ذہن میں آیا “خلفشار”


جان کی امان پاتے ہوئے اپنے دل ودماغ میں گزشتہ کئی روز سے اٹکا ایک خیال آج کے کالم میں لکھ دینا چاہتا ہوں۔ جو خیال میرے دل ودماغ کو جکڑے ہوئے ہے اس کے اظہار سے قبل نہایت عاجزی سے اصرار یہ بھی کرنا ہے کہ ذاتی طورپر میں اس سے ہرگز متفق نہیں۔ محض ایک خیال ہے جو دل ودماغ میں گردش کئے چلے جارہا ہے اور میں درحقیقت اسے بیان کرنے کے بعد اس سے جان چھڑانا چاہتا ہوں تاکہ دیگر معاملات پر توجہ مرکوز کی جاسکے۔

بہرحال گزشتہ کئی دنوں سے میرے دل ودماغ کو جکڑنے والا خیال یہ طے کئے ہوئے ہے کہ 8 فروری2024ء کے انتخابی نتائج نے ہماری ریاست کے دائمی اداروں اور وہاں موجود ”ذہن سازوں“ کو یہ سوچنے کو مجبور کردیا ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت واقعتا ”جاہلوں“ پر مبنی ہے۔ وہ اچھے اور برے رہ نماﺅں میں تفریق کے قابل نہیں۔اپریل 2022ء کے آڈیووڈیو لیکس کے ذریعے بے شمار باتیں عوام کے روبرو لائی گئی ہیں۔ان کی بدولت بانی تحریک انصاف کی مبینہ ”اصلیت“ بے نقاب ہوجانا چاہیے تھی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ بالآخر تحریک انصاف کے بانی کو گرفتار کرنا پڑا۔ ان کے خلاف ایک نہیں کرپشن اور بدعنوانی کے سنگین الزامات کے تحت کئی مقدمات کا آغاز ہوا۔ ایک مقدمہ سائفر کے حوالے سے بھی قائم ہوا۔بعدازاں مبینہ طورپر عدت میں نکاح جیسا سنگین الزام بھی لگا۔ جو الزامات لگے ان کی اڈیالہ جیل میں روزانہ کی بنیاد پر سماعتیں ہوئیں۔بالآخر جیل میں لگی عدالت نے موصوف کے خلاف لگائے الزامات کو درست تسلیم کرتے ہوئے انہیں سزائیں بھی سنادیں۔

عوام نے مگر الزامات لگانے والوں پر اعتبار نہیں کیا۔ 8 فروری 2024ء کے روز تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے بیلٹ پیپروں پر انتخابی نشان بہت لگن سے ڈھونڈ کر ان پر حمایت کی مہر لگادی۔ تحریک انصاف یوں واحد اکثریتی جماعت کی صورت قومی اسمبلی میں پہنچ گئی۔تمام تر رکاوٹوں کے باوجود تحریک انصاف کے حمایت یافتہ افراد کی اتنی بڑی تعداد میں کامیابی نے عوام کے وسیع تر حصے کو یہ سوچنے پر بھی اکسایا کہ غالباََ تحریک انصاف کے مزید امیدوار بھی کامیاب ہوئے تھے۔ان کی ”کامیابی“ کو البتہ رات گئے کسی بندوبست کے ذریعے مبینہ طورپر ”ناکامی“ میں بدل دیا گیا۔ مذکورہ شک کی وجہ سے فارم 45 سے فارم 47 کا ورد چھڑاجو ابھی تک ہماری جان نہیں چھوڑ رہا۔

عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوجانے کی وجہ سے میں ہرگز اس قابل نہیں ہوں کہ عوام کے وسیع تر حلقوں میں 8 فروری 2024ء کے انتخابی نتائج کی بابت پھیلے شکوک وشبہات کے بار ے میں اعتماد کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرسکوں۔ ریاست اور اس کی سوچ سے عملی شناسائی کا آغاز میرے لئے 1975ء سے ہوا تھا جب رزق کمانے کی خاطر میں لاہور چھوڑ کر ا سلام آباد آیا تھا۔ 1985ء میں آٹھ برس کے طویل مارشل لاءکے بعد غیر جماعتی بنیادوں پر انتخاب ہوئے۔ان کے نتیجے میں جو قومی اسمبلی تشکیل پائی اس کے اجلاس کا مسلسل مشاہدہ کرتا رہا ہوں۔مذکورہ مشاہدے نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں سمجھ پاﺅں کہ مئی 1988ء میں جنرل ضیا الحق اپنے ہی نامزد کردہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو ان کی اسمبلی سمیت گھر بھیجنے کو کیوں مجبور ہوئے تھے۔

جونیجو صاحب کی فراغت کے بعد میں نے 1988ء سے اکتوبر 1999ء تک محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی قیادت میں حکومتوں کو بنتے اور بگڑتے بھی دیکھا ہے۔ 1990ء کی دہائی پر حاوی حکومتوں کی آنیوں جانیوں سے اکتاکر بالآخر جنرل مشرف کو وطن عزیز میں ایک بار پھر مارشل لاءلگانا پڑا۔ مارشل لاءکے تین سال بعد موصوف نے بھی انتخاب کروائے۔جن کے نتیجے میں ظفر اللہ جمالی وزیر اعظم بنائے گئے۔ وہ پسند نہ آئے تو تھوڑی دیر کو چودھری شجاعت کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر بٹھاکر شوکت عزیز کو قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے منتخب کروانے کے بعد وزیر اعظم بنا دیا گیا۔

2002ء میں قائم ہوئی قومی اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے دباﺅپر جنرل مشرف کو محترمہ بے نظیر بھٹو سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔وہ مگر وطن لوٹیں تو لیاقت باغ میں شہید کردی گئیں۔ ان کے ہولناک قتل کے باوجود بھی انتخاب ہوئے۔ 2008ء کے انتخاب نے یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم بنایا۔ ”عوام کی حمایت سے“ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر لوٹے افتخار چودھری نے مگر انہیں ایک ”چٹھی“ نہ لکھنے کی وجہ سے فارغ کردیا۔ ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف آئے اور 2013ء تک اپنے منصب پر فائز رہے۔ 2013ء کے انتخاب کے بعد نواز شریف تیسری بار پاکستان کے وزیر اعظم ہوئے۔ جس انتخاب کی بدولت وہ اس منصب پر پہنچے انہیں مگر ”باریاں لینے والی“ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ابھرے عمران خان ا ور ان کی تحریک انصاف نے منظور نہیں کیا۔ ”35 پنکچروں“ کی دہائی مچی۔ وہ دہائی کسی کام نہ آئی تو اپریل 2016ء سے پانامہ کا قضیہ شروع ہو گیا۔ مذکورہ قضیے نے ایک بار پھر عدالت کو ایک اور وزیر اعظم ”جھوٹا اور خائن“ پکارتے ہوئے گھر بھیجنا پڑا۔

نواز شریف کی فراغت کے بعد 2016ء کے انتخاب ہوئے تو انہیں عمران خان کے مخالفوں نے ”آر ٹی ایس“ کی پیداوار ٹھہرایا۔ ”وہ“ اور عمران خان مگر ”سیم پیج“ پر بیٹھے تین سال سے زیادہ عرصے تک سکون سے ملک چلاتے رہے۔ مارچ 2021ء سے مگر سیم پیج والوں کے درمیان بدگمانیاں شروع ہوگئیں اور بالآخر اپریل 2022ء آ گیا۔

پاکستان کی حالیہ تاریخ 1985ء سے دہرانے کو اس لئے مجبو ہوا ہوں کہ 8 فروری 2024ء کے روز ہوئے انتخاب کے حتمی نتائج بھی عوام کی اکثریت کو اطمینان دلانے میں اب تک نا کام ہو رہے ہیں اور یوں ملک میں سیاسی استحکام فراہم کرنا دشوار تر ہورہا ہے۔ایسے حالات مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہے ہیں کہ ریاست کے دائمی اداروں ہی کو آگے بڑھ کر ہمارے لئے سیاسی بندوبست طے کرناپڑرہا ہے۔ممکنہ بندوبست میں سیاستدان شطرنج کے مہروں کی طرح چند ”خانوں“ میں بٹھائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جو بھی ذہن میں آئے وہ ”خلفشار“ شمار ہوگا جسے ہر صورت روکنے کی کوششیں ہو گی۔ عوام ہی سے آخر ”بندے کی پتر“ بننے کی توقع با ندھی جارہی ہے۔ کم از کم میں تو عمر کے آخری حصے میں اس کے لئے مکمل طور پر تیار ہو چکا ہوں۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments