ٹورنٹو، دبئی اور مانچسٹر  مصنف:شاہد صدیقی


ٹورنٹو، دبئی اور مانچسٹر ایک انتہائی دلفریب کہانیوں کا مجموعہ ہے جو نہ صرف ڈاکٹر شاہد صدیقی کی زندگی کے مختلف پہلووٴں کا احاطہ کرتا ہے بلکہ ایک سفرنامے کی صورت میں قاری کو بہت سی حقیقتوں سے بھی روشناس کرتا ہے۔ یہ خوبصورت کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اس کتاب کا انتساب اپنے رہنما، مینٹور اور بہترین دوست پروفیسر راج کے نام کیا ہے۔ پہلا حصہ ”ٹورنٹو اور وقت کا بہتا دریا“ ڈاکٹر شاہد کے یادگار دنوں یعنی دوران طالبعلمی کے زمانے کی یادوں سے لے کر تین دہائیوں کے بعد ان کے حال کا احاطہ کرتا ہے۔

کینیڈین کامن ویلتھ سکالرشپ پر یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں پی ایچ ڈی کرنے کے دوران چار سال کے قیام کے عرصے میں اپنی ذہنی و جسمانی جدوجہد، تعلیمی سفر، گھریلو زندگی، موسمی مشکلات کے ساتھ ساتھ کئی دلچسپ واقعات انتہائی فنی مہارت سے قلمبند کیے گئے ہیں۔ کتاب شستہ اردو میں لکھی گئی ہے جس میں ایک منجھے ہوئے کہانی کار کی مانند ڈاکٹر شاہد صدیقی قاری کی دلچسپی مسلسل برقرار رکھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ پہلے حصے میں سسپینس اور ناسٹیلجیا کے عناصر بھی ہر گزرتے صفحے کے ساتھ دلچسپی میں اضافہ کرتے نظر آتے ہیں۔

تین دہائیوں کے بعد ، دوبارہ ٹورنٹو کے انہی گلی کوچوں کا سفر، وہ گزر گاہیں اور یادوں پر نقش چہروں کا احوال جذباتی مگر عصر حاضر کی تبدیلی و ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان کیا گیا ہے۔ غرض یہ کہ قاری خوشی اور اداسی، ملاپ اور جدائی، ماضی اور حال کے تجربات کے ساتھ زندگی کی اس حقیقت سے آشنا ہوتا ہے کہ وقت کسی مقام پر ٹھہرتا نہیں ہے۔ یہ انتہائی اہم حصہ یادوں کی اہمیت سے بھی روشناس کرواتا ہے کہ اگر وقت گزر بھی جائے تو یادیں انسان کا قیمتی سرمایہ بن جاتی ہیں۔

پہلے حصے کی طرح، کتاب کا دوسرا حصہ ”دبئی: موتی و مرجان کی سرزمین“ بھی سفرنامے کی خوبصورت یادوں اور کئی سبق آموز واقعات کا ایک دلفریب مجموعہ ہے۔ یہ حصہ، لکھاری کے دبئی کے گزشتہ سال کے سفر کی روداد پر مشتمل ہے۔ ویسے تو یہ سفر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اپنے خاندان، بھانجوں اور بھتیجوں کی محبت اور بے حد اصرار پر کیا لیکن دبئی کے طرز زندگی اور ثقافت نے انہیں بے پناہ معلومات اور دلچسپی مہیا کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں دل ہی دل میں ابھی تک دبئی نہ آنے کے لیے تھوڑی پشیمانی اور پچھتاوا محسوس ہوتا نظر آیا۔

دبئی کی زمین پر جو خاص بات ڈاکٹر صدیقی کو بے حد متاثر کرتی نظر آتی ہے وہ سیموئل ہٹنگٹن کے مشہور نظریہ ”تہذیبوں کے تصادم“ کے برعکس مختلف تہذیبوں کا خوبصورت ملاپ ہے۔ اور کوئی تہذیب کسی دوسری تہذیب پر برتری کا حق نہیں رکھتی بلکہ ایک دوسرے کے احترام کا جذبہ نمایاں نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مقامی اور غیر مقامی شہریوں کے حقوق اور حفاظت کا تسلی بخش انتظام کا احوال بھی نہایت عمدہ طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔

دوسرا حصہ ڈاکٹر صدیقی کی خوش مزاجی، رکھ رکھاوٴ، شوخ مزاج، انواع و اقسام کے کھانوں کی شوقین طبیعت اور سب سے بڑھ کر ان کے کافی پینے کے سدا بہار شوق کو بھی قلمبند کرتا ہے۔ ان کے مزاج کے بارے میں جان کر ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ اس قدر گہرائی میں لکھنے والا قلم کار اتنا سادہ طبع اور زندگی سے بھرپور بھی ہو سکتا ہے۔

تیسرا اور آخری حصہ ”مانچسٹر: بھیگتے دنوں کی کہانی“ جذباتی لحاظ سے کتاب کا زرخیز ترین حصہ ہے۔ یہاں قاری کو ایک مرتبہ پھر ماضی کی دھندلی یادوں کی سیر پر لے جایا جاتا ہے ۔ یہ اس وقت کے ناقابل فراموش قصے بیان کرتا ہے جب ڈاکٹر صدیقی اسی کی دہائی میں برٹش کونسل کے سکالرشپ کے تحت یونیورسٹی آف مانچسٹر میں انگریزی میں ماسٹر کرنے گئے۔ یہ ہی وہ جگہ ہے جس نے انہیں بے حد عزیز پروفیسر اور دوست راج سے ملوایا۔ راج نے انہیں زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں ہمیشہ رہنمائی کی اور انہیں سوچنے کے نئے طریقے سکھائے۔

وہ راج کے ساتھ ہر موضوع پر بات کرتے ہوئے نظر آئے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قاری بھی دبے پاوٴں ان کی محفل کا حصہ بن کر ہمہ تن گوش ہے۔ اسی باب میں پروفیسر راج کی پاروتی سے نامکمل محبت کے تلخ تجربے سے تھوڑی اداسی پھیلتی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ واقعہ قاری کو جہاں محبت کی خوبصورتی سے روشناس کرتا ہے وہیں جدائی اور بے وفائی جیسی حقیقتوں کا بھی ادراک بخشتا ہے۔ بعد ازاں کتاب میں راج کے وسیلے سے ہی ایک اور یادگار شخصیت کا اضافہ ہوتا ہے جس کا نام جمیلہ ہے۔

ایسا محسوس ہوتا نظر آتا ہے کہ جمیلہ بھی کسی خاموش محبت کا شکار ہے جو مجبوریوں کے ہاتھوں اظہار کرنے سے گریزاں ہے۔ اس میں زمانے کی بلاوجہ کی توقعات، فرسودہ نظام، شخصی آزادی، اور نسل در نسل خاندانی روایات کے اہم کردار کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ اس باب میں مانچسٹر کے خوبصورت موسم اور بارش کا بارہا ذکر پایا جاتا ہے۔ ایسے موسم میں ہمیشہ کی طرح کافی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ڈاکٹر شاہد صدیقی قارئین کے لیے مسکراہٹ کا باعث ہیں۔ یہ کتاب بلاشبہ اردو ادب میں ایک زبردست اضافہ ہے جسے پڑھنے سے نہ صرف دنیا کے تین انتہائی اہم خطوں کی سیر ہو جاتی ہے بلکہ ادب کی چاشنی اور شستہ اردو کا مزہ بھی اپنے اندر ایک الگ ہی لطف لیے ہوئے ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments