالحکومت بغداد میں بیت الحکمہ (حکمت کا گھر) کی بنیاد رکھی گئی۔ بیت الحکمہ ابتدا میں دنیا کے تمام حصوں سے لائے گئے مخطوطات کا ترجمہ کرنے کے لیے بنایا گیا۔ سائنس، ریاضی اور فلسفہ پر یونانی کتب، جو مغرب کے ہاتھوں تقریباً ناپید ہو چکی تھیں، کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔ وقت کے ساتھ یہ سائنس۔ مذہب اور فلسفے میں اسلامی ترقی کا مظہر بن کر ابھریں۔

اس مضمون میں، میں صرف خدا کی فطرت، وحی اور پیغمبر محمد ﷺ کی حیثیت کے بارے میں مسلمانوں کے افکار کے ارتقا پر توجہ مرکوز کروں گا۔ ترجمے کی تحریک کے ساتھ، بہت سے فلسفی آئے جن کا خیال تھا کہ فلسفہ اور مذہب بالآخر ایک ہی سچائی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس لیے اسلامی مذہب کو عقلیت کی بنیاد پر سمجھا جا سکتا ہے اور خدا کا تصور فلسفے کے ذریعے تعین کیا جا سکتا ہے۔

پہلے فلسفی جنہوں نے اسلام اور فلسفہ کو ملانے کی کوشش کی وہ ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی تھے۔ الکندی 800 عیسوی میں پیدا ہوئے اور 870 عیسوی میں وفات پائی۔ وہ پہلے مسلمان فلسفی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ ارسطو، نیوپلاٹونسٹ، اور یونانی ریاضی دانوں اور سائنسدانوں کے کاموں کو عربی میں پیش کرنے والی اہم شخصیات میں سے ایک تھے۔ انہوں نے سائنسی اور فلسفیانہ مضامین پر سینکڑوں مقالے لکھے۔ ان کی سب سے مشہور تصانیف میں سے ایک کتاب ’پہلا فلسفہ‘ ہے جس میں وہ یونانی فلسفیانہ نظریات کو اسلامی مذہب میں خدا کی نوعیت کو سمجھنے میں استعمال کرتے ہیں۔ الکندی کے افکار نیوپلاٹونسٹ فلاسفی سے بہت زیادہ متاثر تھے لیکن وہ فلسفیانہ معاملات میں ارسطو کو مرکزی اتھارٹی سمجھتے تھے۔ تاہم بعض بنیادی مسائل پر انھوں نے ارسطو سے اختلاف بھی کیا۔

الکندی کے نظریات پر بحث کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ نویں صدی میں رہتے تھے۔ یہ وہ صدی ہے جس میں اسلامی نظریاتی علوم نے ایک عروج حاصل کیا۔ اسلام کے اندر ترجمے کی تحریک اور فلسفیانہ تحریک اس فکری طور پر متحرک دور کے صرف ایک حصے کی نمائندگی کرتی ہے۔ افلاطون، ارسطو اور دیگر یونانی فلسفہ سے متاثر فلسفیوں کے ذریعہ اسلام کی تشریح کو ان لوگوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے خدا کے کلام کی لفظی تشریح کی حمایت کی۔ مثال کے طور پر یہ وہ وقت تھا جب محمد بن اسماعیل البخاری، مسلم ابن الحجاج اور دیگر کی طرف سے احادیث (پیغمبر کے اقوال) کو جمع کرنے کی سنجیدہ کوشش جاری تھی۔ اس طرح الکندی کی اسلام کو فلسفیانہ فریم ورک کے اندر سمجھنے کی خواہش روایتی اور عقیدہ پرستانہ طرز عمل کے مخالف تھی۔

الکندی کے نظریاتی فلسفے کے دو اہم پہلو تھے۔ سب سے پہلے، انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کائنات ابدی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ کہ انھوں نے ثابت کیا کہ خدا کا وجود ایک حقیقت ہے جو ہر چیز کی موجودگی کا سبب ہے۔ الکندی کا ”حقیقی خدا“ نیوپلاٹونک فلسفہ کے ”ایک“ سے مضبوط مشابہت رکھتا ہے۔ تاہم، وہ ارسطو اور نیوپلاٹونسٹ فلسفے سے بہت آگے گئے اور اپنے دلائل کی حمایت میں منطقی ثبوت فراہم کیے۔

الکندی کی کتاب ’پہلا فلسفہ‘ کا مرکزی متن خدا ہے جس میں وہ کائنات کی ابدیت سے متعلق مسائل اور خدائی صفات کے مسائل پر بحث کرتے ہیں۔ کتاب کے صرف پہلے چار ابواب بچ پائے۔ پہلا باب فلسفہ کے دفاع پر مشتمل ہے، دوسرا باب دنیا کی ابدیت کے خلاف الکندی کے استدلال پر مشتمل ہے، اور تیسرے اور چوتھے باب میں خدا کی وحدانیت کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ الکندی کا فلسفہ ارسطو اور نیوپلاٹونک سوچوں سے کافی متاثر تھا۔ آخر میں، الکندی نے اس بات کا ثبوت پیش کیا کہ خدا ایک ”حقیقی“ ہے جو تمام وضاحتوں سے بالاتر ہے۔

میں پہلے الکندی کا ثبوت پیش کرتا ہوں کہ کائنات لامحدود نہیں ہے۔ یہ محدود ہے۔ پھر میں الکندی کے دلائل پیش کروں گا کہ کائنات ابدی نہیں ہے۔ یہ نتیجہ، ارسطو کے خیالات کے برعکس تھا جن کا ماننا تھا کہ کائنات ابدی ہے۔ الکندی کے دلائل سمجھنے میں ذرا مشکل ہیں۔ یہاں میں انہیں آسان زبان میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

منطق میں کسی تجویز کو ثابت کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے یہ فرض کر لیا جائے کہ اس کے برعکس سچ ہے اور پھر یہ ثابت کیا جائے کہ اس سے ایسے نتائج نکلتے ہیں جو درست نہیں ہو سکتے۔ اس لیے یہ مفروضہ غلط ہے۔ اسے تضاد کا ثبوت کہتے ہیں۔

ذیل میں الکندی کے دلائل اسی منطق کی پیروی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہ ثابت کرنے کے لیے کہ کائنات محدود ہے، وہ یہ فرض کر کے شروع کرتے ہیں کہ کائنات لامحدود ہے اور پھر یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ مفروضہ منطقی تضاد کی طرف لے جاتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ کائنات لامحدود ہے غلط ہے۔ پس ثابت ہوا کہ کائنات محدود ہے۔

الکندی کے دلائل کچھ اس طرح ہیں۔

فرض کریں کہ کوئی چیز لامحدود وسعت رکھتی ہے۔ ایسی چیز کو حصوں میں الگ کیا جا سکتا ہے۔ فرض کریں کہ ایک محدود سائز کا حصہ بڑی لامحدود چیز سے الگ ہو جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس جدائی کے بعد باقی رہنے والا حصہ محدود ہو گا یا لامحدود؟ الکندی کے استدلال میں، اگر یہ دکھایا جائے کہ باقی حصہ نہ تو محدود ہے اور نہ ہی لامحدود، تو اصل چیز لامحدود نہیں ہو سکتی اور اسے محدود ہونا چاہیے۔

سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ باقی ماندہ حصہ محدود نہیں ہو سکتا۔ اس کو دیکھنے کے لیے ہم فرض کرتے ہیں کہ، اگر باقی حصہ محدود ہے اور اگر الگ کیا گیا حصہ باقی حصے میں لوٹا دیا جائے تو نتیجہ میں پیدا ہونے والی چیز محدود ہوگی۔ تاہم، اصل چیز تو لامحدود تھی اور جب علیحدہ حصہ اصل میں واپس آ جائے تو نتیجہ میں پیدا ہونے والی چیز کو لامحدود ہو جانا چاہیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا یہ قیاس کہ کسی محدود حصے کے الگ ہونے کے بعد باقی رہنے والا حصہ محدود ہے درست نہیں ہو سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ محدود حصہ کے الگ ہو جانے کے بعد باقی رہنے والا حصہ لامحدود رہنا چاہیے۔

الکندی کا استدلال ہے کہ یہ رہ جانے والا حصہ لامحدود بھی نہیں ہو گا۔ اس کو دکھانے کے لیے، آئیے پہلے فرض کر لیں کہ رہ جانے والا حصہ لامحدود ہے۔ اب الگ شدہ حصے کے باقی رہ جانے والے حصے میں واپس آنے کے بعد دو امکانات ہیں۔ یا تو نتیجے میں آنے والا حصہ اصل چیز سے بڑا ہو گا یا اس کے برابر ہو گا۔

پہلا امکان (نتیجے میں آنے والا حصہ اصل چیز سے بڑا ہو گا) کو رد کر دیا جاتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مشترکہ چیز کا لامحدود سائز اصل لامحدود سائز سے بڑا ہے، اس طرح ایک لامحدودیت دوسری لامحدودیت سے بڑی ہو جاتی ہے۔ الکندی کے نزدیک یہ ناممکن ہے۔

دوسرا امکان یہ ہے کہ دوبارہ جوڑنے والی چیز اصل چیز کے سائز کی ہو۔ لیکن ہمیں یاد ہے کہ جب ایک محدود سائز کی چیز کو لامحدود سائز کی چیز سے الگ کیا جاتا ہے، تو رہ جانے والی باقی چیز لامحدود ہوتی ہے۔ جب علیحدہ حصہ اصل چیز میں واپس آ جاتا ہے، تو سائز اب بھی لامحدود ہے۔ الکندی پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جب ایک محدود چیز دوسری چیز میں شامل ہو جائے تو اس کی جسامت میں اضافہ نہ ہو؟ یہ پہلے لامحدود تھی اور اب بھی لامحدود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مفروضہ کہ دوبارہ ملی ہوئی چیز اصل چیز کے سائز کے برابر ہے، بھی غلط ہے۔ اس طرح، ہمارا یہ قیاس کہ باقی رہ جانے والی چیز لامحدود ہے غلط ہے کیونکہ دونوں امکانات، دوبارہ جوڑی ہوئی چیز اصل چیز سے بڑی یا اس کے برابر ہے، غلط ہیں۔

اس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر ایک محدود سائز کے چیز کو لامحدود سائز کی چیز سے الگ کیا جائے تو باقی بچنے والی چیز نہ تو محدود ہے اور نہ ہی لامحدود۔ الکندی کا استدلال واحد ممکنہ حل کی طرف لے جاتا ہے کہ لامحدود وسعت کی کوئی چیز موجود نہیں ہو سکتی۔ یہ دلچسپ دلیل ثابت کرتی ہے کہ کائنات لامحدود نہیں ہو سکتی، یہ محدود ہے۔

اگلا مرحلہ یہ ثابت کرنا ہے کہ اگر کائنات محدود ہے تو یہ ابدی نہیں ہے۔ یہاں الکندی نے دلیل دی ہے کہ وقت کائنات کے حجم کے براہ راست متناسب ہے۔ اگر کائنات کے اندر کوئی شے حرکت کرتی ہے اور اگر کائنات ابدی ہے، تو اس کے لیے کائنات کی جسامت سے زیادہ فاصلہ طے کرنا ممکن ہو گا۔ لیکن یہ منطقی طور پر ناممکن ہے۔ اس طرح، کائنات کے ایک محدود سائز کا مطلب یہ ہے کہ کائنات ابدی نہیں ہے اور اس کا وجود ایک محدود وقت پہلے شروع ہوا تھا۔

یہ ثابت کرنے کے بعد کہ محدود سائز کی کائنات ایک مقررہ وقت پہلے تخلیق کی گئی تھی، الکندی یہ ثابت کرنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی خالق یا خدا ہے جس نے اسے تخلیق کیا ہے۔ ایک بار پھر الکندی کا ثبوت تضاد کا ثبوت ہے۔

آئیے مان لیتے ہیں کہ کائنات کا کوئی خالق نہیں، یہ کائنات کسی کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ خود اپنی وجہ سے ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو کائنات اپنے طور پر وجود میں آئی۔ الکندی نے سوال کیا: کیا کوئی چیز اپنے وجود کا سبب بن سکتی ہے؟ دوسرے لفظوں میں، کیا کوئی چیز اپنے آپ کو وجود میں لا سکتی ہے؟ الکندی کا دو ٹوک جواب ہے کہ ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے۔

کائنات کو اپنے وجود کا سبب بننے کے لیے پہلے کائنات کا اپنا وجود ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر کائنات اپنے آپ کو وجود میں لاتی ہے تو اسے وجود سے پہلے موجود نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح ہمارے سامنے ایک متضاد صورتحال ہے : ایک دلیل ثابت کرتی ہے کہ کائنات کو اپنے وجود سے پہلے موجود ہونا چاہیے تھا جبکہ دوسری دلیل کے مطابق کائنات کا وجود اپنے وجود سے پہلے ممکن نہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ مفروضہ کہ کائنات خود سے وجود میں آئی، غلط ہے۔

الکندی پھرثابت کرتے ہیں کہ کائنات کا کوئی خالق ہونا چاہیے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ کائنات ماضی کے محدود وقت میں وجود میں آئی۔ کائنات کے وجود کے بارے میں تین امکانات ہیں۔ پہلا امکان یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں تھا اور کائنات وجود میں آ گئی۔ لیکن یہ سچ نہیں ہو سکتا۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ کائنات نے خود کو وجود بخشا۔ لیکن یہ منطقی طور پر ممکن نہیں جیسا کہ اوپر دیکھا گیا ہے۔ اس طرح، واحد امکان باقی رہ جاتا ہے کہ کائنات کا کوئی خالق یا خدا ہے۔

ایک سوال یہ ہے کہ خدا ایک ہے یا کئی معبود ہیں؟ الکندی فلسفیانہ دلائل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ خالق یا خدا ”حقیقی“ اور ”ایک“ ہے۔

الکندی کے دلائل کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اگر ہم کسی نوع کو دیکھیں تو اس میں ایک وحدانیت ہوتی ہے جو اس کی خاصیت بیان کرتی ہے، مگر ساتھ ساتھ اس کی کئی اقسام بھی ہوتی ہیں۔ یعنی ہر چیز کے ساتھ اکائی اور کثرت موجود ہوتے ہیں۔ اس کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔

جانور ایک نوع ہے جو متعدد انواع جیسے جنگلی جانوروں، رینگنے والے جانوروں۔ بحری جانوروں، اور پرندوں پر مشتمل ہے۔ پھر جنگلی جانوروں میں شیر، ہاتھی، زیبرا اور ان جیسے دوسرے جانور شامل ہیں۔ پھر ہر جنگلی جانور، مثلاً شیر، دل، ناک، آنکھ اور کان جیسے متعدد اعضاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ان تمام صورتوں میں کثرت وحدت کی پیروی کرتی ہے۔ لیکن ہر وحدت خود کثرت کا حصہ ہوتی ہے اور اس کثرت کے پیچھے بھی ایک وحدت ہوتی ہے۔

الکندی کا استدلال ہے کہ اگر ہم اس سلسلے کو آگے کی بجائے پیچھے، بہت پیچھے، لے جائیں تو ایسے ماخذ تک پہنچ جائیں گے جو اپنی نوع میں یکتا ہو گا اور اس کی نوع کی کوئی اور قسم نہیں ہو گی، مگر یہ دوسری انواع کا ماخذ ہو گا۔ یعنی یہ وحدت کسی کثرت کا حصہ نہیں ہو گی۔ الکندی کے نزدیک یہ وحدت خدا ہے جو ایک مطلق ہے اور سب چیزوں کا ماخذ ہے۔

اس طرح، دلائل کے ایک سلسلے سے، الکندی نے ظاہر کیا کہ کائنات ابدی نہیں ہے۔ اس کی شروعات وقت سے ہونی چاہیے۔ انھوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ کائنات کا ایک ہی خالق یا خدا ہے۔ الکندی اسے ”سچ“ قرار دیتے ہیں۔

پہلی نظر میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ الکندی کے دلائل بہت مضبوط ہیں اور ان میں کوئی خامی نہیں ہے۔ کم از کم، نویں صدی میں، ان دلائل کی تردید کرنا مشکل ہوا ہو گا۔ اب، 21 ویں صدی میں، ہم جانتے ہیں کہ ان کا یہ مفروضہ کہ جب ایک محدود شے کسی لامحدود شے سے الگ ہوتی ہے، تو وہ ایک محدود شے پیدا کرتی ہے، درست نہیں۔ اس کے علاوہ، ان کا یہ قیاس کہ جب کسی لامحدود چیز میں ایک محدود چیز شامل ہو جائے تو اس سے ایک چیز پیدا ہوتی ہے جو اصل لامحدود چیز سے بڑی ہوتی ہے، یہ بھی درست نہیں۔

جیسا کہ شروع میں ذکر کیا گیا ہے، الکندی کے دلائل نے نہ صرف اسلامی فلسفیوں کی آنے والی نسلوں پر زبردست اثر ڈالا بلکہ عیسائی مذہب کو بھی متاثر کیا۔ مغرب میں کچھ لوگ الکندی کو انسانی تاریخ کے بارہ عظیم ترین فلسفیوں میں سے ایک مانتے ہیں۔

اسلامی دنیا کے اگلے عظیم فلسفی الفارابی تھے۔ انھیں ارسطو کے بعد دوسرا استاد کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر سہیل زبیری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر سہیل زبیری

ڈاکٹر سہیل زبیری ٹیکساس یونیورسٹی میں کوانٹم سائنس  کے Distinguished Professor ہیں اور اس ادارے میں کوانٹم آپٹکس کے شعبہ میں Munnerlyn-Heep Chair پر فائز ہیں۔

suhail-zubairy has 63 posts and counting.See all posts by suhail-zubairy

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments